تحریر : پیر محمد عثمان افضل قادری سوال: احرام باندھنے کے بعد کوئی ایسا مرض لاحق ہوگیا جس کی وجہ سے احرام کھولنا پڑے تو اس سلسلہ میں شرعی حکم کیا ہے؟ جواب: احرام باندھنے کے بعداگر بامر مجبوری احرام ختم کرنا پڑگیا یعنی ایسا مرض لاحق ہو گیا ہے جس کی وجہ سے احرام ختم کرنا پڑگیا یا پھر سر میں کسی تکلیف کے باعث سر منڈوانا پر گیا تو ان صورتوں میں تین روزے رکھنا یاپھر چھ مسکینوںکوکھانا کھلانا یا پھر جانورذبح کرنا ضروری ہے۔ جیساکہ قرآن مجید سورہ بقرہ آیت نمبر 196میں ہے: ترجمہ: ”پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو توبدلہ دے روزے یا خیرات یا قربانی۔” اور صحیح مسلم جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 382میں ہے کہ مقام حدیبیہ میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اﷲ عنہ حالت احرام میں تھے کہ ان کے سر میں تکلیف ہوگئی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کی ایذابڑھ گئی ہے ، لہذا سرمنڈ واؤ، اور تین روزے رکھو یاچھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ، یا ایک جانورکی قربانی کرو۔
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند معجزات و واقعات کتب احادیث کے حوالہ سے تحریر فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔ جواب: معجزات رسول اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے متعلق ایمان افروز، روح پرور، سبق آموز، نصیحت آمیز اور عقل انسانی کو حیران کردینے والے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔ فی الوقت ان میں سے تین ملاحظہ فرمائیں:1۔ صحیح بخاری، کتاب المناقب، جلد: 1، صفحہ: 525، حدیث نمبر 3425 ہے، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے روز فرمایا: کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔ وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہر ایک یہ آس لگائے ہوئے تھا کہ جھنڈا اسے دیا جائے گا! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا : انہیں آنکھوں میں درد ہے۔
ALLAH
فرمایا: انہیں بلاؤ! چنانچہ آپ کو بلایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکی دونوں آنکھوں میں لعاب لگایا تو وہ تندرست ہو گئے گویا انہیں درد تھا ہی نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جھنڈا عطا فرما دیا۔” اور اللہ تعالیٰ نے فتح مبین عطا فرمائی۔ 2۔ صحیح بخاری، کتاب المناقب جلد:2، صفحہ:611، حدیث نمبر 3474 میں حضرت انس سے روایت ہے۔ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید بن حارثہ، حضرت جعفر اور ابن رواحة رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں میدان جنگ سے خبر آنے سے پہلے ہمیں آگاہ فرمایا کہ (امیر لشکر ) زید نے جھنڈا پکڑا ہے تو وہ شہید کر دئیے گئے ہیں ۔ اب جھنڈا جعفر نے پکڑا ہے تو وہ بھی شہید کر دئیے گئے ہیں۔ اب جھنڈا ابن رواحةنے پکڑ لیا ہے پس وہ بھی شہید کر دئیے گئے ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں سے آنسوں بہہ رہے تھے۔ پھر فرمایا: جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار یعنی خالد بن ولید نے پکڑ لیا۔ اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح دے دی ہے۔”
اور ”مجمع الزوائد” جز نمبر 8، صفحہ نمبر 287، طبع بیروت کےالفاذ ہیں کہ ”بیشک اللہ تعالیٰ نے کائنات میرے سامنے رکھ دی، میں کائنات کو اور کائنات میں قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے، کو اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔” 3۔ ”مسند الحارث” میں حارث بن ابواسامہ، ”زوائد ھیثمی” میں الحافظ نور الدین ھیثمی، ”کنز العمال” میں العلامہ علاء الدین علی متقی بن حسام الدین روایت فرماتے ہیں کہ ترجمہ: ”حضرت مہاجر بن حبیب اور حضرت ابراہیم بن مصقلہ سے روایت ہے کہ اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا جب (سبائیوں نے)محاصرہ کیا ہوا تھا تو آپ نے حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ کو بلایا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ (حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اس کھڑکی کی طرف دیکھو! بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج رات اس میں سے کمرہ میں دیکھا اور فرمایا: اے عثمان! کیا ان لوگوں نے تمہارا محاصرہ کررکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں۔ تو آپ نے ایک پانی کا ڈول میرے قریب کیا پس میں نے اس میں سے پانی پیا بے شک میں اس کی ٹھنڈک اپنے جگر میں پارہا ہوں۔ پھر مجھے فرمایا اگر تم چاہو تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروںکہ وہ تمہاری ان (محاصرہ کرنے والوں پر) پر مدد کرے اور اگر تم چاہو تو ہمارے پاس افطار کروَ۔
حضرت عبداللہ نے کہا میں نے ان (حضرت عثمان) کو کہا کہ آپ نے کس کو اختیار فرمایا؟ حضرت عثمان نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس افطار کرنے کو۔ پس حضرت عبداللہ اپنے گھر کی طرف چلے گئے پھر جب دن بلند ہوا اپنے بیٹے کو فرمایا جائو دیکھو حضرت عثمان کیساتھ کیا ہوا؟ کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اب تک زندہ ہوں۔ پس وہ آپکی طرف لوٹے اور کہا: انہیں شہید کردیا گیا ہے۔” سوال: مقام محمود کیا ہے؟ جواب: یہ وہ جگہ ہے جہاں جلوہ گر ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعت فرمائیں گے جبکہ تمام اولین و آخرین تلاش شیع میں سرگرداں ہوں گے حتی کہ جلیل القدر انبیاء کرام تک اذہبو الی غیری فرمائیں گے مگر صرف اور صرف ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر انا لہا ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظمت ورفعت بزرگی و شان کو دیکھ کر اولین وآخرین آپ کی تعریف کرینگے اور کل عالم پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضل و شرف کا اظہار ہوگا۔ اسی لیے اسے مقام محمود کہتے ہیں۔ اور اس سلسلہ میں مزید تصریح عینی جلد نمبر 2، صفحہ نمبر 241 کی اس حدیث سے ہوجاتی ہے کہ ”یہ مقام وہ ہے جہاں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا۔”
Muhammad Usman Afzal
تحریر : پیر محمد عثمان افضل قادری naikabad@gmail.com 0092-333-8403748 0044-744-0523140