ریاض (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے 86 سالہ فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کی علالت کے باعث کار مملکت کی تمام تر ذمہ داریاں 36 سالہ ولی عہد محمد بن سلمان کے کاندھوں پر آگئی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے بزرگ اور بیمار والد کی ریاست کے بادشاہ ہونے کی زیادہ تر ذمہ داریاں اب خود سنبھال لی ہیں اور وہ سعودی عرب کے بے تاج بادشاہ بن رہے ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کی ریاض میں ایک غیر ملکی عہدیدار کے ساتھ آخری ملاقات مارچ 2020 میں ہوئی تھی جب کہ ان کا آخری بیرون ملک سفر جنوری 2020 میں سلطان قابوس کی موت پر تعزیت کے لیے عمان کا تھا۔ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز 86 برس کے ہوگئے ہیں اور ان کی صحت ملک کی اہم ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے میں رکاوٹ بن رہی ہے جب کہ اس وقت خود ریاست میں اصلاحات کے ذریعے تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں اور خطے میں بھی حالات تبدیل ہورہے ہیں۔
ایسی صورت حال میں 36 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان صدارتی اجلاسوں، عالمی وفد اور معززین کے استقبال سمیت مملکت کے تمام کاموں کی انجام دہی میں مصروف نظر آرہے ہیں اور نہ صرف عوامی بلکہ عالمی سطح پر شہرت بھی حاصل کر رہے ہیں۔
اگرچہ شہزادہ محمد جون 2017 میں تخت کے وارث کے طور پر اپنی تقرری کے بعد سے ہی ڈی فیکٹو لیڈر تصور کیے جاتے ہیں لیکن رواں ماہ کے اوائل میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے ملاقات کی اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس کی قیادت نے ان کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔
اس حوالے سے کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی یاسمین فاروق نے کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی ان مصروفیات سے بڑھ کر نئی بات یہ ہے کہ اب ولی عہد اس متوازی کردار کو قومی اور عالمی میڈیا قبول کر رہا ہے۔
سعودی حکام نے شاہ سلمان اہم مواقعوں پر عدم موجودگی اور غیر حاضری کی وجہ تو نہیں بتائی البتہ سعودی حکومت کے مشیر علی شہابی نے کہا کہ فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز خیریت سے ہیں تاہم وہ احتیاط برت رہے ہیں۔
علی شہابی نے اپنی ٹوئٹ میں مزید بتایا کہ بادشاہ روز ورزش کرتے ہیں لیکن وہ ماسک پہننے میں بے چینی محسوس کرتے ہیں اور لوگوں سے ہاتھ ملانے اور گرمجوشی سے سلام کرنے کا رجحان رکھتے ہیں اس لیے انہیں وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے اضافی احتیاط برتی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے اعتدال پسند اسلام کے چیمپیئن کے طور پر کھڑا ہونے کی عالمی سطح پر تعریف کی جا رہی ہے تاہم ان کی عالمی شہرت کو 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول کے قونصل خانے میں قتل سے شدید نقصان پہنچا تھا۔