اقوام متحدہ کے منشور میں انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اس کے متن میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے۔ چاٹر کا آغاز ہی اس توثیق سے ہوتا ہے۔ اقوام عالم کے مابین برابری کے حقوق اور عوام کی خود ارادیت کی بنیاد پر باہمی دوستانہ تعلقات کو فروغ دیا جائے اور اس کے حصول کیلئے بین الاقوامی تعاون کی فضا پیداکی جائے اور ایسا وقت ہو گا جب انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو بلا امتیاز نسل، جنس،زبان اور مذہب فروغ حاصل ہو گا۔اقوام متحدہ کے منشور کے تحت انسان حقوق کے فروغ کی بنیاد ذمہ داری جنرل اسمبلی پر عائد کی گئی ہے جس کیلئے انسانی حقوق کا ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو انسانی حقوق کے میدان میں یو این کا مرکزی پالیسی آرگن تصور کیا جاتا ہے کمیشن کی سرگرمی زیادہ تر تصوراتی قدر پیمائی اور مشاورتی نوعیت کی ہے۔ یہ سالانہ مجلس عاملہ کے گروپ کا قیام عمل میں لاتا ہے تاکہ مبینہ سنگین انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کی نشان دہی کر کے فارشات پر غور و حوض کر کے انہیں پیش کیا جائے۔انسانی حقوق پر کمیشن نے اقوام متحدہ کی دیگر تنظیمات آئی ایل او اور یونسکوکے ساتھ ملکر حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ ان میں سب سے اہم انسانی حقوق کا عالمی ڈیکلریشن سول اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی اور اقتصادی، معاشی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ 1976کو اجتماعی طور پر انٹرنیشنل بل آف رائٹس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تینوں قوانین اقوام متحدہ کے منشور کی انسانی حقوق کی شقوں کی تشریح و تعبیر کے لیے بنیادی راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان کا آئین انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ کئی مواقع پر عدالت اعظمی پاکستان نے مقدمات کا فیصلہ انسانی حقوق کی آئینی شق کے تحت دیا جب کہ دوسرے قانون کے تحت درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دینے کی گنجائش نہ تھی۔پاکستان میں انسانی حقوق کی حالت مختلف حکومتوں کے دوران مختلف درجہ پر رہی ہے۔ کئی مواقع پر ایسے مقامات پر جہاں دہشت گردی یا جذوی باغیوں کے خلاف پاسبانی یا فوجی کارروائی کے دوران انسانی حقوق کی پامالی کی مثالیں ملتی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں 1970ء بغاوت کے دوران انسانی حقوق کی پامالی کی مثالیں ملتی ہیں۔ کراچی میں متحدہ قومی تحریک اور دوسرے غنڈہ تنظیموں کے خلاف کارروائی میں انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگایا گیا۔ دہشت پر جنگ میں امریکی حمایت کرنے کے بعد انسانی حقوق کی صورت حال قدرے ابتر ہو گئی۔ اس دوران بیرونی طاقتوں کی شئے پر باغی افراد کے خلاف کارروائی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔
بتایاجاتا ہے کہ حکومت پنجاب نے آئی جی پنجاب کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آئی جی پنجا ب کو کچھ معاملات پر فوری عمل کا کہاجس میں تاخیر ہوئی۔آئی جی پنجاب کوہٹا کربیوروکریسی کو پیغام دے دیا ہے جوکام کرے گا وہ رہے گا۔ آئی جی پنجاب کو حکومتی احکامات نہ ماننے کے تناظر میں عہدے سے ہٹایا گیا۔اس حوالے سے یہ بھی خبر آئی تھی کہ آئی جی پنجاب کو جن احکامات میں تاخیر کے باعث ہٹایا گیا ان میں سب سے بڑا اور اہم حکم سانحہ ماڈل ٹاون میں ملوث پولیس افسران کو ہٹانے کا معاملہ تھا۔حکومت چاہتی تھی کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں ملوث ملزمان کوہٹا دیا جائے جبکہ آئی جی پنجاب اس حکم کے مخالف تھے۔
اس کے علاوہ آئی جی پنجاب اور حکومت کے منظور نظر سابق آئی جی خیبر پختونخوا اور چیئرمین پولیس ریفارمز کمیٹی ناصر درانی میں اختیارات کی جنگ بھی چل رہی تھی۔ناصر درانی اپنی مرضی کی پوسٹنگ چاہتے تھے جبکہ آئی جی پنجاب اس راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے۔تاہم اس حوالے تازہ ترین خبر یہ آئی ہے کہ چیئرمین پنجاب پولیس ریفارمز کمیشن ناصر درانی نیا ستعفا دے دیا۔سابق آئی جی ناصر درانی نے استعفا آئی جی پنجاب کے تبادلے کے باعث دیا۔ناصر درانی نے آئی جی پنجاب کے تبادلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔یاد رہے کہ ناصردرانی کو پنجاب پولیس میں اصلاحات کا خصوصی ٹاسک دیا گیا تھا۔۔وزیراعظم عمران خان نے نا صردرانی کوپولیس میں عدم مداخلت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو خبر تک نہیں کہ محکمہ پولیس میں کیا ہورہاہے۔آئی جی پنجاب کے تبادلے کا معاملہ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔کہ محکمہ پولیس سمیت انسانی حقوق کے تحفظ میں تحریک انصاف کا کردارکیاہے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنی قانونی حدود میں رہتے ہوئے برائی کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں کبھی فساد فی الارض پیدا نہیں ہوا۔ ایسا ضرور ہوا ہے کہ برائی کے علمبرداروں نے اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، جس پر نیکی کی تلقین کرنے والوں نے مظلومانہ جدوجہد کی وہ تاریخ رقم کی ہے، جس کی مثالیں آج بھی ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں۔افسوس کہ اس صریح منصفانہ اور معقول قاعدے کو بھی، جو کسی انسان کا گھڑا ہوا نہیں بلکہ رب کائنات کا مقرر کردہ ہے، ہم پامال ہوئے دیکھ رہے ہیں۔گویا اب تفتیش جرائم کے لیے یہ بھی جائز ہو گیا کہ مظالم پر دباؤ ڈالا جائے۔ یہ سخت شرمناک کردار کی انتہا ہے۔