تحریر: محمد صدیق پرہار محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی دین اسلام کو بچانے اور نظام مصطفی کے استحکام کے لیے امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام اورآپ علیہ السلام کے جانثاروں کی شہادت کا منظر تصورات کی سکرین پر دکھائی دینے لگتا ہے۔ کی ضرورت ہے۔امام عالی مقام چاہتے تھے کہ معاملہ بات چیت سے حل ہوجائے قتل عام نہ ہو تاہم یزیدی کسی بات پرآمادہ ہی نہیں ہوئے ۔کتاب تاریخ کربلا کے صفحہ ٢٧٩ پر ہے کہ اہلبیت کاقافلہ جب مقام بیضہ پہنچا تو حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اورحرکے ساتھیوں کے سامنے ایک پرجوش خطبہ دیا۔جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا لوگو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جوشخص کسی ایسے ظالم بادشاہ کودیکھے جوظلم وجورکرتا ہو،اللہ تعالیٰ کے حرام کوحلال بنائے ہوئے ہو۔خدائی عہدوپیمان کوتوڑ رہا ہو،سنت رسول کی مخالفت کرتاہو،اللہ کے بندوںپرگناہ اورزیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہوتووہ شخص بقدرطاقت قولاً وفعلاً اس کونہ بدلے تواللہ تعالیٰ کوحق پہنچتا ہے کہ اس کواس بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل فرمائے گا۔
اس کے بعد موجودہ صورت حال پرتبصرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔لوگو!تمہیں معلوم نہیں کہ بنی امیہ نے شیطان کی اطاعت اختیارکی اوراللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ پھیرا۔ملک میں فسادبرپاکردیا ہے، حدودشرع کومعطل کردیا ہے،مال غنیمت کواپنے لیے مخصوص کرلیا ہے۔ اس صورت میںمجھ سے زیادہ کس پریہ فرض عائدہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی کوشش کرے۔ میرے پاس تمہارے خطوط آئے قاصدپہنچے کہ تم نے بیعت کرلی ہے اورتم مجھے بے یارومددگارنہیں چھوڑوگے۔پس اگرتم اپنی بیعت پوری کروگے راہ راست پر پہنچو گے۔ میں علی (کرم اللہ وجہہ) اورفاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کابیٹاحسین ہوں ۔میری شخصیت تم لوگوں کے لیے نمونہ ہے اوراگرتم ایسا نہ کروگے اوراپناعہداورمیری بیعت توڑ دوگے توواللہ! یہ بھی تمہاری ذات سے بعید اور تعجب انگیزفعل نہ ہوگا۔تم اس سے پہلے میرے باپ اوراب عم مسلم کے ساتھ ایسا ہی کرچکے ہو۔اورجس نے بھی تم پربھروسہ کیا وہ تمہارے دھوکہ میں آگیا۔
تم نے اپنے فعل سے بہت بری مثال قائم کی ہے۔ان شاء اللہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری مددسے بے نیازکردے گا۔یہ تقریرسن کرحرنے کہا میں آپ کوآپ ہی کی جان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں اورشہادت دیتا ہوں کہ اگرآپ نے جنگ کی توقتل کردیے جائیں گے۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تم مجھے موت سے ڈراتے ہو اورکیا تمہاری شقاوت اس حدتک پہنچ جائے گی کہ مجھے قتل کردوگے؟ اسی کتاب کے صفحہ ٢٨٨ پرہے کہ حضرت امام عالی مقام ہرگزہرگزاس بات کوپسندنہیں فرماتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان خون ریزی ہواوراس کادھبہ میرے اورپرلگایا جائے۔اس لیے آپ علیہ السلام نے اتمام حجت کے لیے دوبارہ خود اپنی جانب سے صلح کی گفتگوکاآغاز فرمایا اورعمروبن قرظہ بن کعب انصاری کے ذریعے اب سعد کویہ پیغام بھیجا کہ آج رات ہم تم سے ملناچاہتے ہیں۔ابن سعد نے یہ بات مان لی اوررات کے وقت بیس سواروں کے ساتھ لشکرامام حسین کے سامنے آیا۔
Hazrat imam Hussain Roza
حضرت امام حسین علیہ السلام بھی اتنے ہی ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے۔مگرجب قریب پہنچے توآپ نے اپنے ساتھیوںکوہٹادیا ۔اس کے بعد ابن سعد نے بھی اپنے ساتھیوںکوعلیحدگی کاحکم دیا۔دونوںمیں کافی رات گئے گفتگوہوتی رہی جس کوکسی نے نہیں سنا۔پھردونوں اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی اپنی قیام گاہ میں آگئے۔حضرت امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کرنے کے بعد ابن سعدکویہ کہناپڑا کہ آپ علیہ السلام صلح کے راستے پرگامزن ہیں۔اوراس نے بہت خوش ہوکرابن زیادکوخط لکھا اورحضرت امام حسین علیہ السلام کی اس شرط مصالحت سے اطلاع دی کہ خدائے تعالیٰ نے آگ کے شعلے کو بجھا دیا اور مسلمانوں کے شیرازہ کوبکھرنے سے بچالیا اوراتفاق پیدافرمادیا ۔ابن سعد کایہ خط ابن زیادکے پاس پہنچا توخط پڑھ کرابن زیادنے کہا یہ خط ایک ایسے شخص کاہے جواپنے امیرکاخیرخواہ اوراپنی قوم پر مہربان ہے ۔اچھامیں اس تجویزکوقبول کرتا ہوں۔یہ سن کربدبخت شمرکھڑاہوا اور کہا۔
کیا آپ یہ بات ان کی قبول کررہے ہیں جبکہ وہ آپ کے قبضے میں آچکے ہیں۔واللہ اگرحسین ہاتھ سے نکل گئے اورانہوںنے آپ کی اطاعت قبول نہ کی تووہ آگے چل کرضرورقوت وشوکت حاصل کرلیں گے۔اورآپ کمزور وعاجز ہوجائیںگ ے۔میری رائے میں توآپ انہیں یہ قدرومنزلت حاصل کرنے کاموقع نہ دیں۔بلکہ آپ انہیں حکم دیں کہ وہ اوران کے ساتھی اپنے آپ کوہمارے حوالے کردیں ۔اس صورت میںا گرآپ انہیں سزادیں گے تویہ آپ کاحق ہوگا اوراگرمعاف کردیں گے توا س کابھی آپ کواختیارہے واللہ مجھے تومعلوم ہوا ہے کہ حسین اورابن سعد دونوں لشکروں کے درمیان رات بھربیٹھے باتیں کیاکرتے ہیں۔شمرخبیث کی خوشامدانہ اور فتنہ پرور تقریر سے ابن زیادکی رائے بدل گئی۔اس نے کہا اے شمرتم نے اچھی رائے دی ہے۔ پھر ابن سعدکولکھا کہ حسین اوراس کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کریں توان کومیرے پاس بھیج دو اور اگروہ انکارکریں تو ان پر حملہ کردواوران کے سرکاٹ کر میرے پاس روانہ کردو۔اورحسین کی لاش پرگھوڑے دوڑا کرروند ڈالو اسی لیے کہ وہ اسی کے مستحق ہیں۔
اگرتم نے ہمارے احکام کی تعمیل کی توہم تمہیں بیش قرارانعامات سے نوازیں گے اوراگرتمہیں یہ منظور نہ ہوہمارالشکرشمرکے حوالے کردواورخودالگ ہوجائو۔جب شمرنے ابن زیادکاخط عمروبن سعدکودیاتواس نے پڑھ کرکہا ۔خداتجھے غارت کرے تومیرے پاس یہ کیا لایا ہے واللہ میں سمجھتا ہوں تو نے ہی ابن زیاد کو میرے مشورہ پرعمل کرنے سے روک دیااوراس بات کوبگاڑدیا جس کے بن جانے کی امیدتھی ۔خداکی قسم حسین کبھی ابن زیادکے سامنے نہیں جھکیں گے۔اس کے پہلومیں ایک خودداردل ہے۔شمرنے کہا ان باتوںکوجانے دو۔یہ بتائواب کیا کرو گے ؟ امیرکے حکم کی تعمیل کرکے ان کے دشمنوںکوقتل کروگے یالشکرمیرے حوالے کروگے؟ ابن سعد دنیاپرجان دینے والا اوررے کی حکومت کامتمنی تھا اس نے کہا میں لشکرتمہارے سپرد نہیں کروں گا بلکہ میں یہ مہم خودسرکروںگا اورتم پیدل فوج کی نگرانی کرو۔ اسی کتاب کے صفحہ ٢٩٢ پر ہے کہ کربلا کاخونی معرکہ ہونے سے ایک رات پہلے حضرت اما م عالی مقام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے حسب ذیل خطبہ دیا۔
Allah
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں آرام وتکلیف ہرحال میں اس کا شکر ہے ۔اے اللہ میں تیر اشکر ادا کرتا ہوں تونے ہمیں (اہلبیت) کونبوت کی عزت عطا فرمائی۔قرآن کاعلم عطافرمایا دین کی سمجھ بوجھ عطا کی اورسننے والے کان، دیکھنے والی آنکھیں اوردانادلکی نعمتوں سے مالا مال فرمایا اس کے بعد حضرت امام نے فرمایا میں دنیامیںکسی کے ساتھیوںکواپنے ساتھیوںسے زیادہ وفادار اور بہتر نہیں جانتا اورنہ کسی کے گھروالوںکواپنے گھروالوں سے زیادہ نیکوکاراورصلہ رحمی کرنے وال ادیکھتا ہوں ۔خدائے بزرگ وبرتر تم سب کومیری طرف سے جزائے خیرعطاء فرمائے سن لو! میں یقین رکھتا ہوںکہ ان دشمنوںکے ہاتھوں صبح ہماری شہادت ہے۔اس لیے میں تم سب کوبخوشی اجازت دیتا ہوں کہ رات کی تاریکی میں جہاں تم لوگوںکاجی چاہے چلے جائومیری طرف سے کوئی ملامت اورروک نہیں ہوگی بلاشبہ یہ لوگ میرے ہی قتل کے طالب ہیں اورجب مجھے قتل کرلیں گے توکسی دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔
اس خطبہ کوسن کرسب سے پہلے حضرت عباس پھرآپ کے دوسرے بھائیوں ،بیٹوں، بھتیجوںاوربھانجوںنے یک زبان ہوکرکہا کیا ہم صرف اس لیے چلے جائیں کہ آپ کے بعد زندہ رہیں ۔خداہمں وہ دن نہ دکھائے۔اس کے بعدامام عالی مقام نے خاص طورسے اولادعقیل کی طرف متوجہ ہوکرفرمایا مسلم کی شہادت تمہارے لیے کافی ہے۔ اس لیے میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم چلے جائو۔لیکن باحمیت بھائیوں نے جواب دیا ہم لوگوںکوکیا جواب دیں گے۔کیا ہم انہیں یہ کہیں گے کہ ہم اپنے سردار،اپنے آقااوربہترین ابن عم کودشمنوں کے نرغے میں چھوڑ آئے ہیں۔نہ ہم نے ان کے ساتھ مل کرکوئی تیرچلایا نہ نیزہ مارا،نہ تلوارکاکوئی وارکیا اورپھرہمیںیہ بھی نہیںمعلوم کہ ان کاکیا حشرہوا۔خداکی قسم ہم ہرگزایسا نہیں کریں گے بلکہ ہم اپنی جانیں ،اپنامال اوراپنے اہل وعیال سب آپ پرقربان کردیںگے۔آپ کے ساتھ ہوکرآپ کے دشمنوںسے لڑیں گے۔جوانجام آپ کاہوگا وہی ہمارا ہوگا۔
خداوہ زندگی نہ دے جوآپ کے بعد ہو۔اس کے بعد اصحاب میں سے حضرت مسلم بن عوسجہ کھڑے اورکہا ہم آپ کوچھوڑ کرچلے جائیں یہ ہم سے ہرگزنہیں ہوسکتا۔خداکی قسم ! میں دشمنوں سے نیزہ کے ساتھ جنگ کروںگا۔یہاں تک کہ میرا ان کے سینوںمیں ٹوٹ جائے اورتلوارچلائوںگا جب تک اس کاقبضہ میرے ہاتھ میں ٹھہرسکے۔خداکی قسم اگرمیرے پاس ہتھیارنہ ہوں گے تومیں پتھرمارمارکردشمنوں سے لڑوںگااورآپ پراپنی جان قربان کردوںگا۔اس کے بعد حضرت سعیدبن عبداللہ حنفی نے کہا خداکی قسم ہم آپ کاساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔جب تک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ ثابت نہ کرلیں کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعدآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسے کی کیسی حفاظت کی ہے۔خداکی قسم!اگرمجھے معلوم ہوجائے کہ میں قتل کیاجائوںگا پھرزندہ کیاجائوںپھرجیتے جی جلادیاجائوںگااورمیری راکھ ہوامیں منتشرکردی جائے گی۔اوراسی طرح سترمرتبہ میرے ساتھ ہوگا تب بھی میں آپ کاساتھ نہیں چھوڑوںگا۔
Trenches
اور یہ توایک ہی بارقتل ہونا ہے اس کے بعدوہ دائمی عزت ہے جوکبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔اس کے بعد حضرت زہیربن قیس کھڑے ہوئے اورکہا میری تویہ آرزوہے کہ میں قتل کیا جائوںپھرزندہ کیا جائوں پھر قتل کیاجائوں ایسے ہی میرے ساتھ ہزارمرتبہ ہومگرکسی طرح بھی خدائے تعالیٰ آپ کواورآپ کے اہلبیت کو بچالے۔غرضیکہ اسی طرح آپ کے ہررفیق اورجاںنثاراپنی اپنی عقیدت اورجاں نثاری کا اظہار کیا۔ اس کے بعد اورآپ کے تمام ساتھیوں نے نماز و دعا اور توبہ واستغفارمیں ساری رات گزاردی۔اوراس کے ساتھ ہی خیموں کی پشت پر خندق کھود کر لکڑیاں بھر دیں تاکہ بوقت جنگ ان میں آگ لگادی جائے تودشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے۔جب تمام جاںنثارقربان ہوچکے توامام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام نے اہلبیت اطہار کو صبر وتلقین فرمائی اورسب کواپنا آخری دیداردکھاکرآخری سلام کرکے گھوڑے پرس وار ہو گئے۔ تین دن کے بھوکے پیاسے اوراپنی نگاہوں کے سامنے اپنے بیٹوں،بھائیوں، بھتیجوں اور جانثاروں کو راہ حق میں قربان کردینے والے امام پہاڑوں کی طرح جمی ہوئی فوجوں کے مقابلے میں شیرکی طرح ڈ ٹ کرکھڑے ہوگئے۔
اورمیدان کربلامیں ایک ولولہ انگیزرجزپڑھی جوآپ کے نسب اورذاتی فضائل پرمشتمل تھی اوراس میں شامیوں کورسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ناخوشی وناراضگی اورظلم کے انجام سے ڈرایاتھا۔اس کے بعدآپ علیہ السلام نے ایک فصیح وبلیغ تقریرفرمائی ۔اس میں آپ علیہ السلام نے حمدوصلوٰة کے بعد فرمایا۔اے لوگو!تم جس رسول کاکلمہ پڑھتے ہواسی رسول کاارشادہے جس نے حسن وحسین سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اورجس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ تعالیٰ سے دشمنی کی تواے زیزیدیواللہ تعالیٰ سے ڈرواورمیری دشمنی سے بازآئو۔اگرواقعی خداورسول پرایمان رکھتے ہوتوسوچواس خدائے سمیع وبصیر کو کیا جواب دوگے۔اورمحسن اعظم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوکیامنہ دکھائوگے۔اپنے رسول کے لاڈلوں کا گھر اجاڑنے والواپنے انجام پرنظرکروبے وفائو! تم نے مجھے خطوط اورقاصدبھیج کربلایا اورکہا کہ ہماری راہنمائی فرمایئے اورہمیں شریعت وسنت پرعامل بنایئے ورنہ ہم خداکے حضورآپ کادامن پکڑکرشکایت کریں گے۔ اس لیے میں چلاآیااورجب میںیہاں آگیاتوتم نے میرے ساتھ براسلوک کیااورمظالم کی انتہاکردی۔
ظالموتم نے میرے بیٹوں، بھائیوںاوربھتیجوںکوخاک وخون میں تڑپا۔میرے رفقاء کوشہیدکیااوراب میرے خون کے پیاسے ہواے یزیدیوسوچوکہ میںکون ہوں کس کانواسہ ہوں میرے والدگرامی اوروالدہ صاحبہ کون تھیں۔بے غیرتواب بھی وقت ہے شرم سے کام لواورمیرے خون سے اپنے ہاتھوںکورنگین کرکے اپنی عاقبت بربادنہ کرو۔اتنے میںیزیدی لشکرمیں شوراٹھا اورکسی نے کہا اے حسین ہم کچھ سننانہیں چاہتے ۔آپ کے لیے سیدھاراستہ یہ ہے کہ آپ یزیدکی بیعت کرلیجئے یاپھرجنگ کے لیے تیارہوجائیے۔امام عالی مقام نے فرمایااے بدبختومجھے خوب معلوم ہے کہ تمہارے دلوںپرمہرلگ چکی ہے اورتمہاری غیرت ایمانی مردہ ہوچکی ہے اے یزیدیومیںنے یہ تقریراتمام حجت کے لیے کی تھی تاکہ تم کل یہ نہ کہہ سکوکہ ہم نے حق اورامام برحق کوپہچانانہیں تھا۔الحمدللہ میں نے تمہارایہ عذرختم کردیااب رہایزیدکی بیعت کاسوال ۔تویہ مجھ سے ہرگزہرگزنہیں ہوسکتا کہ میں فاسق وفاجرکے سامنے سرجھکادوں۔
Reconciliation
امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنے ان تمام خطابات میں صلح کی کوشش کی ،خون ریزی روکنے کی کوشش کی ۔یزیدیوں کو انجام بدسے ڈرایا مگر ان کے دلوں پر مہرلگ چکی تھی حق بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ میدان کربلا میںامام عالی مقام علیہ السلام نے اپنے کسی بھی ساتھی کوکوئی بھی لالچ نہیں دیا۔ بلکہ اجازت دے دی کہ تم رات کی تاریکی میں چلے جائو۔کسی کومجبورنہیں کیا۔کسی کودھوکہ دے کر اپنا ساتھی نہیں بنایا۔ کسی کواوربہانوں سے اپنے پاس نہیں بلایا۔بلندوبانگ دعوے نہیں کیے۔غلط بیانی نہیں کی۔ دوسری طرف لالچ ہی لالچ دیا گیا۔طرح طرح کی دھمکیاں دے کر،بھیس بدل کرلوگوںکواپنا ہمنوا بنا لیا گیا۔ میدان جنگ میں حق کی طرف سے ٧٢ جاںنثارتھے اوریزیدی لعینوںکی تعدادکم سے کم روایت میں ٢٢ ہزارسے زیادہ تھی۔
یزیدلعین نے اپنے سیاسی فائدے اورحکومت بچانے کے لیے لوگوں کو استعمال کیا۔ موجودہ وقت میں بھی لوگوںکواپنے سیاسی مفادات کے لیے بلایا جاتا ہے۔ لوگوںکوبہانے سے بلابلاکراپنی سیاست کو چمکایا جاتا ہے ۔لوگوں کو لالچ دے کربلاکراپنی سیاسی پاورشوکاانتظام کیاجاتا ہے۔آج بھی یزیدی کردار والے زیادہ اورحسینی کرداروالے بہت کم ہیں۔آج بھی نماز،روزہ، قرآن، صدقہ ،خیرات اورنیک کاموں کی ترغیب دلانے والوںکی مخالفت کی جاتی ہے۔ جویہ نیک امورکرنے کی مخالفت کرتے ہیں ان کااب بھی ساتھ دیاجاتا ہے۔حق پررہنے والے چاہے تعدادمیں کم ہوں جیت ان کی ہوتی ہے۔بروزقیامت اللہ کی بارگاہ میں بھی یہی نیک بخت مسلمان کامیاب ہوں گے۔