گیارہ، بارہ، تیرہ وہ تاریخ ہے جو،اب سو سال بعد ہی آئے گی، چیف جسٹس آف پاکستان بھی اسی تاریخ ساز تاریخ کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری 11دسمبر 2013ء کو اپنے منصب سے ریٹائر ہو ئے۔ یہ عدد بنتے ہیں گیارہ، بارہ، تیرہ، آئندہ اس تاریخ کا مشاہدہ ایک صدی یعنی سو سال بعد 11 دسمبر 2113ء کو ہی کیا جائے گا۔ علم الاعداد میں دلچسپی رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ گیارہ، بارہ اور تیرہ کے اعداد کی مجموعی جمع 9 ہے جو صفر تا 9 ہندسوں کا آخری ہندسہ ہے جو ایک دور کے خاتمے کی نشاندہی کرتا ہے۔
دیکھا جائے تو افتخار محمد چوہدری پاکستان کے اٹھارویں چیف جسٹس تھے اگر اٹھارہ کے ہندسوں ایک اور 8 کو جمع کیا جائے تو یہ 9 ہی بنتا ہے، یہ سو سال پہلے گیارہ دسمبر 1913ء وہی دن تھا جب لیونارڈو ڈاونچی کے مصوری کا شاہکار مونا لیزا پورٹریٹ پیرس کے میوزیم سے چوری ہونے کے دو سال بعد ملاتھا۔ اسی تاریخ 11 دسمبر کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری، بھارت کے صد ر پرناب مکھر جی اور معروف اداکار دلیپ کمار اپنی سالگرہ منایا۔
بہت سے لوگوں کو ان سے بے شمار گلے شکوے ہیں تاہم جب وہ اپنے آخری مقدمہ کی سماعت کرنے کے بعد اپنے گھر گے ہونگے تو انہیں یہ اطمینان ضرور نصیب ہو گا کہ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی کا معاملہ ایجنڈے پر لائے ہیں۔یہ کہنا ابھی پیش از وقت ہے کہ آئندہ چیف جسٹس کی سرکردگی میں سامنے آنے والی عدالت عظمیٰ کیسی ہو گی۔ وہ کس حد تک ان اصولوں اور معیاروں کو پیش نظر رکھے گی جو افتخار محمد چوہدری نے بطور جج قائم کئے ہیں۔ ایوان ہائے حکومت اور متعدد سیاسی حلقوں میں بجا طور پر یہ امید کی جا رہی ہو گی کہ اب سپریم کورٹ اپنا جوڈیشل فعالیت کا رول کم کرے گی اور معاملات کو حسب سابق روایتی انداز میں طے کیا جائے گا۔ تاہم جانے والے چیف جسٹس نے جو روایت قائم کی ہے اسے مسترد کرنا آسان نہیں ہو گا۔
افتخار محمد چوہدری نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کئی کامیابیوں کا ذکر کیا ہے جو ان کی قیادت میں سپریم کورٹ نے حاصل کی ہیں۔ انہوں نے عام آدمی کے حق زندگی، بدعوانی کے تحت اٹھائے جانے والے فوائد، سرکاری معاملات میں حکومتوں کی ناکامی اور قانون کی بالادستی کے اصول کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی طویل تقریر میں یہ بات بھی زور دے کر کہی ہے کہ عدالت نے جس گرمجوشی اور دیانت داری سے مختلف اہم معاملات پر فیصلے کئے ہیں ان پر عملدرآمد میں حکومتی اداروں نے کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اس حوالے سے گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران زیر سماعت رہنے والے لاپتہ افراد کے مقدمہ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔ بار بار مہلت دینے کے باوجود حکومت نے 35 میں سے صرف 7 افراد عدالت کے سامنے پیش کئے۔ کوئی سرکاری ادارہ یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ یہ لوگ کس کی حراست میں ہیں اور کہاں رکھے گئے ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ نے کل اپنے فیصلہ میں وزیراعظم کو ذاتی طور پر اس اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اب ایک فعال، مستعد، چوکس اور محنت کش چیف جسٹس کے جانے کے بعد کیا وزیراعظم کو اس ذمہ داری کو پورا کرنے پر مجبور کیا جا سکے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا درست جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا تاہم یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ حکومت اپنی ڈگر بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اس لئے اگر سپریم کورٹ نے نئی قیادت کے تحت زچ آ کر اپنا رویہ تبدیل کر لیا تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہو گی۔
ممتاز قانون دان اور انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر نے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس کو سیاسی جج قرار دیا ہے اور توقع کی ہے کہ آئندہ جو جج آئیں گے وہ آئینی اور قانونی ہوں گے۔ بحالء عدلیہ تحریک کے پرجوش مقرر علی احمد کرد کا مؤقف ہے کہ چیف جسٹس کو غریب عوام نے بحال کروایا تھا لیکن عہدہ واپس لینے کے بعد انہوں نے مڑ کر عوام کی طرف نہیں دیکھا۔ پرویز مشرف کے وکیل اور سیاست دان احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ افتخار چوہدری نے عدالتی تاریخ میں یہ روایت قائم کی ہے کہ ججوں کی زبان بولتی ہے۔ اس سے پہلے ہم یہ سنتے تھے کہ ججوں کے فیصلے بولتے ہیں۔
ان انتہائی جارحانہ الزامات اور آراء سے قطع نظر کوئی شخص اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ افتخار محمد چوہدری کی بدولت ملک کے سیاسی جمود میں ایک تحریک پیدا ہوئی تھی۔ ایک مضبوط آمر ہر طرح سے اقتدار کو اپنے قابو میں کئے ہوئے تھا اور جسے بوجوہ اقوام عالم اور خاص طور سے مغربی ممالک کی مکمل سرپرستی اور اعانت حاصل تھی۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی قوتیں یا تو اس آمریت کے ساتھ تھیں یا عوام سے دور تھیں۔ ان میں سے کوئی پارٹی بھی عوام کو متحرک کرنے، سڑکوں پر لانے اور جمہوریت بحال کروانے کے لئے جدوجہد کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی تھی۔ تاہم افتخار چوہدری کی ایک نہ اور عزم مصمم نے اس آمریت کو چاروں شانے چت گرا دیا۔ انہوں نے عوام میں ایک نئی روح پھونک دی اور یہ باور کروایا کہ اگر ارادہ کر لیا جائے تو مضبوط ترین حکومت کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
Pervez Musharraf
افتخار محمد چوہدری نے فل کورٹ میں بطور چیف جسٹس اپنے آخری خطاب میں بجا طور پر ملک کے وکلائ، دانشوروں ، ججوں اور میڈیا کو بحالء عدالت کی تحریک چلانے اور کامیاب کرنے پر مبارک باد دی۔ تاہم یہ حقیقت فراموش نہیں کی جا سکتی کہ اس تحریک کا آغاز اقتدار پر قابض جرنیلوں کے جھرمٹ کے سامنے نہ کہنے کی وجہ سے ہی ممکن ہؤا تھا۔ پرویز مشرف چیف جسٹس کے طور پر افتخار محمد چوہدری کی بے باکی اور جراتمندی سے ناراض تھے۔ خاص طور سے 2006ء میں اسٹیل مل کی نجکاری کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر انہیں زک اٹھانی پڑی تھی۔ وہ اقتدار کے نشے میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ایک جج جسے انہوں نے خود چیف جسٹس بنایا تھا اور ایک ایسی عدالت جو ہمیشہ فوجی فیصلوں کی تابع رہی تھی ، اب ان کی ایک خواہش سے بغاوت پر آمادہ ہو جائے گی۔ اس تحریک کا آغاز کرنے والے بلا شبہ افتخار چوہدری ہی تھے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود ان سے کوئی یہ اعزاز نہیں چھین سکے گا۔
2007ء میں چلنے والی بحالء عدلیہ تحریک اور اس کے بعد سامنے آنے والے حالات سے یہ بھی واضح ہؤا ہے کہ یہ معاملہ محض آئین کی بالادستی یا ججوں کی ناجائز برطرفی کا نہیں تھا۔ ملک کے عوام بری حکمرانی، کساد بازاری ، بد عنوانی اور سیاسی محرومی سے تنگ آ چکے تھے۔ اسی لئے 2009ء کے بعد سامنے آنے والی عدلیہ سے بہت سے توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عدلیہ ان امیدوں پر پوری نہیں اتری۔ تاہم اس موقع پر یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ایک بگڑے ہوئے نظام میں جہاں اداروں کا وجود ختم ہو رہا ہے اور سیاست دان و بیورو کریسی یکساں طور پر اقربا پروری اور بدعنوانی کا شکار ہیں محض عدالتوں سے تبدیلء احوال کی امید کرنا بھی غیر ضروری طور سے بہت بڑی توقع وابستہ کرنے کے مترادف ہے۔سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس پر یہ الزام بھی عائد ہے کہ انہوں نے بھی 1999ء میں پرویز مشرف کے ”پی سی او ”پر حلف لے کر ایک آمر کی وفاداری کا اعلان کیا تھا اس لئے بعد میں مؤقف کی تبدیلی محض ذاتی جاہ پسندی کا شاخسانہ تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بحث ایک گنجلک معاملہ ہے جس پر تاریخ ہی اپنا کوئی فیصلہ صادر کرے گی۔ تاہم بات کو سمجھنے کے لئے یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ ظلم کے خلاف تحریک کسی ایک شخص کی ذاتی مجبوری یا محرومی کی بنیاد پر ہی شروع ہوتی ہے۔ اس لئے اگر افتخار چوہدری نے محض اپنے عہدے کو بچانے کے لئے استعفیٰ دینے سے انکار کیا تھا پھر بھی ان کے اس اقدام سے ملک میں ایک نئی سیاسی اور عدالتی تاریخ نے جنم لیا ہے۔ اس نئے عہد کی اہمیت کو کسی ایک فرد کے ماضی کے داغوں کی وجہ سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
افتخار محمد چوہدری پر ان کے صاحبزادے ارسلان افتخار کے مالی معاملات کے حوالے سے بھی لے دے ہوتی رہی ہے۔ یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ ارسلان ایک معمولی ڈاکٹر سے کروڑ پتی بزنس مین کیسے بن گیا۔ اس حوالے سے کھرب پتی ملک ریاض کے الزامات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی مقدمے بازی کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔ سپریم کورٹ کے بنچ نے یہ معاملہ دو افراد کا باہمی معاملہ قرار دے کر خارج کر دیا ہے۔ ملک ریاض نے بھی اس معاملہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے بعد اس بارے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ اس معاملہ کے کئی افسوسناک پہلو ہیں اور ارسلان افتخار کا معاملہ چیف جسٹس کے کیریئر پر بہرطور ایک دھبے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
ان پہلووں سے قطع نظر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ایک ایسے جج کے طور پر یاد رکھا جانا چاہئے جنہوں نے مسلسل قانون کی حکمرانی کی بات کی اور اس حوالے سے متعدد اہم معاملات میں حکم صادر کئے۔ انہوں نے ریاست کے اہم ستونوں کو جھنجھوڑنے اور متحرک ہونے کے لئے رول ادا کیا۔ اور خاص طور سے سپریم کورٹ کو نئی قوت اور تحریک عطا کی۔ ان کے کردار، فیصلوں، رویوں اور طریقہ کار سے اختلاف کے باوجود اس اصول سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں آئین کی بالا دستی ہونی چاہئے اور تمام فرد اور ادارے اس کے تابع ہونے چاہئیں۔ اور نہ ہی اس تاریخی واقعہ سے انکار ممکن ہو گا کہ افتخار چوہدری کی ایک نہ نے ملک میں چھایا ہوا سیاسی جمود توڑ دیا تھا۔