کراچی (جیوڈیسک) سندھ ہائی کورٹ میں ذوالفقار مرزا کے حامیوں اور میڈیا کے نمائندوں پر پولیس تشدد کے خلاف توہین عدالت کے معاملے میں آئی جی سندھ سمیت دیگر اعلیٰ حکام پر فرد جرم کا معاملہ 15 دسمبر تک ٹل گیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران آئی جی سندھ کے وکیل رشید رضوی ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ درخواست گزارنےایسے حقائق نہیں لکھے جن پرازخود نوٹس لیاگیا، 12 مئی 2007 کو بھی عدالتوں کا گھیراؤ کیا گیا، اس وقت بھی عدالت نے کوئی ایسا ازخود نوٹس نہیں لیا، سپریم کورٹ نے انکوائری کرائی تھی۔
حالانکہ وہ کراچی عدالت کا سب سے بڑا سانحہ تھا، عمران خان پر بھی توہین عدالت کا کیس تھا انھوں نے معافی مانگی عدالت نے معاف کردیا۔ اس معاملے پرایک رکنی کمیٹی بنادی جائے تاکہ وہ ساری صورتحال کی رپورٹ 30 روز میں عدالت کے روبرو پیش کرے۔ تحقیقات سے معلوم ہوجائے گا کہ اس معاملے میں پولیس کا کیا کردارتھا۔
عدالت عالیہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت کا معاملہ نہیں بلکہ آئین اور قانون کی بالادستی کا معاملہ ہے، 2 گھنٹے تک عدالت میں ہنگامہ آرائی ہوتی رہی، پولیس ٹارزن بنی رہی، ہم نے آئی جی اور ڈی آئی جی کو طلب کیا لیکن کوئی نہیں آیا،آئی جی اور دیگر کو دو مواقع دیےمگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس درخواست میں پولیس افسران ملوث ہیں، ہماری ان افسران سے کوئی دشمنی نہیں، اداروں کی خاطر دل سخت کرنا پڑتا ہے، اگر کوئی اور بھی تیسرا ہوتا تو ہم یہی کچھ کرتے۔
بعد ازاں عدالت نے پولیس افسران کے 2 نئے وکلا کو کیس کی تیاری کے لئے 15 روز کی مہلت دیتے ہوئے سماعت 15 دسمبر تک ملتوی کردی ہے تاہم پولیس افسران پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ برقراررکھا گیا ہے اور اس حوالے سے عدالت نے قرار دیا کہ آیندہ سماعت پر فرد جرم عائد کرنے کا طریقہ طے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 23 مئی کو سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقارمرزا نے سندھ ہائیکورٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو نقاب پوش اہلکاروں نے ان کے ذاتی محافظوں، حامیوں اور کوریج کے لیے موجود صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔