گزشتہ چند ماہ میں وطن عزیز پاکستان میں عوام کی بہتری فلاح اورقانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے اہم اقدامات کا اعلان کیا گیا جن میں سرفہرست دو اہم مہمات کا ذکرآج کے کالم کا موضوع ہے قارئین کرام آپ بخوبی جانتے ہیں مہم کا جہاں ذکر ہوگا وہاں دشواری تو ہوگی کچھ ایسا ہی ہوا جب حکومت وقت نے پہلی مہم ناجائزتجاوزات کوختم کرنے کی شروع کی تو دوستوں کی محفلوں میں میرا کہنا یہ ہی تھا کہ اِس مہم کا کامیابی سے ہمکنار ہونا ناممکن نظر آتا ہے جہاں صاحب حثیت سے لے کرعام شخص تک یہ سوچے کہ حکومت کی ملکیتی جگہ کو ذاتی استعمال میں لانا کونسا غلط عمل ہے ؟سانچ کے قارئین کرام جانتے ہیں کہ سابقہ چند کالموں میں ذکر کیا تھا کہ عوام کی جانب سے اِس مہم کا خیر مقدم اُس طرح کا نہیں ہوا جس کی توقع تھی حکومت کی جانب سے اکتوبر کے آغاز میں شروع ہونے والی ناجائز تجاوزات کے خلاف مہم کو ایک ہفتہ کے بعد ہی کہیں کہیں روکنا پڑا اور آخر کارپندرھویں دن ناجائز تجاوزات کرنے والوں کی سنی گئی اور آئندہ کاروائی کے لیے کمیٹی قائم ہو گئی۔
پنجاب بھر کی طرح میرے شہر اوکاڑہ میں بھی اکتوبرکے پہلے سات دنوں میں ناجائز تجاوزات قائم کرنے والوں کے خلاف وسیع پیمانے پرکاروائیاں کی گئیں اور سینکڑوں ایکڑزمین واگزار کروائی گئی شہر کے بازار کشادہ ہوگئے سڑکوں نالیوںپر قائم تھڑے توڑ کر کافی حد تک بازاروں ،گلیوں کو انکی حقیقی پیمائش کے مطابق لانے کی کوششیں کی گئی اسی اثنا ء میں ہماری بیوروکریسی نے پنجاب بھر کی طرح یہاں بھی کچی آبادیوں پر ایکشن کر چھوڑا اور بعض دوکانوں کو بھی ختم کر دیاپھر غریب کی آواز بن کر ہمارے عوامی نمائندے اور تاجر تنظیمیں میدان میں آئیں جس کے نتیجے میں کچی آبادیوں کو ریگولائز ڈ کرنے کے چکر میں سابقہ ادوار کی طرح یہ مہم اپنے اختتام کو پہنچی حکومت کی جانب سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن زمینی حقائق کے مطابق ناجائز تجاوزات کے خلاف جاری مہم کافی حد تک سرد پڑ چکا ہے یہاں یہ بات تو بالکل درست ہے کہ کچی آبادیوںپر ایکشن نہ لینے کے پہلے ہی واضح احکامات انتظامیہ کو دے دیے جاتے تو شاید بہت سے غریبوں کو چھت سے محروم نہ ہونا پڑتا کچی آبادیوں کو ریگولائز ڈ کرنے کے بارے سالہا سال سے کوئی اہم کام نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے نئی نئی آبادیاں بھی قائم ہوتی چلی گئیں جہاں یقیناََغریب افراد ہی بستے ہیں پہلے سے قائم کچی آبادیوں کو ریگولائزڈ کرنا بہت ضروری تھا جس پر نہ پہلے توجہ دی گئی اور شاید آئندہ بھی نہ ہواِس مہم کے ختم ہونے سے کچی آبادیوں کے مکینوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی یقیناََ خوش ہیں جنھوں نے بازاروں ،سڑکوںپر قبضے جما رکھے ہیں۔
بازاروں میں دوکانداروں نے سکھ کا سانس اِس لیے بھی لیا ہے کیوں کہ اکثر یت ایسی ہے جنھوں نے خود تو دوکان تیس یا چالیس ہزار روپے کرایہ پر حاصل کر رکھی ہے اور دوکان کے تھڑے پر اور اُس سے پانچ فٹ آگے تک کائونٹر لگا کر کسی دوسرے کو دس بارہ ہزار کرایہ پر دے رکھا ہے یہ نام نہاد غریب بازاروں کی سڑکوں پر ناجائز قبضہ کر کے اپنی آمدن میں اضافہ کررہے ہیں ان ناجائز کائو نٹر لگائے کاروبار کرنے والوں اور ریڑھی والوں کے خلاف جب بھی قانون حرکت میں آتا ہے تو غریب کی روزی چھیننے کا واویلا کرنے والے میدان میں آجاتے ہیں یہ ہی کچھ پہلے ہوتا آیا اور یہ ہی اب ہوا سانچ کے قارئین کرام کیا ایسے افراد کو اجازت دے دی جائے کہ وہ ناجائز بازاروں میں گورنمنٹ کی ملکیتی جگہوں خاص طور پر سڑکوں پر قابض ہو جائیں ان لوگوں کے بازاروں میں قبضوں کی وجہ سے تیس فٹ کی سڑکیں سکڑ کر دس فٹ اور دس فٹ کی دوفٹ تک رہ گئی ہیں ،بلدیہ کا تہہ بازاری کا عملہ بھی خاموش رہنے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے دین اسلام میں ناجائز قابضین کے خلاف سخت احکامات ہیں کسی دوسرے کی چیز کو اْسکی مرضی کے بغیر استعمال کرنے کو پیارے نبی حضرت محمد ۖ نے حرام قرار دیا ہے، سرکاری اشیاء کاناجائز استعمال حقیقت میں پوری قوم کی حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے مانا کہ وطن عزیز میں فلاحی ریاست کاقیام اکہتر سال میں ممکن نہ ہو سکا امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہے جسکی وجہ سے غریب کے لئے چھت کا حصول انتہائی مشکل ہے۔
قصبات اور دیہاتوں میں صورتحال اس سے بھی گھمبیر ہے جہاں حکومتی ملکیتی زمین پر احاطے بنائے گئے ہیں بلکہ بعض منہ زور وں نے گلیوں کو بند کر کے اپنے استعمال میں لانا اپنا حق سمجھ رکھا ہے دوسری مہم جو اکتوبر کے وسط میں شروع ہوئی ہے وہ کلین اینڈ گرین کی ہے اگرچہ سرسبز پاکستان مہم موسم برسات سے انتہائی کامیابی سے چل رہی تھی کہ حکومت نے گرین مہم کے ساتھ سابقہ کے طور پر کلین لگادیا تاکہ ناجائز تجاوزات کے خاتمے کی مہم مکمل نہ کر پانے کا ذکر زبان زد عام نہ ہوسکے پیارے نبی حضرت محمد ۖ کا فرمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے الحمدللہ وطن عزیز پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے اور یہاں بسنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے پھر بھی ہماری گلیوں،محلوں ،شہروں ،قصبات میںکوڑا کرکٹ جا بجا نظر آتا ہے ہمارے ہاں پبلک مقامات پر گندگی پھیلانے پر جرمانہ صرف قانون کی کتابوں میں ملتا ہے چھوٹے ہوں یا بڑے ریلوے اسٹیشنوں ، بس اسٹینڈوں، پارکوں میں صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے بلکہ شہر کی سڑکوں پر اشیاء کے ریپرز،شاپربیگ ،پھلوں کے چھلکے چلتی ٹریفک سے پھینکنا عام بات سمجھتے ہیں گلیوں محلوں میں نالیوں اور کونوں میں کوڑا کرکٹ پھینک کر گندگی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں بلدیہ کا صفائی عملہ بھی اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے مناسب وقت پر صفائی نہیں کرتا،مین ہولز کے ڈھکن چوری کر لیئے جاتے ہیں جس سے نا صرف حادثات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ گٹروں میں کوڑا پھینکنے سے سیوریج کا نظام بھی تباہ ہو جاتا ہے گزشتہ دنوں صفائی کمیٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جو اپنے اپنے محلوں ،گلیوں میںبلدیہ کے عملہ کے ساتھ ملکر صفائی رکھنے کی ذمہ داری نبھائیں گی اس سلسلہ میں گزشتہ روز منعقدہ ایک اجلاس کی کاروائی قارئین کی نظر ہے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل افضل ناصر نے کلین اینڈ گرین اوکاڑہ کمیٹی کے پہلے باقاعدہ اجلاس کی صدارت کی اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو خرم شھزاد ،اسسٹنٹ کمشنر اوکاڑہ رافعہ قیوم ،اسسٹنٹ کمشنر رینالہ عمر مقبول ،اسسٹنٹ کمشنر دیپالپور مسعود احمد ،چیف آفیسر بلدیہ اوکاڑہ ،میونسپل کمیٹیوں کے چیف افسران ،صفائی کمیٹی اوکاڑہ کے ممبران میں راقم سمیت شہباز ساجد ،عرفان اعجاز ، وارڈوں کے کونسلرز ،سینٹری انسپکٹرزاور متعلقہ اداروں کے افسران نے شرکت کی۔
اسسٹنٹ کمشنر اوکاڑہ رافعہ قیوم نے صفائی کمیٹی کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہروں،قصبات کو خوبصورت اور صاف ستھرا رکھنے کے لئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نمائندہ لوگوں کو آگے آکر انتظامیہ کا بھر پور ساتھ دینا ہوگا ،رہائشی علاقوں ،شاہراہوں اور بازاروں کوصاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ سایہ دار اور پھل پھول والے پودوں سے خوبصورت بنایا جائے گا شہریوں ،تاجروں ،فیکٹری مالکان ،کونسلروں ،این جی اوز کے نمائندوں کو اس کار خیر میں شریک کیا جائے گا اس موقع پر صفائی کمیٹی کے ممبران نے شہر کو صاف ستھرا ور خوبصورت بنانے کے لئے ضلعی انتظامیہ کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے مختلف تجاویز بھی دیںراقم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ناجائز تجاوزات کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک شہر کے بازاروں اور گلی محلوں میں صفائی مہم کے سو فیصد نتائج کا حصول ناممکن ہے نالیوں پر قائم تھڑے اور سات سے دس فٹ آگے تک دوکانداروں کا سامان پڑا ہونے کی وجہ سے صفائی میں مشکلات پیش آتی ہیں دوسرا بلدیہ کا عملہ بھی اپنے فرائض کو کماحقہ پورا کرتا نظر نہیں آتا اور بعض شہری آبادیوں کے ساتھ بنائے گئے فلتھ ڈپومکینوں کے لئے وبال جان اور مختلف بیماریوں کا سبب بھی بن رہے ہیں۔