سچ کہا وزیرِ صحت پنجاب محترمہ یاسمین راشد نے کہ لاہورئیے جاہل ہیں۔ ہم محترمہ کے اِس بیان میں اضافہ کرتے چلیں کہ صرف لاہورئیے ہی نہیں، پوری قوم ہی جاہل ہے۔ اگر جاہل نہ ہوتی تو خانِ اعظم کے اُن دعوؤں کا اعتبار کرتی جن کا عقل سے کوئی تعلق تھا نہ فہم سے؟۔ اگر جاہل نہ ہوتی تو سوچتی کہ 100 دنوں میں ملک کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے؟۔ اگر جاہل نہ ہوتی تو ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھر وں کی تعمیر پر کیسے اعتبار کرتی۔؟ اگر جاہل نہ ہوتی توخانِ اعظم کے یوٹرنوں پر واہ واہ کیسے کرتی؟۔ اگر جاہل نہ ہوتی تو خانِ اعظم سے پاکستان کو ”ایشین ٹائیگر” بنانے جیسے دعووں پر اعتبار کیسے کرتی؟۔
ویسے قصور خانِ اعظم کا نہیں، ہم جہلاکا، جو خانِ اعظم کے دعووں کی گہرائی کو نہ پہنچ سکے۔خان کے بیشتر دعوے سچ بھی ثابت ہوئے۔ خانِ اعظم نے ”تبدیلی” کا نعرہ لگایااور ڈی چوک اسلام آباد میںیہ تبدیلی لا کر دکھائی۔ ریحام خاں سے شادی کے بعد اُنہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر فرمایا”کون کہتا ہے کہ تبدیلی نہیں آئی، میرے گھر میں تو تبدیلی آگئی ہے”۔ اِسی طرح ایشین ٹائیگر کا وعدہ بھی وفا ہوا، یہ 10 لاکھ ٹائیگر فورس ”ایشین ٹائیگر” نہیں تو اور کیا ہے؟۔ اب دیکھنا یہی ٹائیگر فورس امریکہ، چین، برطانیہ اور ملائشیا سے پاکستان میںنوکریاں دلوانے کے لیے بندے پکڑ پکڑ کر لائے گی خواہ اُنہیں اغواء کرکے ہی کیوں نہ لانا پڑے۔ دروغ بَر گردنِ راوی وزیرِاعظم ہاؤس اور چاروں گورنر ہاؤسز کو خوبصورت یونیورسٹیز اور آئی ٹی سینٹرز میں بدل دیا گیاہے۔ شاید وزیرِاعظم ہاؤس کی بھینسیں اور کَٹے کٹیاں محض اِس لیے فروخت کی گئی ہوں کہ طلباء وطالبات کو گوبر کی بُو نہ آئے۔وزیرِاعظم ہاؤس اور گورنرہاؤسز کے ساتھ وسیع وعریض سیرگاہیں اور پارکس بھی بنا دیئے گئے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود جا کر دیکھ لیں۔ اگر ایسا ”کَکھ” نہ ہوا تو ہم بھی یوٹرن لے لیں گے کہ حاکم کی پیروی ہمارا فرض۔
ہم بھی جاہل اور ہمارے ساتھ جُہلاء کا جلوس، بیچاری یاسمین راشد کو تو محض اپنی وزارت بچانے کی خاطر معافی مانگنی پڑی۔ ہمارے پاس چونکہ کوئی وزارت ہے نہ سفارت اور نہ ہی ہم معاون یا مشیرِ خصوصی، اِس لیے ڈَر کاہے کا۔ بِلا خوف وخطر سوال کہ کہاں ہے وہ ارسطوئے دَوراںجو کہا کرتا تھا ”اِدھر عمران خاں وزیرِاعظم بنی، اُدھر باہرسے 200 ارب آئی” (کہیں ایسا تو نہیں کہ 200 ارب ڈالر تو آئی لیکن وزیرِ موصوف نے کھائی)۔ کہاں ہے وہ صاحبِ کشف وکرامات سابق وزیرِخزانہ اسدعمر جس کے بارے میں خان ِاعظم کہا کرتے تھے کہ اُس کے آتے ہی معیشت آسمان کی رفعتوں کو چھونے لگے گی اور لوگ یورپ امریکہ سے نوکریوں کی تلاش میں پاکستان کا رُخ کریں گے؟ لیکن ”کھودا پہاڑنکلا چوہا”۔ اسدعمر کی چھٹی ہوئی اور اُس کی جگہ معیشت کے ”افلاطون” حفیظ شیخ نمودارہوئے۔ یہ وہی حفیظ شیخ ہے ناں جو پیپلزپارٹی کے دَور میں وزیرِ خزانہ ہوا کرتے تھے اور اپوزیشن ”کُرلاتی” رہتی تھی کہ آئی ایم ایف کا یہ نمائندہ ملکی معیشت کو برباد کر دے گا لیکن شاید تحریکِ انصاف کے کاغذوں میں ”آزمودہ را آزمودن جہل نیست”۔ کہاں ہے وہ وزیرِباتدبیر جس کا تکیہ کلام ”جان اللہ کو دینی ہے”؟۔ رانا ثناء اللہ دندناتا پھرتا ہے لیکن اے این ایف ابھی تک اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکی۔ کیا کبھی وزیرِموصوف نے اے این ایف سے پوچھا کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف آڈیو، ویڈیو اور ثبوت کہاں ہیں؟۔ یہ سوال تو وزیرِموصوف سے قوم بھی نہیں پوچھتی کہ قوم تو ٹھہری جاہل اور مرضِ نسیاں میں مبتلاء ۔ ہم تو ڈی چوک اسلام آباد میں خانِ اعظم کے اُن غیرآئینی اور غیرقانونی اعلانات کوبھی بھول چکے جو اُنہوں نے اپنے ”سیاسی کزن” مولانا طاہر القادری کی ہمراہی میں کنٹینر پرکھڑے ہوکر کیے۔
سیاسی کزن مگر اب روٹھا روٹھا سا، خیال اُس کا یہی تھا کہ اُسے بھی ”حصّہ بقدرِجُثہ” ملے گا مگر خان نے یہاں بھی یوٹرن لے لیا۔ اب اُس کا شکوہ ”آج وزیرِاعظم وہ شخص ہے جو میرے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کے لیے انصاف لینے کی بات کرتا تھا”۔ پڑھے لکھے مولانا سے عرض ہے کہ ”اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا”۔ خانِ اعظم کے اپنے دَورِحکومت میں ”مظلومین” کی تعداد میں اضافہ ہوچکا۔ جب اُنہیں آج تک انصاف نہیں مل سکا تو ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو کیسے ملے گا؟۔ پاکستان میںانصاف کے سارے دَر کھلے ہیں، اگر وہ واقعی انصاف کے طالب ہیں تو درِانصاف پہ دستک دیں، انصاف ضرور ملے گا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے ہماری ”دبنگ” عدلیہ نے قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس کو رَدی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔ حکمران شاید بھول گئے کہ یہ نیب نہیں، سپریم کورٹ ہے جہاں حکمرانوں کا سِکّہ نہیں چلتا۔ بات دوسری طرف نکل گئی، ابھی تو ہم نے یہ بھی پوچھنا تھا کہ کہاں ہیں وہ ایک ارب درخت اور 350 ڈیم جو خیبرپختونخوا میں بنائے جانے تھے۔ کہیں ڈیموں کا پیسہ پختونخواہ کے سابق وزیرِاعلیٰ ڈکار تو نہیںگئے؟۔ کہاں ہے پشاور میں8 ارب روپے میں میٹرو بنانے کا چیلنج؟۔ شنید ہے کہ یہ میٹرو 140 ارب روپے میں بھی نہیں بن پا رہی۔
اب ذرا کورونا وائرس پر عظیم ترین حکومتی اقدامات پر بھی بات ہو جائے کہ پوری دنیا میں ہر طرف کورونا کا راج ہے۔ تین ماہ ہونے کو آئے ہم نے باہر کی شکل دیکھی، کسی عزیز سے ملنے گئے نہ کسی کو گھر آنے کی اجازت دی۔ اگر کسی نے گھر آنے کی خواہش کا اظہار کیا بھی تو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیا۔ اب تو ہمارے بہانوں کی پوٹلی بھی خالی ہو چکی۔ نقصان بہرحال یہ ہوا کہ گھر کی رونقیں تمام ہوئیں، رات گئے تک ہلا گُلااور ہنگاموں کو بریک لگ گئی حالانکہ ”ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق”۔ اب تو گھر میں ہی اِدھر اُدھر تکتے رہتے ہیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بقول ناصر کاظمی
دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ، ایسا لگتا ہے
یہ سب کچھ ہمارے عظیم ترین حکمرانوں کی عظیم ترین حکمتِ عملی کا ثمر ہے۔ہمارے حصے میںتو کورونا کی تلچھٹ ہی آئی تھی۔ اگر اِس تلچھٹ کو اُسی وقت صاف کر دیا جاتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی لیکن ہم نے تو کبھی کوروناوائرس کو سیریس لیا ہی نہیں۔ کورونا وائرس پر ہمارے خانِ اعظم کا پہلا بیان یہ تھا کہ” یہ ایک فلو ہے اور بَس”۔ جب پھیلنے لگا تو فرمادیا ”گھبرانا نہیں”۔ لاک ڈاؤن پردوٹوک کہہ دیا کہ وہ اِس کے خلاف ہیںاور اب کہتے ہیں ”ساڈے تے نہ رہنا”۔خیال یہی تھا کہ خان پنجاب، خصوصاََ لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں سخت ترین لاک ڈاؤن کا اعلان کریں گے لیکن اُن کی ضِد اور انانیت نے لاک ڈاؤن کو مسترد کر دیا البتہ ایس او پی پر عمل درآمد کے لیے سختی کا حکم بھی دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب خانِ اعظم خود ماسک نہیں پہنتے (شاید ایک آدھ بار پہنا بھی ہو) تو پھر وہ قوم کو ماسک پہننے کی تلقین کیسے کر سکتے ہیں؟۔ جب وہ خود لاک ڈاؤن کے سخت خلاف ہیں تو قوم لاک ڈاؤن کیوں کرے؟۔ جب عید پر خریداری کے لیے سب کچھ کھول دیا تو قوم خریداری کیوں نہ کرے؟۔ پچھلے تین مہینوں سے باربار یہ سبق رٹایا جا رہا ہے ”ہم اِس قابل نہیں کہ عوام کو کورونا سے محفوظ رکھ سکیںاِس لیے جو حفاظتی تراکیب سے خود کو بچا سکتا ہے، بچا لے”۔ ارسطوئے دوراں اسد عمر قوم کو یہ خبر دے رہے تھے کہ جولائی کے آخر تک کورونامریضوں کی تعداد 10,12 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے اِس لیے ”ساڈے تے نہ رہنا” (ماہرین کے مطابق یہ تعداد اِس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے)۔ سوال یہ ہے کہ جب حکومت کچھ کر نہیں سکتی تو کیا وہ حقِ حکمرانی کھو نہیں چکی۔