فلسطین کے شہروں، قصبوں، دیہات اور پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی فوج کی چڑھائی، نہتے فلسطینیوں کے گھروں میں لوٹ مار، شہریوں کوہراساں کرنے اور کم عمر فلسطینیوں کو اہانت آمیز انداز میں گرفتار کرنے کے واقعات روز مرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ جلاد صفت صہیونیوں کی غنڈہ گردی کی ایک مثال میں مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں ‘العروب’ پناہ گزین کیمپ میں دیکھی گئی جہاں ‘گیواتی’ اسرائیلی کمانڈو یونٹ کے 100 اہلکاروں نے لیزر شعاعوں سے لیس بندوقوں کے ساتھ اس طرح دھاوا بولا جیسے وہاں پر کوئی انتہائی خطرناک اشتہاری چھپا ہو اور اس کی گرفتاری صہیونی فوج کے لیے غیر معمولی ٹارگٹ ہو۔
صہیونی فوج کے اس ٹڈی دل لشکر اور بزدل اہلکاروں نے آدھی رات کو العروب کیمپ میں چاروں اطراف میں پھیل کر ایک ایک گھر کی تلاشی کا سلسلہ شروع کردیا۔ گیواتی یونٹ کے اہلکار 62 سالہ خلیل جوابرہ کے گھر کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے اندر گھسے اور جاتے ہی جوابرہ سے نہایت کرخت لہجے میں ان کے بیٹے محمد کے بارے میں پوچھا۔ الجوابرہ نے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا بیٹا سو رہا ہے۔ درجنوں قابض فوجی محمد کے کمرے میں داخل ہوگئے جہاں اس کے علاوہ سات اور بچے بھی سو رہے تھے۔صہیونی فوجیوں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی انہیں لاتیں اور گھونسے اور لاتیں مارتے ہوئے انہیں گھسیٹنا شروع کردیا۔ انہیں گالیاں دیتے اور پوچھتے کی تم میں ‘محمد الجوابرہ’ کون ہے۔
اس پر محمد نامی بچے نے جواب دیا کہ میں محمد ہوں اور میری عمر 12 سال ہے۔ اس پر ایک فوجی افسر نے کہا کہ جوتے پہنو اب تم زیرحراست ہو۔تم ایک تخریب کارہو، سنگ باز ہو، تم نے فوجی چیک پوسٹوں اور فوجیوں پر بار بار سنگ باری کی ہے۔ اس پر بچے نے بڑے اطمینان کے ساتھ جواب دیا کہ گرفتاری وغیرہ کوئی مسئلہ نہیں،مگر آج میرا امتحان ہے اور ریاضی کا پرچہ ہے۔ آپ مجھے پرچہ دینے دیں اور اس کے بعد میں خود جیل پہنچ جاؤں گا۔ اس پرایک بزدل فوجی نے ٹھٹھہ کیا اور بچے کو چھینتے ہوئے گھسیٹ کر فوجی جیپ میں پھینک دیا۔ محمد الجوابرہ واحد فلسطینی بچہ نہیں جس کے ساتھ اس قدر بہیمانہ سلوک ہوا ہے۔ اس طرح کے واقعات اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کے خلاف دشمن کا ‘ہولوکاسٹ’ ہے۔ یہ ہولوکاسٹ کئی طریقوں اور حربوں سے جاری ہے۔ فلسطینیوں کی امنگوں کا قتل عام، ان کی تعلیم اور مستقبل کا قتل عام اور کئی اور قتل عام کے حربے شامل ہیں۔
فلسطینیوں کی امنگوں کا قتل عام اپنی جگہ مگر قابض صہیونی فوج کی طرف سے ننھے فلسطینیوں سے ان کابچپن چھینا جا رہا ہے۔2000ء کے بعد سے اب تک قابض صہیونی فوج نے 2012 غرب اردن، بیت المقدس اور غزہ کی پٹی بچوں کو شہید کیا ۔صہیونی نشانہ باز ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دانستہ طور پر فلسطینی بچوں کو نشانہ بناتی ہے۔
عالمی تحریک دفاع اطفال کے رابطہ کار ریاض عرار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں سالانہ 700 فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا جاتا ہے۔حراست میں لیے گئے بچوں کو غیرانسانی ماحول میں رکھا جاتا ہے۔
عرار نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج نے 18 سال سے کم عمر کے سینکڑوں بچوں کو حراست میں لیا۔ اعدادو شمار کے مطابق گرفتاری کے وقت بچوں کو بری طرح مارا پیٹا جاتا، انہیں خوف زدہ کیا جاتا ہے، جسمانی اور نفسیاتی اذیتوں کے خوفناک ہتھکنڈوں سے دوچار کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سرحان البدوی فلسطین میں نفسیاتی عوارض کے معالج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں سے رہا کیے گئے 64 فی صد بچوں کا نفسیاتی علاج کیا گیا۔ ان میں سے بیشتر بچوں کا بار بار طبی معائنہ کیا گیا۔ ان بچوں کو جیلوں کی تنگ اور تاریک کوٹھڑیوں میں ڈالا گیا۔ انہیں حراستی مراکز میں انہیں اذیتیں دی گئیں جس کے نتیجے میں ان کی زندگیوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ زیادہ تر بچوں کو الجملہ، عسقلان، مسکوبیہ اور بتاح تکفا جیلوں میں رکھا گیا ہے۔
قابض صہیونی حکام کی جانب سے کم سن فلسطینی بچوں کو زندانوں میں ڈالنے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال کرنے کا سلسلہ منظم انداز میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہے۔ فلسطینی محکمہ امور اسیران کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگست 2018ء کے دوران اسرائیلی فوج اور پولیس کی جانب سے درجنوں فلسطینی بچوں کو حراست میں لینے کے بعد زندانوں میں ڈالا گیا۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق متعددکم عمر فلسطینی بچوںکو رات کی تاریکی میں ان کے گھروں سے، سڑکوں سے اٹھا لیا جاتا ہے ۔ چیک پوسٹوں اورحراستی مرکز میں طلب کرکے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی بچوں کو گرفتاری کے وقت وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔34 فلسطینیوں کو 31 دن سے 10 ماہ تک قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ درجنوں بچوں کو بھاری جرمانوں کی سزائیں سنائی گئی۔ ان فلسطینی بچوں سے 86 ہزار کی رقم جرماموں کی مد میں وصول کی گئی۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے فلسطینی بچوں کو بیماریوں اور جنگ وجدل سے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطین کے لیے عالمی مندوب برائے انسانی حقوق کے رابطہ کار جیمی میک گولڈریک، اقوام متحدہ کے مندوب برائے انسانی حقوق جیمز ھینان اور فلسطین میں عالمی تنظیم افطال ‘یونیسیف’ کے سربراہ جینیویو پوٹن نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ جنگ، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری کشمکش اور ابتر معاشی صورت حال کے باعث فلسطینی بچوں کا مستقبل مخدوش ہے۔تینوں عالمی اداروں نے غزہ کی پٹی میں حق واپسی ریلیوں میں حصہ لینے والے فلسطینیوں کو انتقامی کارروائیوں اور حملوں کا نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی ہے۔
انسانی حقوق کے مندوبین کا کہنا ہے کہ فلسطین میں بچوں کے بنیادی حقوق کی سنگین پامالیوں کا ارتکاب جاری ہے۔ انہیں مناسب خوراک، ادویات، علاج اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ تینوں عالمی تنظیمیں بین الاقوامی برادری سے غزہ کی پٹی میں فلسطینی بچوں کو تحفظ دینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی زندانوں میں 18 سال کی عمر کے 300 بچے پابند سلاسل ہیں۔ ان میں 14 فلسطینی بچیاں بھی شامل ہیں۔
‘کلب برائے اسیران’ کی طرف سے یہ رپورٹ بچوں کے عالمی دن کی مناسبت سے جاری کی گئی ہے۔ روپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی حکام بچوں کو گرفتار کرتے وقت بھی انہیں ان کے اہل خانہ کے سامنے ہولناک تشدد کا نشانہ بناتیہیں۔ ان کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیے جاتے ہیں اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جیلوں میں ڈالے جانے کے بعد ان بچوں کو بدترین مظالم کا سامنا ہوتا ہے۔
دوران حراست صہیونی زندانوں میں فلسطینی بچوں کے بنیادی حقوق بری طرح پامالی کیے جاتے ہیں۔ صہیونی ریاست کے تمام ادارے حتیٰ کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ بھی فلسطینی بچوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ظالمانہ قوانین وضع کیے جاتے اور ان نام نہاد قوانین کی آڑمیں فلسطینی بچوں کو انتقام کا نشانہ بناجاتا، انہیں قید کی کڑی سزائیں دی جاتی اور بغیر الزام کے طویل عرصے تک پابند سلاسل رکھا جاتا ہے۔
فلسطین میں ایسا کوئی دن شاید ہی گذرتا جس میں نہتے بچوں پرصہیونی فرعون مظالم نہ ڈھا رہے ہوں۔ نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کے بہانے کم سن فلسطینیوں کو ہراساں کرنا، گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالنا، دوران حراست جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی اذیتوں کا نشانہ بنانا اور بچوں کو طویل المدت قید وبند کی سزائیں سنانا فرعون صفت غاصب صہیونیوں کا دل پسند مشغلہ بن چکا ہے۔