مصطفٰے جان رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام مہر چرخ نبوت پہ روشن درود گل باغ رسالت پہ لاکھوں سلام شہر یار ارم تاجدار حرم نو بہار شفاعت پہ لاکھوں سلام شب اسریٰ کے دولہا پہ دائم درود نوشہ بزم جنت پہ لاکھوں سلام عرش کے زیب و زینت پہ عرشی درود فرش کی طیب و نزہت پہ لاکھوں سلام نور عین لطافت پہ الطف درود زیب و زین نظافت پہ لاکھوں سلام
یہ محبت ، الفت ، چاہت سے بھر پور کلام عاشقِ رسول ۖ جناب حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کا معروف سلام ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ آپ نے اپنی چار برس کی ننھی سی عمر میں اللہ پاک کی الہامی کتاب قرآن مجید کا ناظرہ مکمل کرلیا۔ چھ سال کی عمر میں ماہ مبارک ربیع الاول شریف کی تقریب میں منبر پر رونق افروز ہوکر بہت بڑے مجمع کی موجودگی میں ذکر میلاد شریف پڑھا۔ اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد مرزا غلام قادر بیگ سے میزان منشعب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی، پھر آپ نے اپنے والد نقی علی خان سے اکیس علوم پڑھے: نمبر 1: علم قرآن، نمبر 2 : علم تفسیر، نمبر 3: علم حدیث، نمبر4: اصول حدیث، نمبر5: کتب فقہ حنفی، نمبر6:کتب فقہ شافعی و، نمبر7:اصول فقہ، جدل مہذب، نمبر8:علم العقائد و الکلام، نمبر9:علم نجوم، نمبر10:علم صرف، نمبر11:علم معانی، نمبر12:علم بیان، نمبر13:علم بدیع، نمبر14:علم منطق، نمبر15:علم مناظرہ، نمبر16:علم فلسفہ مدلسہ، نمبر17:ابتدائی علم تکحیہ، نمبر18:ابتدائی علم ہیئت، نمبر19:علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم، نمبر20:ابتدائی علم ہندسہ۔ نمبر21 : مالکی و حنبلی وغیرہ
تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کی عمر شریف میں 14 شعبان 1286 ھ مطابق 19 نومبر 1869ء کو آپ فارغ التحصیل ہوئے اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔ اسی دن مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی لکھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا۔ جواب بالکل صحیح تھا۔ والد ماجد نے ذہن نقاد و طبع وقاد دیکھ کر اسی وقت سے فتوی نویسی کی جلیل الشان خدمت آپ کے سپرد کردی۔ آپ نے تعلیم و طریقت سید آل رسول مارہروی سے حاصل کی۔
مرشد کے وصال کے بعد بعض تعلیم طریقت نیز ابتدائی علم تکسیر و ابتدائی علم جفر و غیرہ سید ابو الحسین احمد نوری مارہروی سے حاصل فرمایا۔ شرح چغمینی کا بعض حصہ عبد العلی رامپوری سے پڑھا، پھر آپ نے کسی استاذ سے بغیر پڑھے محض خدا داد بصیرت نورانی سے حسب ذیل علوم و فنون میں دسترس حاصل کی اور ان کے شیخ و امام ہوئے: قرائت، تجوید، تصوف، سلوک، علم اخلاق، اسماء الرجال، سیر، تواریخ، لغت، ادب، مع جملہ فنون، ارثما طیقی، جبرو مقابلہ، حساب ستیسنی، لوغارثمات یعنی لوگاریتہم، علم التوقیت، مناظرہ، علم الاکر، زیجات، مثلث کروی، مثلث مسطح، ہیئت جدیدہ یعنی انگریزی فلسفہ، مربعات، منتہی علم جفر، علم زائچہ، علم فرائض، نظم عربی، نظم فارسی، نظم ہندی، انشاء نثر عربی، انشاء نثر فارسی، انشاء نثر ہندی، خط نسخ، خط نستعلیق، منتہی علم حساب، منتہی علم ہیئت، منتہی علم ہندسہ، منتہی علم تکسیر، علم رسم خط قرآن مجید۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مولانا کے اساتذہ کی فہرست تو بہت مختصر ہے لیکن مولانا نے بہت سے فنون میں کتابیں لکھیں۔
آپ کے بہت سے وصف تھے تمام فضائل وکمالات سے بڑھ کر ‘عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ”ہے۔ ان کی تصانیف وتالیفات میں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ یہی حُبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ترجمہ قرآن کریم ہویا تشریح احادیث، فقہ کی باریک بینی ہو یا شریعت و طریقت کی بحث ہو یا نعتیہ شاعری، ہرجگہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔ آپ کی ذات عشق مصطفی سے عبارت تھی۔ آپ کی تحریروں کا ایک ایک حرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نعت گو شعراء میں کوئی شاعر علم وفضل اور زُہد وتقویٰ میں مولانا امام احمدرضا خاں رحمة اللہ علیہ کا ہم پلہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کہاتھا کہ ”اگر مولانا میں شدت نہ ہوتی تو وہ اپنے زمانے کے امام ابو حنیفہ ہوتے۔”
اگر ہم مولانا احمد رضا خان بریلوی کی زندگی کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ جس شدت کاڈاکٹر علامہ اقبال تذکرہ کررہے ہیں۔ وہ مولانا کی زندگی میں ان کے ذاتی معاملات میں نہ تھی بلکہ شدت کا یہ اظہار وہ دشمنان دین کے مقابلے پر کرتے تھے جو قرآنی تعلیمات ”اشد آء علی الکُفّار”کے عین مطابق ہے اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خود علامہ اقبال فرماتے ہیں:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ مورخہ 10شوال المکرم 1272ھ مطابق 14جون 1856ء کو ہندستان کے مشہور ومعر وف شہر بریلی (اتر پردیش)میں پیدا ہوئے اور مورخہ25صفر المظفر 1340ھ مطابق1921ء کو نمازِ جمعہ کے وقت بریلی شریف میں دنیا فانی چھوڑ دی ۔۔ مزارِ پاک محلہ سودا گران بریلی شریف میں ہے۔ ہرسال 25صفر کو عرسِ مبارک منایا جاتا ہے۔ایسی عظیم ہستاں قوموں کا وقار اور سرمایہ ہوتی ہیں۔
ضرور ت اس امر کی ہے فرقہ بندی سے بالاتر ہو زاتی پسند اور نا پسند سے باہر نکل کر حضرت احمد رضا خان بریلوی کے عشق رسول ۖ کو سمجھا جائے اور عملی زندگی میں اپنایا جائے تا کہ دین اسلام کی اصل تصویر پیش کی جا سکے کہ اسلام محبت ، پیار اور امن کا درس دیتا ہے۔