یہ بات شروع دن سے طے ہے کہ قانون یابیوروکریٹس کسی مذہبی و سیاسی جماعت کے نہیں ہوتے ہیں بلکہ ریاست کے ماتحت رہ کر اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جو بیوروکریٹ اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہیں اور اپنے فرائض ایمانداری سے سر انجام دیتے ہیں انہیں ہر دور میں اہم عہدوں پرفائز کیاجاتا ہے اور اہم ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں کیونکہ ہر حکومت اپنے دور اقتدار میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے ابتک جاری ہے۔ ہر دور میں ان افسران کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا رہا ہے جنہیں نتائج حاصل کرنے میں عبور حاصل ہو۔ حال ہی میں پنجاب میں انتظامی عہدوں پر اعلی سطحی پر تبادلے کئے گئے ہیں۔ ان تبادلوں میں ایک نئی اور بہت بڑی تبدیلی جو نظر آئی ہے وہ پنجاب کے نئے آئی جی کیپٹن (ر) عارف نواز خان ہیں گزشتہ 2 ماہ سے اپنی ڈیوٹی کو بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ انہیں دوسری بار آئی جی پنجاب کے عہدے کی کمان سونپی گئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس عہدے پر ان جیسے افراد کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ میں نئے آئی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان کی گزشتہ 2 ماہ کی کارکردگی کو دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے ان ایام میں پنجاب پولیس کے حوالے سے کیا کردار ادا کیا ہے اور جب انہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تو انہوں نے جو الفاظ میڈیا کے سامنے ادا کئے تھے وہ بالکل حقیقت پر مبنی تھے کیپٹن (ر) عارف نواز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس کی رحمت کے سبب ایک بار پھر مجھ پر کرم ہوا ہے اور میں دوبارہ اس عہدے پر تعینات کر دیا گیا ہوں۔ہمارے پاس کارکردگی دکھانے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں ہے. انہوں نے پولیس اہلکاروں پر واضح کیا کہ میری ٹیم میں صرف وہی رہے گا جو بہتر کارکردگی دکھائے گا۔
انہوں نے صاف اور شفاف الفاظ میں کہا کہ ہماری ٹیم میں صرف وہی آفیسر رہے گا جو کام کرے گا اور افسران کو محکمہ میں رہنے کے لئے کارکردگی دکھانی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کام کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے اورہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پولیس آئین اور قانون کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں نبھائے گی اور آج کے بعد پنجاب پولیس کے حوالے سے وہ عوام اور حکومت کو جوابدہ ہیں۔ اس تقریب حلف برداری میں ہماری توجہ ان کی باڈی لینگویج پر بھی تھی۔ آئی جی پنجاب جس اعتماد کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پنجاب پولیس کے کمانڈر کے طور پر صرف عہدے سے لطف اندوز ہونے نہیں آئے بلکہ بھرپور انداز میں نتائج حاصل کرنا ان کا اولین مقصد ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنی پہلی تعیناتی کے دوران پولیس ریفارمز کے حوالے سے جن منصوبوں پر کام کر رہے تھے یا محکمہ پولیس میں تبدیلی لانے کے لئے جو کچھ انہوں نے سوچ رکھا تھا اس پر بھرپور انداز میں کام کرنا چاہتے ہیں اور انتخابات کی وجہ سے پولیس ریفارمز سے متعلق جن منصوبوں پر کام ادھورا رہ گیا تھا وہ اس بار مکمل ہوں گے۔ کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی احسن کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے لاہور سمیت تمام بڑے اضلاع کو آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے پنجاب کے مختلف بڑے اضلاع کو سیف سٹی بنانے کیلیے اعلیٰ سطحی اجلاس میں افسران کو ہدایات دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیف سٹی جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار منصوبہ ہے جس کے کیمروں کی مانیٹرنگ کے ذریعے سٹریٹ کرائم اور شاہراہوں پر ٹریفک کی بے ضابطگیوں پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ امن عامہ میں خاص مدد مل رہی ہے۔
انہوں پنجاب بھر کے آر پی اوز,سی پی اوز ڈی پی اوز سمیت ودیگر افسران کو سختی سے کرائم پر کنٹرول کرنے کے لیے آرڈر جاری کئے ہیں اور پولیس اسٹیشن میں موجودہ ٹیم کو خوش اخلاقی اور شائستگی کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا ہے جس سے عوام پولیس سے دور جانے کی بجائے انہیں اپنے جان ومال کا محافظ جانے گی اور محکمے کے عزت وقار میں مزید اضافہ ہوگا پولیس کی عوام سے بدتمیزی اور اخلاقیات کا خیال نہ رکھنے پر 8787 پر ہیلپ لائن کا ایک شاندار سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس سے پنجاب کے اندر جہاں مرضی بیٹھ کر اپنی ایف آئی آر درج کرواسکتے ہیں اگر کوئی پولیس اہلکار کسی کے ساتھ کہیں کوئی زیادتی کرتا ہے تو فوراً 8787 پر کال کرکے اس کیخلاف شکایت درج کروائی جاسکتی ہے پنجاب پولیس کے اس اقدام سے عوام کو ایف آئی آر درج کروانے میں جن مشکلات کا سامنا تھا وہ دور ہو گئی ہیں 8787 کمپلیمنٹ سنٹر نے 3 سالوں میں 150,000 شکایت درج کی ہیں اور ان کو درپیش مسائل کا سدباب کیا ہے یہی پر بس نہیں بلکہ آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے عام شہریوں کی سہولت کے پیش نظر کریمنل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے پانچ رکنی خصوصی کمیٹی بنانے کا حکم دے دیا ہے جب انسان تبدیلی اور نئے عزم اور بلند حوصلے کے ساتھ اگر مشکل سے مشکل راستے پر بھی چلے تو کوئی پریشانی اور مشکلات اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔
کیپٹن (ر) عارف نواز خان نے پورے پنجاب میں جو تبدیلی کی لہر پیدا کی ہے وہ تمام پنجاب کی عوام کو محسوس ہوتی نظر آرہی ہے اسی سلسلے کی ایک کڑی میں آئی پنجاب کی طرف سے پنجاب بھر کے پولیس اسٹیشن میں دوران تفتیش یا پولیس کی حراست میں شہریوں پر تشدد کے واقعات کی روک تھام اور خاتمے کیلئے پنجاب کے تمام722 پولیس اسٹیشنز کی حوالات میں چوبیس گھنٹوں کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم دیا ہے۔ آئی جی پنجاب نے یہ ہدایات صوبے کے تمام آر پی اوز، سی پی اوز اور ڈی پی اوز کو ایک مراسلے کے ذریعے جاری کیں۔ مراسلے میں آئی جی پنجاب نے افسران کو ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ آر پی اوز اور ڈی پی اوز اپنی ذاتی نگرانی میں تمام ریجنز اور اضلاع کے تمام تھانوں میں فی الفور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب مکمل کروائیں مراسلے میں مزید کہا گیا ہے 24/7 مانیٹرنگ کو بھی ہر قیمت پر یقینی بنائیں۔
آئی جی پنجاب نے شہریوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے اور اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے افسران و اہلکاروں کے متعلق اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایسے غیر ذمہ دار افسران واہلکار خود کوسخت محکمانہ کاروائی کیلئے تیار رکھیں۔ دوبارہ آئی جی پنجاب تعیناتی سے امید قائم ہوئی ہے کہ پنجاب میں نہ صرف کرائم کنٹرول ہو گا بلکہ پولیس ویلفئرکے پراجیکٹس بھی تیزی سے آگے بڑھیں گے۔یہ بات بالکل سچ ہے کہ جب تک سپاہی کے حالات بہتر نہیں ہوں گے تب تک محکمہ پولیس کے اچھے کام بھی نظر انداز ہوتے رہیں گے کیونکہ سپاہی ہی محکمہ کا پہلا چہرہ ہوتا ہے جس سے ہم ایسے عام شہری مسجد سے لے کر ناکوں تک ہر موڑ پر ملتے ہیں۔ کیپٹن (ر) عارف نواز نے اپنے پچھلے دور میں پولیس ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا تھا جس سے کرپشن کی شکایات میں کمی واقعہ ہوئی تھی۔ اب بھی اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جلد ہی محکمہ پولیس مزید بہتر نظر آنے لگے گا۔۔ نئے آئی جی پنجاب کی خوبی یہ ہے کہ وہ کمیونٹی پولیسنگ کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اس سلسلے میں اہم اقدامات بھی کرتے رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ عوام دوست پولیسنگ یعنی کمیونٹی پولیسنگ کے لئے وہ اب پہلے سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں گے۔