کراچی (جیوڈیسک) تھری جی ٹیکنالوجی سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، دوردراز اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم اور صحت کی خدمات کوبھی فروغ ملے گا جبکہ براڈ بینڈصارفین کی تعداد میں آئندہ 6 سال کے دوران تیزی سے اضافہ ہوگا۔
سیلولر کمپنی ٹیلی نار کی جانب سے صحافیوں کے لیے تھری جی ٹیکنالوجی سے متعلق منعقدہ ورکشاپ سے کمپنی کے ریجنل منیجر عاطف فاروقی اور منیجر کارپوریٹ کمیونیکیشن فاروق نیاز نے کہا کہ پاکستان میں تھری جی اورفورجی کا مستقبل تابناک ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تھری جی متعارف ہوتے ہی گزشتہ ایک ماہ کے دوران براڈ بینڈ صارفین کی تعداد اور ٹیکنالوجی کے استعمال کنندگان کی تعداد میں بھی خوش کن اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ ہے کہ سال 2020 تک موبائل فون پر براڈبینڈ صارفین کی تعداد 40 فیصد تک پہنچ جائے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ تمام سیلولر کمپنیوں نے سندھ کے 27 ایس ایس پیز کواپنے صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کی سہولت فراہم کی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ مقامی سیلولر کمپنیاں پاکستان میں تھری جی ٹیکنالوجی متعارف کرنے میں سست رفتاری کا مظاہرہ کررہی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تھری جی ٹیکنالوجی کے حصول میں جن سیلولر کمپنیوں کی جانب سے 300 تا 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
اب انکی خواہش ہے کہ وہ جلد ازجلد اس سرمایہ کاری کا ریٹرن بھی حاصل کریں تاہم سیلولر کمپنیوں کو پاکستانی مارکیٹ میں اس نئی ٹیکنالوجی کے نیٹ ورک کی توسیع اور ملک گیر سطح پر متعارف کرانے میں وقت لگے گا جس کے 3 مراحل ترتیب دیے گئے ہیں اور تیسرے مرحلے کے تحت 4 سال کی مدت میں اس ٹیکنالوجی کو ملک بھر کے تحصیل ہیڈکواٹرز تک توسیع دیدی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ تھری جی ٹیکنالوجی پر موسمی تغیرات اثرانداز ہوتے ہیں۔
جس کی وجہ سے سگنلز کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، فریکوینسی کی وجہ سے کوریج ایریا میں بھی کمی ہوتی ہے جس کے لیے سیلولر کمپنیوں نے نئے ٹاورز کی تنصیب کیلیے بھی سرمایہ کاری پلان ترتیب دے دیا ہے، پاکستان میں تھری جی ٹیکنالوجی متعارف ہونے کے بعد مختلف مصنوعات کی فروخت کے لیے صرف ایک اسمارٹ موبائل فون پر دکانیں کھولی جاسکتی ہیں۔
جس کے توسط سے ملک کے ہرحصے سے خرید و فروخت اور اشیا کی ڈلیوری وادائیگیاں ممکن ہو گئی ہیں، تھری جی ٹیکنالوجی کی بدولت بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے دوردراز پسماندہ علاقوں کے بچوں کو اسمارٹ فون کے ذریعے باقاعدہ کلاسیں قائم کرکے تعلیم دی جاسکتی ہے جبکہ مریضوں کو ملک کے کسی بھی حصے سے ڈاکٹروں کے مشورے ودیگر سہولتیں ویڈیوکال کے ذریعے مل سکیں گی۔