کیا ایک آمر جو ڈیل کے تحت رہائی کا پروانہ حاصل کر چکا کی لاجسٹک سپورٹ کی کرشمہ سازیوں سے آج پوری قوم دو چار نہیں؟ کیا ہم اُس خونی باب کو بھول سکتے ہیں جو باجوڑ کے مدرسہ ضیاء العلوم کے معصوم طلبا کے خون کے چھینٹوں سے رنگین ہوا اور معصومین کی لاشوں کو دہشت گردی کے خاتمے کا عنوان دیا گیا کیا ہم اُن باپردہ سیدھی سادی بے خبر مائوں کو بھول سکتے ہیں جو مدرسے کے ملبے اور خاک کے ڈھیر سے اپنے بچوں کے اعضاء، کپڑوں کی دھجیاں، اور جوتے تلاش کرتیں فریاد کناں تھی۔ کیا اس خون ناحق کے چھینٹے مشرف کے دامن پر نہیں؟ وزیرستان کے لوگوں پر بارود کا آسماں اور پائوں تلے خون کی زمین بچھانے کا جرم کس کے کھاتے میں ڈالا جائے؟ ڈرونز کی آگ میں دھرتی کا سکون، امن، آتشی، آزادی، خود مختاری، دو قومی نظریہ اور اسلامی دفاعی سٹریٹجی بھسم کرنے کا مجرم کون ہے۔
امریکیت کی جنگ کا عفریت جان ومال ،عزت و آبرو ہر چیز کو نگلتا جارہا ہے ،جنوبی اور شمالی وزیرستان کی سرزمین سے اُٹھتا دھواں ہے ،سسکیاں ہیں اور آہ وفغاں کا شور ہے کہ کلیجہ پھٹتا ہے درگئی کے فوجی تربیتی مرکز پر خود کش حملہ جو چالیس فوجی جوانوں کی شہادت پر متنج ہوا کیا اُن کے کٹے ،پھٹے اعضاء چیخ و پکار کا منظر بھلایا جا سکتا ہے مکہ لہرانے والے ننگ ِ وطن نے اکبر بگٹی کی لاش کی شکل میں کیا ملکی سالمیت کی لاش نہیں گرائی کہ آج پنجاب سے بسلسلہ روزگار بلوچستان جانے والے بے گناہوں کو گاڑیوں سے اُتار کر ذبح کیا جا رہا ہے کیا صدموں سے چُور ورثا ء کے دلوں کو چیر کر دیکھا جا سکتا ہے۔
عرصہ قبل میرے مربی جماعت اسلامی کے رہنماء میاں مقصودمیرے شہر تشریف لائے تب غیرت سے عاری آمر وزیرستان میں آپریشن کی شروعات کرنیوالا تھا میاں مقصود جیسے دور اندیش ،محب وطن رہنمائوں نے بھانپ لیا تھا کہ وزیرستاں میں پاک آرمی کو اُتارنے کا جرم اگر کیا گیا تو وطن عزیز پرائی آگ سے کبھی نکل نہیں پائے گا میاں مقصود کے الفاظ آج بھی میرے ذہن میں کندہ ہیں میں نے ایک سوال میاں مقصود کے سامنے رکھا تھا کہ آپکے پاس سٹریٹ پاور ہے آپ مشرف کے اس فیصلے کے خلاف عوام کو شاہرات پر کیوں نہیں لاتے؟ میاں مقصود نے بڑا معقول جواب دیا تھا کہ ہم اپنے ملک کی فوج اور عوام کو آمنے سامنے نہیں لانا چاہتے ہاں مگر مشرف کے اس فیصلے کے خلاف آواز ہم بلند کرتے رہیں گے پھر یوں ہوا کہ ایک ہی زمیں، ایک ہی آسماں، ایک حکومت، ایک رسول، ایک قرآن اور ایک کلمے کے رشتے میں جُڑے دو فریقوں کو باہم دست و گریباں کر دیا گیا میاں مقصود کا سچ آج اپنی قدو قامت کے ساتھ میرے سامنے کھڑا ہے اسلام اور قرآن سے ٹکرائو کی جو روش اور پیش قدمی ایک آمر نے کی اُس کی آخری منزل آج بھی نظروں سے اوجھل ہے۔
Supreme Court
پاک فوج کی وردی اپنے بدن پر سجا کر اور پاک خزانے کا تنخواہ دار بن کر صلیبی کروسیڈ کے اتحاد سے حلف وفاداری نبھانے والے نے ملکی سالمیت کی دبیز چادر کو پارہ پارہ کر دیا کیا سلالہ چیک پوسٹ پر عسکری شہداء کی لاشوں کو ہم بھلا سکتے ہیں؟ مصحف علی میر سے لیکر ثناء اللہ نیازی شہید تک ایک ہی تسلسل ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آرہا اُن کے ورثاء کا مقدمہ کس عدالت میں دائر کیا جائے ؟کہ لال مسجد کے شہداء کے لہو سے ہاتھ رنگنے والے کو باعزت بری کیا جا رہا ہے۔
غیرت سے عاری اُس آمر نے اپنے آقا بُش کو اپنی روشن خیالی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ایمان فروشی کی آخری بولی یوں لگائی کہ نومبر 2006 کے آغاز میں نیو یارک کے ہوٹل میں پاکستانی وزارت ِ ثقافت و سیاست کے زیر اہتمام ہونے والی محفل موسیقی کی تقریب جس کے مہمان عالمی مالیاتی ادارے کے دلال شوکت عزیز تھے میں تلاوت قرآنِ پاک کو گانے کی لے پر گائیکی کے انداز میں پیش کیا روشن خیال آمر کے دور میں کیا کچھ نہ ہوا غربت، مہنگائی، مجبوری کے خطرناک اژدہوں سے ڈسی ہوئی معصوم اور مظلوم بیٹیوں کو آزادی نسواں کے پرفریب نعروں کے ساتھ گناہوں کے اندھے کنوئوں میں دھکیلا گیا امریکی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ڈالروں کی بارش میں حب الوطنی کا قتل کیا گیا ننگ ِ دیں، ننگِ عزت ،ننگِ ملت افراد کی مغرب زدہ بیٹیوں، بہنوں، بیویوں اور مائوں نے ملک اور اسلام دشمن این جی اوز کے سٹیجوں پر یورپی لباس پہن کر یہودی حلیئے بشرے میں امریکہ کے ایوانوں میں بیٹھ کر اسلام کی پاکیزہ قدروں کا مذاق اُڑایا این جی اوز کا سیلاب آیا اور ان میں کام کرنے والیو ں کے اخلاق و کردار نے غیر مسلموں کی جسارتیں اتنی بڑھائیں کہ مسلم عورتوں کے حجاب و نقاب پر پابندیاں لگانے والے قانون مرتب ہونے لگے امریکیت کے نمائندوں نے اپنے ناپاک قدموں کے ساتھ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے ایجنڈے لیکر غیرت مند عوام کے دین و ایمان کی بولی لگائی، بدنام زمانہ ریفرنڈم کرایا گیا۔
فیصل آباد میں صحافیوں پر سچ لکھنے کی پاداش میں تشدد کا ہر حربہ آزمایا گیا،12 مئی 2007 کو شہر قائد میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے استقبال کیلئے گھروں سے نکلنے والوں کی لاشوں کی بساط بچھائی گئی جن کے خون کے دھبے ابھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ اکتوبر 2007 محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبالی قافلہ پر روشنیوں کے شہر میں شب خون مارا گیا 27 دسمبر2007 کو سیاست پر ایک آمر نے کاری وار اس طرح کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹوکی لاش اُسی جگہ گرائی جہاں لیاقت علی خان کو گولی لگی مگر آج مجھے اُس افتخار محمد چوہدری کی تلاش ہے جس کی خاطر بھوکے پیاسے لوگو ں نے گھر کی دہلیز پار کی اور ایک آمر کی گولیوں کا خوف اُن کے حوصلوں کو نہ توڑ سکا 12 مئی2007 کو بانیء پاکستان کے شہر میں جنہوں نے جس افتخار محمد چوہدری کا استقبال اپنی جانوں کا خراج دیکر کیا اُن کی صابر مائیں اپنے لخت جگروں کے خون آلود کپڑے چوم چوم کر اُس افتخار محمد چوہدری سے انصاف کی بھیک مانگ رہی ہیں۔
مجھے آج ایک وطن دشمن آمر کی رہائی پر اُس افتخار محمد چوہدری کی تلاش ہے جو 12مئی 2007کے شہداء کے مقدمے کا مدعی تھا، میری آنکھیں اُس افتخار محمد چوہدری کا رستہ دیکھ رہی ہیں۔