تحریر : عبدالرزاق چودھری ایک وقت تھا جب افتخار محمد چودھری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ معمولی سے معمولی اور بڑے سے بڑے واقعہ پر از خود نوٹس لینا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔اور تو اور ہماری پسندیدہ اداکار عتیقہ اوڈھو بھی از خود نوٹس کی زد میں آ گئیں اور معاملہ تھا ایک عدد شراب کی بوتل کا۔سیاست دان بھی عدلیہ سے متعلق بڑی ناپ تول کر بات کیا کرتے تھے ۔ ادھر سیاست دانوں کی موصوف سے متعلق زبان پھسلنے کی دیر تھی کہ نوٹس ملنے میں لمحہ بھر کی تاخیرنہ ہوتی تھی ۔وجہ یہ تھی کہ چودھری صاحب کے دماغ پر ملک سنوارنے کی دھن سوار تھی جو قابل تعریف بھی تھی اور قابل ستائش بھی۔وہ ملک کو ہر برائی سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی کرپشن تو ان کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔اسی لیے اکثر پیپلز پارٹی کی کرپشن گاڑی کے ٹائروں کی ہوا نکال دیا کرتے تھے۔
اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی سبکی تو بھولنے میں ہی نہیں آ رہی۔ وہ عدالت کے رو برو یوں حاضری دیا کرتے تھے جیسے چودھری صاحب کے ماتحت ہوں۔تب یوں دکھائی دیتا تھا جیسے اقتدار کا حقیقی سر چشمہ تو افتخار چودھری ہیں گیلانی صاحب تو برائے نام ہی ملک کے سربراہ ہیں۔ملک کے طول وعرض میں چودھری صاحب کے انصاف کا بول بالا ہونے لگا۔جلد ہی چودھری صاحب پوری قوم کی آس اور امید کا محور بن گئے اور شہرت جناب کے گھر کی لونڈی بن گئی۔حکومتی عہدے دار بھی چودھری صاحب کے رعب داب،شان و شوکت اور دبدبے کے سامنے بے بسی کی عملی تصویر بنے دکھائی دیتے تھے۔میڈیا بھی چودھری صاحب کے قصیدے پڑھنے میں مگن تھا اور تاثر یہ دیتا تھا کہ آپ کے انصاف کی چھتری تلے ملک کی تقدیر سنورنے کو ہے۔اور سچ تو یہ ہے کہ فعال اور متحرک چودھری صاحب کے اقدامات سے دکھائی بھی ایسا ہی دینے لگا تھا کہ ملک کی قسمت بدلنے میں بس چند دنوں کی ہی دیر ہے ۔ کرپشن ختم ہو جائے گی۔ گڈ گورننس کا بول بالا ہو گا۔ غریب کو سستا انصاف مہیا ہو گا اور ملک میں چین کی بانسری بجنے لگے گی۔عوام پر جوش تھی پر امید تھی اور سنہرے دنوں کے خواب آنکھوں میں سجانے لگی تھی۔کالم نگار ، تبصرہ نگار اور اینکرز حضرات دن رات چودہدری صاحب کی مدح سرائی میں محو تھے اور پیپلز پارٹی حکومت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے تھے آخر نتیجہ وہی برآمد ہو ا جس کی توقع تھی ۔ پیپلزپارٹی چاروں شانے چت ہو گئی ۔
PPP
یکے بعد دیگرے دو وزیر اعظم رسوا ہوئے اور گھر چلتے بنے اور چودھری صاحب کے جا ہ و جلال میں چار چاند لگ گئے ۔ عوامی مقبولیت اور محبوبیت انتہا کو چھونے لگے ۔ آپ کے انصاف کا اندرون ملک اور بیرون ملک طوطی بولنے لگا اور آپ کو بیرون ملک بھی اعزازات سے نوازا جانے لگا۔پھر اچانک چودھری صاحب کی زندگی میں اک یو ٹرن آیا اور قسمت کی دیوی آپ سے روٹھ گئی۔چودھری صاحب کا بیٹا قومی افق پر نمودار ہوا اور چودھری صاحب کی عزت و آبرو کو پل بھر میں ہوا میں اڑا دیا۔بیٹے کی سرگرمیوں نے چودھری صاحب کے دامن کو مشکوک بنا دیا۔ارسلان افتخار اور ملک ریاض کی لفظی جنگ نے میڈیا پر وہ طوفان برپا کیا کہ چودھری صاحب کی تمام محنت غارت ہو گئی۔یاد رہے اسی دوران چودھری صاحب کے بارے یہ تاثر ابھرنے لگا تھا کہ آپ سیاست کے میدان میں کودنے کو بے تاب ہیں اور ریٹائر منٹ کے بعد سیاست میں فعال کردار ادا کریں گے اور اس راز کا پردہ چاک کرنے کا سہرا زمانہ شناس سیاست دان چودھری اعتزاز احسن کے سر جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے افتخار چودھری کے ارادہ کو بھانپ لیا تھا اور اس کا برملا اظہار بھی کر دیا تھا بعدازاں افتخار چودھری نے ریٹائر منٹ کے بعد اس بات کا یوں جواب دیا تھا کہ سیاست ان کے لیے شجر ممنوع نہیں ۔پیپلز پارٹی کی قیادت ہمیشہ چودھری افتخار کے دہرے معیار کی جانب اشارہ کرتی رہی اور ان کا خیال تھا کہ چودھری افتخار کا جھکاو ن لیگ کی جانب ہے اور پیپلز پارٹی کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی دلی کیفیت کی شاعر کچھ یو ں ترجمانی کرتا ہے
قانون سے ہماری وفا گویا دو طرح کی ہے انصاف دو طرح کا سزا دو طرح کی ہے
اک چھت پہ تیز دھوپ اک چھت پہ بارشیں کیا کہیے آسمان پہ گھٹا دو طرح کی ہے۔
چودھری صاحب ریٹائر ہوئے تو حسب توقع انہوں نے سیاست میں آنے کا عندیہ دے دیا۔لیکن ابھی ان کے راستے میں قانونی رکاوٹ حائل تھی کہ وہ دو سال تک عملی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے تھے ۔یہ دو سال کا عرصہ ان کے لیے بڑا کٹھن تھا کیونکہ ان کے دل میں سیاست میں آنے کی خواہش تو گویا یوں مچل رہی تھی جیسے بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑتے ہیں۔خیر خدا خدا کر کے آخر یہ عرصہ بیت ہی گیااور دو سال پورے ہونے پر چودھری صاحب نے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز کر دیا اور اپنی سیاسی پارٹی کی بنیاد بھی ڈال دی۔چوہدری صاحب کی سوچ تھی کہ جونہی پارٹی کا اعلان ہو گا دوسری سیاسی پارٹیوں کے بے چین پنچھی اڑ کر ان کی سیاسی منڈیر پر تکیہ کریں گے لیکن ایسا کچھ نہ ہوابلکہ اس کے بر عکس کسی سیاسی کھلاڑی نے انہیں لفٹ ہی نہیں کرائی ۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے۔راقم کا خیال ہے کہ چوہدری صاحب کا جھکاو تو ن لیگ کی طرف ہی تھا اور وہ سیاست بھی ن لیگ کے پلیٹ فارم سے ہی کرنا چاہتے تھے لیکن اس تاثر کے پنپنے کے بعد کہ جب وہ چیف جسٹس تھے تو ان کے دل میں ن لیگ کے لیے نرم گوشہ موجود تھا اپنی علیحدہ جماعت بنانے پر مجبور ہوئے۔اب بھی اگر وہ مستقبل میں اپنی سیاسی جماعت کو کوئی قابل ذکر مقام دلانے میں ناکام رہے یا پارٹی حسب منشا فعال نہ ہوئی تو وہ اپنی پارٹی کو ن لیگ میں ضم کر دیں گے۔میری تحریر سند رہے۔ ایسا ہی کچھ ہو گا۔ لیکن انتظار ہے موصوف کو مناسب وقت کا۔ جو سیاست میں مل ہی جایا کرتا ہے