تحریر : انجینئر افتخار چودھری سعودی عرب پہنچنا کاردارد خدا خدا کر کے پہنچ ہی گئے یہ ٢٥ جولائی ١٩٧٧ کا دن تھا جب ہم کراچی سے عازم جدہ ہوئے۔بہترین سفاری سوٹ زبردست جوتے ہاتھ میں بیگ۔جدہ ایء پورٹ تو بعد میں آئے گا پہلے کچھ کہانی عمرے ویزے کی ہو جائے ویسے تو کہانی پیچھے چلتی چلتی ڈھکیاں محلے تک بھی لے جائی جا سکتی ہے لیکن شروع گجرانوالہ کے اس محلے سے کریں گے جہاں اللہ نے ہمیں ایک چھت دی تھی۔قبلہ والد صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ رات کو کام کاج سے فارغ ہو کر چھوٹے سے آدھے احاطے کے مکان کے مختصر سے ویہڑے میں بیٹھ کر اپنی کتھا سایا کرتے تھے۔میرا کام یہ ہوتا تھا قبلہ والد صاحب کا حقہ تازہ کرنا۔ان کا پہناوا بلکل حکیم مشرق جیسا تھا۔لاچہ اور آدھے بازوئوں کی بنیان پہن کر حقے کے کش لگاتے اپنی کہانی سنایا کرتے ہر باپ اپنی کہانی سناتا ہے اپنی تنگی اور تکلیف کے دنوں کا ذکر کرتا ہے اور بچوں کو بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس نے آپ کے لئے بہت کچھ کیا۔والد صاحب کے قصے کہانیاں پدرم سلطان بود میں لکھ چکا ہوں اور ویسے بھی کسی اور ابے کی داستان میں کیا رکھا ہوتا ہے ابا اپنا ہی اچھا ہوتا ہے۔کرنل شفیق الرحمن نے کسی جگہ لکھا ہے کہ پاکستانی بچے بڑے اچھے ہوتے ہیں مگر ان میں خرابی یہ ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ہم بچے اچھے تھے بڑے ہو کر ہم بھی شفیق الرحمن والے بڑے ہو گئے۔
ہم ابا جی کو چا چا جی کہا کرتے مشترکہ فیملیز میں حادثے ہو جاتے ہیں۔تایا کے بچے جو کہیں گے وہ بھی آپ کو کہنا ہو گا۔تائی جان آپا ہم بھی انہیں آپا ہی کہتے اسی طرح انہوں نے ابا جان کو چا چا جی کہا تو ہم بھی یہ لقب دے بیٹھے ۔بھائی تو ہوتے ہی الگ ہو جانے کے لئے ہوتے ہیں کل نبیل نے اپنے بیٹوں کی تصویر لگائی چھوٹا اپنے بھائی کی جانب دیکھ رہا ہے اس نے کہا عنوان دیں تو سچ پوچھیں کہ میرے ذہن میں وہ تصویر بھی ابھری جب میں اور بڑے بھائی والدین کے ساتھ لاہور والے چچا حیات کے بچوں ے ساتھ چڑیا گھر گئے وہاں بڑے بھائی کہیں الگ ہو گئے تو میں پریشان سا ہو کر رہ گیا۔یہ پریشانیاں بھی کیا عارضی ہوتی ہیں ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ مہینوں متے نہیں ۔یہی وہ دن ہیں جو ماں باپ کے لئے اچھے ہوتے ہیں دادی امں نے ایک بار بے جی کو ڈانٹا جب انہوں نے بچوں کو پیٹا تھا ماں جی کہنے لگے یہی وہ دن ہیں تمہاری خوشی کے ترسو گی ان دنوں کو ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد تھوڑا عرصہ رانا موٹرز میں اپرینٹس شپ کی۔ان دنوں تیل نکل آیا تھا دھڑا دھڑ مائوں کے بیٹے مشرق وسطی جا رہے تھے ہمارے شہر مین ایک ظفر شاہ ہوا کرتے تھے وہ حج اور عمرے کا کامل کرتے تھے ان دنوں گجرانوالہ کی دیواروں پر معلم یحی سقاط کے اشتہارات لکھے گئے پائے جاتے تھے شاہ جی انہی کے نمائندے تھے۔
ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ تعلیم سے فارغ ہوتے ہی کسی کام میں جت جائے ۔مجھے بھی پاسپورٹ بنوانے پر لگا دیا گیا۔اور وہ بن بھی گیا میرا نام افتخار احمد راہی تھا۔یہ راہی نام بھی بھی میری اردو ادب سے محبت اور شاعری سے لگائو کی وجہ سے ہوا ۔میں نے یہ تو بتایا ہی نہیں اردو سے لگائو بچپن سے ہے میں نے پہلی تقریر غالبا ١٩٦٢ میں کی جب میں دوسری جماعت کا طالب علم تھا شہابالدین غوری کا مضمون رٹا ہوا تھا کسی نے نہیں بتایا کہ تقریر میں عنوان نہیں پڑھے جاتے مگر میں فر فر پڑھتا گیا استاد جی نے سراہا اور کہا کہ مضمون تو پڑھیں مگر تقریر ایسے نہیں کی جاتی۔بعد میں تقریر کرنی اسکول میں سیکھی ۔پاسپورٹ بنا لیا شاہ جی نیلا گنبد لے گئے وہاں کسی ایجینٹ کے حوالے کیا جس نے آٹھ ہزار روپے کا ریٹرن ٹکٹ ہاتھ میں تھمایا کچھ کاغذ پر کئے اور کہا شاباش اب کراچی جائو اور وہاں سے ویزہ لگوا کر باہر چلے جائو۔ضیاء کا مارشل لائلگ چکا تھا۔میرے ساتھ ایک اور لڑکا بھی کر دیا گیا غالبا نام عبدالروئف تھا وہ جماعت اسلامی کے امیر چودھری محمد اسلم کا بیٹا تھا جمیعت اور جماعت کا تعلق تو تھا ہی میں نے سمجھا صالح رفاقت میسر ہو گئی ہے ۔ہم ٹرین میں بیٹھے اور کراچی پہنچ گئے کراچی میں ایک کمرہ لیا یہ کینٹ اسٹیشن کے پاس ایک ایرانی کا ہوٹل تھا چھوٹا سا کمرہ غلاب ا٢٥ روپے روزانہ پر ملا تھا۔کمرے میں دو چارپائیاں تھیں۔
اگلے روز سعودی قونصلیٹ پہنچے وہاں لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔یہ سب لوگ عمرے کا ویزہ لینے قطار میں لگے ہوئے تھے اور اصل میں ان میں سے کوئی بھی عمرے کی نیت سے نہیں جا رہا تھا سعودی عرب تیل کی دولت سے مالامال ہو گیا تھا یہ بیچارے اپنے حصے کی چوپڑی کی تلاش میں جا رہے تھے۔ہم لائن میں لگے ہوئے تھے تو ایک لڑکا ٹی شرٹ پہنے بیل باٹم پینٹ میں ملبوس گلے میں سونے کی زنجیر لمبی قلمیں بڑے بال مجھے بعد میں رجنی کانت کی فلمیں دیکھنے کا موقع ملا تو لگا یہ لڑکا ویسا ہی تھا اس نے کہا ویزہ لگوا دیتا ہوں کدھر ذلیل ہوتے پھرو گے روپیہ تین سو لگے گا۔مجھے اس کی باتوں سے لگا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے دوسری جانب ابا جی کا سلیپر بھی یاد آ رہا تھا باٹا کا ہاف کورڈ سلیپر اور میں گہرے دوست ہیں بایاں ہاتھ کنپٹی کے اوپر اور اس کے اوپر اس سلیپر کی چٹاخ چٹاخ آج بھی یاد آتی ہے۔میں نے ڈن کر دیا ہوٹل پہنچے تو دل میں سینکڑوں وسوسے لوگوں نے بتایا کہ پاسپورٹ کی فوٹو بدل کر لوگ جا رہے ہیں شام کو اس کے گھر فون کیا کہ ہوٹل آئو اور مل جائو ڈر بس یہی تھا کہ کہیں ہاتھ نہ ہو گیا ہو۔
غالبا تحسین نام تھا اس کا اس نے ہماری باتوں سے اندازہ لگا لیا کہ ہم اس پر شک کر رہے ہیں۔اس ے کہا میں ایک خاندانی آدمی ہوں یہ پیسے پاس رکھیں میں کل پاسپورٹ پر ویزہ لگوا کر لے جائوں گا اگر پاسپورٹ کا ڈر ہے تو مزید گارنٹی کے لئے رقم دیتا ہوں ہمیں تسلی ہو گئی اور کہا نہیں بھائی ایسی بھی کیا بے اعتباری آج کے بعد آپ ہمارے دوست۔ تحسین چلا گیا تو کمرے میں ایک ایسی بو پھیلی جو میں نے گجرانوالہ سے لاہور کے سفر کے دوران ہیپیوں کے پاس سونگھی تھی میں نے کہا روئف یہ کیا ہے یہ کیسی بو ہے ۔اس نے لمبا کش لگاتے ہوئے کہا میں نے آپ کو باتوں باتوں میں بتایا کہ میں چرس پیتا ہوں لو سوٹا لگائو میں نے اسے کہا یار باپ تمہارا جماعت اسلامی کا امیر ہے اور تم کش لگاتے ہو کہنے لگا وہ ان کا کام ہے اور یہ میرا میں ویسے بھی کچھ رقم کما کر جرمنی نکل جائوں گا کون سعودی عرب جیسے بھونگے ملک میں رہے گا۔ہم دو عارض دوست بچھڑ گئے ایک بار اپنے جگری یار شوکت حیدری کے ساتھ پنڈی جا رہا تھا یہ برسوں بعد کی بات ہے کہ اخبار میں خبر پڑھی کیہ باہر سے پولیس کے ایک ایسے دستے نے رو ء ف چودھری نامی گرامی سمگلر کو گرفتار کر لیا ہے جو دینی کتابوں میں نشہ آور چیزیں سمگل کیا جاتا ہے۔اللہ پاک چودھری اسلم مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت بخشے۔یہ نصیب کی بات ہے سید مودودی کو بھی نالائق اولاد ملی اور گجرانوالہ کے چودھری اسلم کو بھی۔یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے کہ جیسا باپ ہو ایسی اولاد یا اس سے بہتر۔شوکی کو میں نے قصہ بتایا تو وہ بھی حیران رہ گیا۔
تحسین اگلے رو پاسپورٹ لے کر آ گیا۔ہم پاسپورٹ لئے گجرانوالہ پہنچ گئے ۔اور سعودی عرب جانے کی تیاری شروع کر دی۔والد صاحب ساتھ آئے ہمیں ایک گروپ کی شکل میں جانا تھا اس رات والد صاحب کے ساتھ چھت پر سویا ہوا اس قدر خوبصورت تھی کہ لمحوں میں نیند آ گئی۔کوئی آدھی رات کے وقت چا چا جی نے اٹھایا کہ چلو پتر ایئر پورٹ کے لئے نکلتے ہیں۔کوئی بس تھی مجھے تو ایسا لگا کہ قیدیوں کی بس ہے۔لوگوں کو بند کر کے باہر کے ملکوں میں بھیڑیوں کے آگے ڈالا جا رہا ہے میں اکیس سال نو مہینے کا تھا لمبا تڑنگا۔ایئر پورٹ پر بڑا رش تھا انہی دنوں پتہ چلا شکیل ایکسپریس پر چھاپا پڑا تھا۔ہم بھی شائد اسی کے ذریعے ویزے لگوا کر جا رہے تھے۔لائن میں جب میرا نمبر آیا تو پاسپورٹ آفیسر کے ہاتھ میں دیا میں کچھ پڑھ رہا تھا ۔اس مہربان سندھی نے پاسپورٹ دیکھا اور پوچھا کیا پڑھ رہے تھے میں نے کہا آئت الکرسی پوچھا کیوں؟جواب دیا مہر لگ جائے اور میں سعودی عرب جا کر غریب ماں باپ کا سہارہ بنوں۔افسر نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں شائد اس نے تصدیق کر لی تھی ٹھپ سے مہر لگائی اور کہا پہلا کام عمرہ کرنا اور دعا کرنا۔میں نے ہاتھ چوم لئے یاد رہے مجھ سے پہلے بیسیوں کو الگ کر دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا شکیل ایکسپریس کے سارے ویزے درست نہیں۔
جن لوگوں کو اللہ کی کلام کے ان فوائد کا علم نہیں وہ مجھ سے سیکھیں۔سب ہی اپنے والدین کی قسمت بدلنے جا رہے تھے اور میں بھی شائد اسی اللہ کی کلام کی برکت تھی۔
اب اگلہ مرحلہ ڈیپاچر لائونج میں جا کر والد صاحب کو بتانا تھا کہ ایگزٹ لگ گیا ہے۔میں نے لائونج کے کنارے کھڑے ایک شخص کو بتایا کہ یار اگر مہربانی کرو تو والد صاحب سے ملنے دو۔آپ حیران ہوں گے کہ اس گارڈ نے مجھے ساتھ ہی ایک سٹیل گیٹ کی جانب جانے کو کہا یہ ٧٧ کا پاکستان تھا میں باہر آ گیا والد صاحب کے گلے لگا اور انہوں نے دعا دی۔میں پھر واپس آ گیا۔پی آئی کی کسی پرواز پر بٹھا دیا گیا اب میں آپ کو پیچھے ہزارہ کی جانب لے جاتا ہوں ہمارے گائوں سے تھوڑی ہی مسافت پر گائوں پینہ ہے لورہ روڈ پر یہ گائوں ندی ہرو کے کنارے ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔اس علاقے کی خوبصورتی سے کسی کو کیا مطلب ۔لوگوں نے یا تو فوج میں بھرتی ہو کر مرنا ہے یا ادھر پچھواڑے میں بنے کیپیٹل سٹی میں چھوٹی موٹی نوکریاں کر کے گزر بسر ہوتی ہے۔ بھلا ہو ستر کی دہائی میں عربوں کا تیل نکل آیا ورنہ ان بے چاروں کا تیل تو اس علاقے کے جاگیر داروں نے نکال ہی دیا تھا۔یہاں کی زیادہ آبادی عباسی گجر اور اعوان گھرانوں پر مشتمل ہے ظاہر ہے ان کا کوئی پیر و مرشد بھی ہوتا ہے کچھ سید کچھ سامان چرم سے روزی کمانے والے اور کچھ دھاگوں سے ستر بنانے والے یہ سب شیر وشکر ہو کر رہتے ہیں یہاں امن کی صورت حال بہت بہتر ہے مدتوں بعد کوئی بری خبر آتی ہے ۔٢٥ جولائی ١٩٧٧ کی صبح جدہ کے ہوئی مستقر پر پی آئی اے کی ایک فلائیٹ مجھے چھوڑ گئی ان دنوں لوگ دھڑا دھڑ عمرے ویزے پر یہاں پہنچ رہے تھے۔ایئر پورٹ جو کندرہ میں ہوا کرتا تھا چھوٹا سا ایئر پورٹ تھا شائد راوالپنڈی کے چکلالہ ایر پورٹ جیسا دو دو عشرے پہلے تھا۔
میرے پاس بس ایک پتہ تھا ایک انگلش کمپنی اسٹریٹرز آف گوڈل منگ کا ایڈریس تھا۔خدا خدا کر کے دن کے دس بجے ان کی تلاش شروع ہوئی اور رات آٹھ بجے میں اپنے عزیزوں کے پاس پہچ گیا ساری زندگی گجرانوالہ گزاری تھی وہاں کوئی ٹھکانہ ملا تو وہ میرے ننھیالی رشتہ داروں کا تھا جو وہاں ماسٹر غلام محمد کی زیر نگرانی کام کیا کرتے تھے۔وہ تین کمروں کا گھر تھا تیسرا تو باورچی خانہ تھا باقی دو ہی کمرے تھے۔گھر میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ ایک کمرہ ہمارا مسکن ٹھہرا ماسٹر صاحب میرے رشتے داروں میں سے تھے۔انتہائی قابل اور ریاضی کے نامور استاد تھے چھٹی لے کر جدہ نکل گئے تھے ان کے ساتھ لسن گائوں کے ہی بھائیا ولی،کاکا،شیر زمان، ماستر سیف الرحمان شفیق سمند کے چودھری یونس بابو اشرف پینہ اور میرے گجرانوالہ محلہ باغبانپورہ کا ایک پٹھان بھائی گل خان بھی تھا۔نواں میں بھی جا پہنچا میرے جانے کے بعد کوئی ایک بھائی دوسرے کمرے میں شفٹ ہو گیا۔وہ بھی کیا دن تھے ایک کمرہ جس میں آٹھ گدے اور ان پر دس آدمی لسویا کرتے تھے۔کمرے اے سی نہیں تھا اس لئے کہ جدہ میں اس وقت ناکافی بجلی تھی ایک چائینہ کا سبز سا پنکھا ٹیٹ کمپنی کا رون رون کرتا رہتا تھا۔سارے مزدور لوگ دن بھر مزدوری کرتے رات کو بنیانیں پہنے وقت گزارتے تھے۔کبھی کبھی جب سوچتا ہوں کی کیا میں وہی تھا جو اس مشکل وقت سے گزر گیا۔بابو اشرف سے میری دوستی وہ گئی وہ بھی بڑے تیز و تند مزاج کے تھے اور میں خود بھی کم نہ تھا ایک دو بار کسی بات پر جھڑپ ہوئی بعد میں ایک دوسرے کو برابر کی طاقت سمجھ کر سمجھوتہ کر لیا جو بعد میں گہری دوستی میں تبدیل ہو گیا۔میرے جانے کے بعد ان کے معاملات سدھر گئے مجھے کھانے پینے اور پکانے کا تجربہ تھا جاتے ہی مٹی کے تیل والے چولہے پر جو راہداری میں رکھا رہتا تھا مرغی پکانے کی ابتداء کی سالن میں پہلے دانہ کوئی کوئی ہوتا تھا مرغی پکتی تو تھی مگر کبھی کبھی۔اس پر ایک بار گل خان نے احتجاج کیا کہ دیکھو بابو!تمہارے آنے سے پہلے اور آنے کے بعد میرے حالات نہیں بدلے مجھے اس وقت بھی مرغی کا آخری حصہ ملا کرتا تھا اور اب بھی۔گل خان اکیلا پشتون تھا جو ہم میں موجود تھا مجھے میرا بچپن یاد آ گیا مولوی نوری صاحب مرحوم کی مسجد کے سامنے بھائی اللہ رکھے کے گھر کے پاس اس کا لکڑیوں کا ٹال تھا مجھے اچھا لگتا تھا میں نے مذاق کیا کہ خان صاحب کل سے آپ کو مرغی کا اگلا حصہ ملے گا۔وہ کہنے لگا یہ جو چوڑی ہے ناں چوڑی یہ ماسٹر کھا جاتا ہے اس لئے کہ وہ فورمین ہے۔حالنکہ ایسی بات نہیں تھی۔
میں نے انہیں اپنا حصہ بھی دینا شروع کیا یوں پردیس میں ہم شیر و شکر تھے۔کاش ہ پاکستان میں بھی ہوں۔بابو اشرف سے مزید دوستی اس وقت پختہ ہوئی جب ہم پر ایک عذاب نازل ہوا ۔ہوا یہ کے ساتھ والے کمرے میں رہائیشی ایک پختون بھائی نے جڑی منزل کی بالکونی میں کھڑی کسی لڑکی کو لائن مارنے کی کوشش کی اور کیمرے کی فلش مار دی۔ہم سب وہاں عمرے کے ویزے پر تھے انہوں نے پولیس کو بلوا لیا شام کو چھاپہ پڑا۔اللہ بھلا کرے ماسٹر صاحب بچ گئے انہوں نے اس راستے پر سیف الرحمان کو کھڑا کر دیا۔جس سے میں بھی بچ گیا۔ وہ جامعہ گول دائرے کے پاس ایک گلی کی نکڑ پر کھڑا ہو گیا۔یہ بھی کمال کی بات ہے ایسے میں کون کسی کی پرواہ کرتا ہے۔سیف الرحمن اللہ اس کی عمر دراز کرے۔اس نے کہا بھائی افتخار میرے ساتھ آ جائے ادھر نہیں جانا چھاپہ پڑا ہے۔میں اس کے ساتھ چل دیا یہ کلو ستہ کا علاقہ تھا یہاں شہر بھر کا کچرا ڈمپ کیا جاتا تھا ۔کلو ثمانیہ میں مصانع التیسر للتلج ہے برف کا کارخانہ اسی کے ساتھ سے ایک سڑک سیدھی اندر جاتی ہے۔کوئی ڈیڑھ کلو میٹر کے بعد کالوں اور غریبوں کی جھپڑ پٹی میں ہمارا آشیانہ بنا ایک اجڑے ہوئے مسافر کا گھر۔ہمیں وہاں دوستوں نے جگہ دی۔پھر جلد ہی ہم نے اپنا گھر لے لیا۔لوگوں کے نام یاد نہیں رہے ۔کسی کے ساتھ رہنا میرے بس میں نہ تھا میں نے الگ سے اپنا گھر لیا اسے ڈیرہ کہا جاتا تھا ۔ایک کمرے والا گھر اچھی طرح یاد ہے۔یہیں بھائی عنائت چودھری یونس ارشد بھٹی فیصل آباد کا ایاز سیف الرحمن کوئی ایک آدھ اور۔لکڑی کے بالوں اور چند بلاکوں سے بنا گھر اس کا دروازہ سڑک پر کھتا تھا داخل ہوتے ہی واش روم کونے میں ایک باورچی خانہ۔باورچی خانہ کیا تھا ایک پھٹہ لگا ہوا تھا اس کے اوپر ہم نے بتیوں والا چولہ رکھا تھا۔صحن میں رات کو گدھے بچھا لئے جاتے اور روزی کی تلاش میں منتشر لوگ خراٹے مارتے۔اس گھر میں میری رونققیں اس قدر تھیں کہ آئے روز پارٹی کرتا تھا۔ان دنوں ویڈیو کرائے پر ملتا تھا وی سی آر ٹی وی اور فلم کا کرایہ کوئی ڈیڑھ سو ریالا تھا میں رات کا کھانا بڑی مقدر میں پکواتا دوستوں کو اکٹھا کرتا۔مجھے یاد ہے کالا پتھر اور جانی دشمن بھی وہیں دیکھی۔
پہلی آزمائش بھائی ولی ہمارا رشتے دار تھا وہ بے چارہ بیمار ہو گیا۔سب لوگ کام پر چلے جایا کرتے وہ اکیلا کمرے میں ہوتا۔میں تلاش رزق میں ادھر سے ادھر ہوتا رہا ایک بار ارگاس میں کام مل گیا یہ جیالوجیکل سرویئنگ کمپنی تھی ٹک نہیں سکا واپس آیا تو بھائی ولی نے کہا بابو اچھا کیا واپس آ گئے ہو یہ کیسا پردیس مل لیا تھا گھر سے یہاں پردیسی اور یہاں سے آگے پردیسی اللہ روٹی دے گا۔ہمارے اس ڈیرے کے اصول تھے کہ بے کار اور بے روزگار سے خرچہ نہیں لیا کرتے تھے اس سنہری قانون سے سب سے زیادہ فائدہ میں نے اٹھایا۔بھائی ولی کو ٹی بی تھی ہم اس کی دیکھ بھال کرتے ایک روز ہم اسے داغستانی ہسپتال لے گئے جو شارع فدا محمد پے تھا اب شائد اس کا نام المستقبل ہے۔وہاں ولی خون تھوک رہا تھا ایک ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ یہاں علاج مہنگا ہے آپ لوگوں کی حالت ٹھیک نہیں لگتی اسے سرکاری ہسپتال لے جائیں۔ہم بھائی ولی کو باب شریف ہسپتال لے گئے وہاں داخل کیا کرایا جمع کرا دیا ہم لوگ رات کو اس کے پاس چکر لگاتے ہاتھوں میں سر خ رنگ کے سخت چلی کے سیبوں کا کلو کلو لے جاتے ۔وہاں ایک روز مجھے ایک عربی نے بتایا اس کا تو کوئی علاج نہیں ہو رہا ۔کوئی بند وبست کرو ہماری کون سنتا تھا میاں محمد بخش نے اسی لئے تو نہیں کہا تھا کہ پردیسی تو ککھوں ہولے ہوتے ہیں۔ہم بے وزن لوگ اس ملک میں تھے جہاں کے والی نے کہا تھا کسی عربی کو عجمی پر ترجیح نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے۔میرے آقامحمدۖ میں نے یہ دونوں تفریقیں آپ کے بطحاء میں دیکھی ہیں۔مجھے پورا یقین ہے ولی کی موت کے ذمہ داران کو آپ روز محشر ضرور پوچھیں گے۔ایک روز بھائیا ولی مر گیا۔مرنا وہاں مشکل مگر مر کے واپس پاکستان آنا مہا مشکل۔اس کے پاس قانونی کاغذات نہیں تھے۔اقامے والے کی قدر اس دن یاد آئی کہ اقامہ کیا ہوتا ہے۔میرے پاس اقامہ نہیں تھا میں نے ہمت کی اور سب ڈیرے والوں سے کہا میں بھائی لی لاش پاکستان لے کے جائوں گا یہ بات میرے عام قاری کے لئے کچھ نہیں ہے لیکن جو سعودی عرب رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں۔یہ پہلی بڑی آزمائش تھی۔لاش کی روانگی کے لئے گورنر ہائوس سے حکم نامہ لینا ایک بڑا کام تھا میں گورنر ہائوس چلا گیا اللہ کا شکر ہے کسی نے مجھ سے اقامہ نہیں پوچھا میں نے درخواست دی مجھے چار محکموں کے نام ہدائت نامے ملے جن میں کسٹم ایئر پورٹ اور پتہ نہیں دو کس محکمے کے تھے میرے لئے چیزیں آسان ہوتی گئیں۔اس زمانے میں ١٩٧٨ میں صرف ایک ہفتے میں ایک غیر قانونی مقیم بھائی کی لاش پاکستان ھیج دی لاش کے ساتھ ماسٹر غلام محمد بھی آئے بھائی ولی کو پاکستان بھیجنا میری پہلی آزمائش تھی جس پر اللہ میاں نے مجھے سرخرو کیا۔ (جاری ہے)