کراچی (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ غیر فعال سمز کو ایکٹِو کرنے والی مشین کہاں سے آئی اور اس کی اجازت کون دیتا ہے۔ ایکٹویشن مشین کتنی ہیں اور کس کے پاس ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی کوئٹہ میر زبیر نے عدالت میں بیان دیا کہ یہ مشین ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات کے پاس ہے اور ان کی تعداد بیس سے پچیس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایکٹیویشن مشین جیکٹ سے نکالے بغیر سم ایکٹیو کر دیتی ہے۔ یہ ایسا آئٹم ہے جے کسٹم حکام نے چیک نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے قرار دیا کہ کسٹم حکام فعال ہو جائیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ عدالت میں چیئرمین پی ٹی اے ڈاکٹر اسماعیل شاہ نے بتایا کہ یہ مشین آسانی سے بنائی جا سکتی ہے۔ چیئرمین پی ٹی اے نے غیر قانونی سموں اور موبائل فون کے ذریعے دہشت گردی روکنے کے لئے لائحہ عمل اور تجاویز پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن میں آئی ایم ای آئی پر دو سے زائد سمز فعال نہیں ہو سکیں گی۔ ایک شخص پانچ سے زائد سمز نہیں رکھ سکے گا۔
سروسز مہیا کرنے والے پہلے مرحلے میں دس سے زائد سمز والے صارفین کی نشاندہی کریں گے۔ دس سے زائد سموں والےصارفین سے دو خفیہ سوال کئے جائیں گے۔ بغیرآئی ایم ای آئی نمبر موبائل فون درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ نے غیر قانونی سمز کی روک تھام کے لئے چیئرمین پی ٹی اے کی سربراہی میں ٹاسک فورس بنانے کا حکم دیا۔ ٹاسک فورس میں سیلولر کمپنیاں، نادرا، ایف آئی اے، ایف بی آر، چاروں صوبوں کے ڈی آئی ج اور حساس اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔
عدالت نے ٹاسک فورس کو سترہ دسمبر تک حتمی سفارشات تیار کرکے پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔