تحریر : رقیہ غزل ہم اس ملک کے پروردہ ہیں جہاں حادثے کم سانحے زیادہ رونما ہوتے ہیں، کیونکہ حادثہ اسے کہا جاتا ہے جس کے رونما ہونے پر ہر کوئی مدد کو بھاگتا ہے اور ممکنہ مدد بھی کرتا ہے ‘مگر سانحہ اس کو کہتے ہیں جس میں تماشائی بن کر صرف نظارہ کیا جاتا ہے اور یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ روکنا یا ممکنہ مدد فراہم کرنا ‘ہمارے بس میں نہ تھا اور بعد میں ماتم اور واویلے میں شامل ہو کر چند روزہ ہمدردی میں اشک بہائے جاتے ہیں اس کے بعد جس کا غم وہ جانے لو ہم چلے دیوانے۔ ایسے ہی المناک سانحات سے’ تاریخ پاکستان بھری پڑی ہے’ جو جارحیت اور بر بریت کا منہ بولتا ثبوت ہیں’ کیونکہ حکمرانوں اور جاگیرداروں نے’ ہمیشہ ہی عام آدمی کو اپنا محکوم سمجھا ہے ۔اور جیسے جیسے وقت کا پہیہ گھوما ہے اس سوچ کو تقویت ملی ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ’ بنیادی تضاد کیوجہ سے ناگزیر ہے ۔سرمایہ داروں اور محنت کشوں کی کش مکش میں بالآخر فتح سرمایہ داروں کو ہی حاصل ہوتی ہے ۔امیر و غریب ،ظالم و مظلوم ،حاکم و محکوم ،جاگیردار و کسان یہ سب ایک دوسرے کے خلاف روز اول سے برسر پیکار ہیں ،ان کے مابین اس کش مکش کا نتیجہ سماجی نظام کی صورت میں یا پھر بر سر پیکار طبقوں کے خاتمے کی شکل میں نکلتا ہے ۔اور جب مختلف طبقوں کے اختلافات جو کش مکش کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں بہت بڑھ جاتے ہیں تو انقلاب برپا ہو جاتے ہیں۔
آج حالات اس نہج پر آچکے ہیں کہ انقلاب نا گزیر ہو چکا ہے’ کیونکہ آج ہر حکمران اور اس سے منسلک ہر انسان خود کو خدا تصور کر چکا ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام کی تفریق’ نئی نہیں ہے جس دن سے دنیا وجود میں آئی ہے ‘یہ تفریق قائم ہے اور اس وقت خطئہ ارض پر’ ایسا کوئی ملک موجود نہیں ہے جس میں یہ تفریق موجود نہ ہو’ مگر پہلے اس قدر بے حسی نہ تھی جو گزشتہ چند سالوں سے دلوں میں در آئی ہے ،پہلے تو ناحق قتل پر آسمان سرخ ہو جایا کرتے تھے ،پنچھی آسمان کی وسعتوں میں پھیل جاتے تھے اور ہوائیں بین کرتی تھیں مگر اب حالات مختلف ہیں کیونکہ ایسے واقعات معمول ہو گئے ہیں ‘اب سرخ آندھیاں نہیں چلتیں ‘اب تو ایک گھر میں ماتم ہوتا ہے تو دوسرے گھر میں’ شہنائی کی آواز میں دردو غم ڈوب جاتا ہے ۔احساس زیاں دم توڑ چکا ہے ہمیں اپنے سوا کوئی نظر نہیں آتا’ مفادات کی پٹی ہماری آنکھوں پر اور ہوس کا میل ہمارے کانوں میں بھر چکا ہے ۔ہم نہ حادثوں پر رکتے ہیں اور نہ سانحات پر آواز بلند کرتے ہیں ۔اس لیے ہم آئے دن ان سے نبرد آزما ہو تے رہتے ہیں۔
ایسا ہی دلسوز اور دلگیر سانحہ عید کے تیسرے روز رونما ہوا جب ایک نوجوان ”طاہر ملک” اپنے تایا کے گھر قربانی کا گوشت دینے جا رہے تھا تو اسے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کے سیکورٹی گاڑی نے سیکیورٹی اسکوارڈ کو اوور ٹیک کرنے کے جرم میں سر میں گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔بے موت مارے جانے والے طاہر کا جرم یہ تھا کہ وہ سابق وزیراعظم اور ایک وڈیرے کے بیٹے کی گاڑی سے نا دانی میں پہلے آگے جانا چاہتا تھا ۔مگر ۔۔طاہر ! تم نے یہ حقیقت کیوں فراموش کر دی کہ تم اس ملک کا باشندے ہو جہاں سرمایہ دار اور جاگیردار محنت کش طبقے کو کیڑے مکوڑے اور زر خرید غلام سمجھتے ہیں اورہمیشہ سے روندتے چلے آئے ہیں ۔تم نے زندگی کے 25سال اس ملک میں گزارے اور آدابِ غلامی سے ناواقف رہے ۔۔!!!تم نے کیوں نہیں سیکھا کہ تم جس طبقے سے تعلق رکھتے ہو’ اس کے لہو کی قیمت’ چند لاکھ روپے اور کچھ بول ہمدردی کے سوا’ کچھ بھی نہیں ہیں ۔تم نے کیسے ان سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے آگے نکلنے کی کوشش کی ‘تمہیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیئے تھا ‘کہ وقت بدل جائے ‘تخت الٹ جائیں مگر محکوموں کے لیے وقت کبھی نہیں بدلے گا ۔میں حیران ہوں کہ میرے بھائی یہ کیسے سوچ لیتے ہیں کہ آزاد وطن میں’وہ آزادی کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔
Tahir Malik and Abdul Qadir
ستم تو یہ ہے کہ اس حادثے پر یہی تمام وی آئی پیز’ جو لاتعداد گاڑیوں کے اسکوارڈ اور سیکیورٹی گارڈوں کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں اور جن کے گزرنے کی اطلاع پر شاہراہیں دو گھنٹے پہلے بند کر دی جاتی ہیں اور ٹریفک بلاک کر دی جاتی ہے آج ٹسوے بہا رہے ہیں اور وی آئی پی کلچر کے خلاف بول رہے ہیں ۔حالنکہ درحقیقت یہ سب ریاکار ہیں ‘یہ خود اسی کرپٹ نظام کی پیداوار اور حصہ ہیں ۔یہ درد صرف اس خاندان کا ہے ‘جس کا کل سرمایہ لٹ گیا ۔اس کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا اوراس نظام کو کوئی نہیں بدل سکتا’ کیوں کہ یہ نظام اس ملک کی جڑوں میں شامل ہو چکا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پہلا سانحہ نہیں ہے ‘وقت کی گھڑیوں نے ‘ایسے دردناک سانحات پہلے بھی دیکھے ہیں’ جب زندگی اور موت کا رقص سر عام دیکھا گیا اور ہر آنکھ تماشائی رہی ۔2010 ء میں سیالکوٹ میں پولیس کی موجودگی میں دو نوجوان بھائی سر عام بہیمانہ تشدد کا شکار ہو کر دم توڑ گئے ،ان کی سنسی خیز موت کی ویڈیو آج بھی سوشل میڈیا پرمنصفوں کی بے حسی کا ثبوت ہے 2011 میں سندھ رینجرز کے ہاتھوں ایک بچہ سر عام زندگی کی بھیک مانگتا وحشیانہ فائرنگ کو سہتا دم توڑ گیا اس کے جڑے ہاتھ اس کی کھلی سوالیہ آنکھیں اس وقت کے منصفوں کے لیے سوالیہ نشان ہیں اور سوشل میڈیا پر پڑی ہوئی ویڈیوز عوام کی بے حسی کا ثبوت ہیں۔
ایسے افراد’جو انسان ہیں’ جو اپنے عہدوں اور اختیارات کا ناجائز فائدے اٹھاتے ہیں’ ان میں اورانڈیا (دہلی )کے چڑیا گھر میں’ جس شیر نے ‘جو کہ جانور ہے ۔ایک جواں سال لڑکے کی زندگی کا چراغ گل کر دیا ‘ اس میں کیا فرق ہے ؟حالنکہ وہ ایک درندہ تھا اور اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور تھا کہ اس کی فطرت میں’ دوسروں کی زندگی’ ختم کر دینا شامل ہے ۔مگر وہ لوگ جو عوم کو دکھ دیتے ہیں جبکہ وہ نجات دہندہ و اصلاح کار ہونے کے دعوے دار بنے رہتے ہیں ان کے لیے یہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ اور سوالیہ نشان ہے اور بے حسی کا جہاں تک تعلق ہے’ ہم میں اور اس لڑکے کوموت کے گھاٹ اترتے دیکھنے والوں میں کیا فرق ہے جو تماشا دیکھتے رہے اور ویڈیو بناتے رہے ۔مگر چڑیا گھر کی انتطامیہ کو بروقت حرکت میں نہ لاسکے ‘افسوس ہمارا معاشرہ جنگل کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔جس میں قانون پر عملدرآمد نہیں ہے ‘عدل و انصاف کی صرف اصطلاح رہ گئی ہے۔ ایسے کشیدہ حالات میں” اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی ”کے مصداق آج پھروہی حکمران اور سیاست دان جنھوں نے عام آدمی کو ہمیشہ اپنا محکوم سمجھا ہے’ اپنے اپنے ٹولے لیکر منظر عام پر آگئے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔
حالنکہ درحقیقت وہ سارے کے سارے باعمل ہوں یا ان میں سے کوئی کس حد تک بھی بے عمل ہو ‘ان کے قول و فعل میں اس حد تک واضح تضاد ہے کہ وہ بد نیتی ،بد دیانتی اور ریاکری کرتے ہوئے بھی’ جب ذاتی مفادات کو دل و دماغ میں رکھ کر اور اپنی نیت کو چھپا کر’ اس طرح کی تقریریں اور باگ دوڑ کرتے ہیں ۔تو یہ واضح طور پر دھوکہ دہی کا منظر پیش کرتی ہیں کیونکہ پاکستان کا بچہ بچہ جان گیا ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کے لیے دلکش وعدوں کا جھانسا دینے کے عادی ہیں اور جب برسر اقتدار آجائیں گے تو وطیرہ یہی ہوگا کہ” بابر با عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست”۔ اس لیے۔۔ اے سیاست دانوں!اغراض پر مبنی یہ سیاست چھوڑ دو ۔ آپ سب خود کو بدلو ‘یہ نظام خود بخود بدل جائے گا کیونکہ یہ بات نوشتئہ دیوار کی طرح ہے کہ پھول شعلوں میں نہیں کھلتے۔