تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر یکم محرم الحرام محسنِ اسلام، پیکرِ وفا و شجاعت، مرادِ مصطفی، اللہ کی عطا، نظامِ عدل کے آفتاب، یاران مصطفی میں ماہتاب، شہیدِ محراب، خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن ہے۔ فاروقِ اعظم وہ شخصیت ہیں جن کی اسلام کے لیے روشن خدمات، جرات، بہادری، عدل، انصاف، فتوحات، فروغِ تعلیم کے لیے خدمات، شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ منور ہے۔ آپ کا اسم مبارک عمر، کنیت ابو حفص، لقب فاروقِ اعظم ہے۔ آپ کا شمار قریش کے ان گنے چنے افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ آپ فنِ خطابت میں بھی ماہر تھے۔ آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا۔ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ فقرائ، غلاموں ، مسکینوں، ضرورت مندوں اور مسافروں پر خرچ کیا کرتے تھے۔
حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ حضور ۖنے فرمایا کہ ”یا رب!عزوجل اسلام کو خاص عمر بن خطاب کے ساتھ غلبہ اور قوت عطا فرما۔” آپ ۖ کی دعا قبول ہوئی اور حضرت عمر فاروق اعلانِ نبوت کے چھٹے سال 27 سال کی عمر میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ کے اسلام میں داخل ہونے سے اسلام کی قوت و شوکت زیادہ ہوئی۔ مسلمان نہایت مسرور ہوئے۔ حضور اکرم ۖساتھیوں کے ساتھ مل کر پہلی بار اعلانیہ طور پر حرم پاک میں نماز اداکی۔ آپ سابقین اولین اور عشرہ مبشرہ بالجنتہ اور خلفائے راشدین میں سے ایک ہیں۔امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد آپ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور آپ نے تخت خلافت پر دس برس چھ ماہ چار دن پر رونق افروز ہو کر جانشینی رسول کی تمام ذمہ داریوں کو باحسن وجوہ انجام دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دس برس چھ ماہ چار دن کی خلافت نے سلاطینِ عالم کو متحیر کر دیا۔ زمین عدل و داد سے بھر گئی، دنیا میں راستی و دیانت داری کا سکہ رائج ہوا، مخلوقِ خدا کے دلوں میں حق پرستی و پاکبازی کا جذبہ پیدا ہوا، اسلام کی برکات سے عالم فیض یاب ہوا، فتوحات اس کثرت سے ہوئیں کہ آج تک ملک و سلطنت کے والی و سپاہ و لشکر کے مالک حیرت میں ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکروں نے جس طرف قدم اُٹھایا فتح ظفر قدم چومتی گئی، بڑے بڑے تاجداروں کے تاج قدموں میں روندے گئے، ممالک و بلاد اس کثرت سے قبضہ میں آئے کہ ان کی فہرست لکھی جائے تو صفحے کے صفحے بھر جائیں۔ رعب و ہیت کا یہ عالم تھا کہ بہادروں کے زَہرے نام سن کر پانی ہوتے تھے، جنگجو یا صاحبِ ہنر کانپتے اور تھرتھراتے تھے۔ قاہر سلطنتیں خوف سے لرزتیں تھیں۔ بایں ہمہ فرد اقبال و رعب و سطوب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درویشانہ زندگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ رات کو خوفِ خدا عزوجل میں روتے روتے رخساروں پر نشان پڑ گئے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں سنہ ہجری مقرر ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے دفتر و دیوان کی بنیاد ڈالی ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے بیت المال بنایا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تمام بلادو اَمصار میں تراویح کی جماعتیں قائم فرمائیں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے شب کے پہرہ دار مقرر کئے جو رات کو پہرہ دیتے تھے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زہد و ورع، تواضع و حلم یوں تھا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ گیارہ لقموں سے زیادہ طعام ملاحظہ نہ فرماتے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قمیض مبارک میں دو شانوں کے درمیان چار پیوند لگے تھے۔ یہ بھی روایت کہ شام کے ممالک جب فتح ہوئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان ممالک کو اپنے قدومِ میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا اور وہاں کے امراء و عظماء آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے استقبال کے لیے آئے تو اس موقع پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے شتر پر سوار تھے، آپ کے خواص و خدام نے عرض کیا ”اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے اکابر و اشراف حضور کی ملاقات کے لیے آ رہے ہیں مناسب ہو گا کہ حضور گھوڑے پر سوار ہوں تاکہ آپ کی شان و ہیبت ان کے دلوں میں جاگزیں ہو”، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ”اس خیال میں نہ رہیے کام بنانے والا اور ہی ہے۔ ” سبحان اللہ ایک مرتبہ قیصر روم کا قاصد مدینہ طیبہ میں آیا اور امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کرتا تاکہ بادشاہ کا پیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں عرض کرے، لوگوں نے بتایا کہ امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد میں ہیں، مسجد میں آیا دیکھا کہ ایک صاحب موٹے پیوند زدہ کپڑے پہنے ایک اینٹ پر سر رکھے لیٹے ہیں، یہ دیکھ کر باہر آیا اور لوگوں سے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پتہ دریافت کرنے لگا، کہا گیا: مسجد میں تشریف فرما ہیں، کہنے لگا: مسجد میں تو سوائے دَلَق پوش کے کوئی نہیں، صحابہ علیہم الرضوان نے کہا: وہی دلق پوش ہمارا امیر خلیفہ ہے۔ امام الحرمین نے اپنی کتاب ”الشامل”میں تحریر فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں زلزلہ آ گیا اور زمین زوروں کے ساتھ کانپنے اور ہلنے لگی۔ امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جلال میں بھر کر زمین پر ایک درہ مارا اور بلند آواز میں تڑپ کر فرمایا۔ ”اے زمین! ساکن ہو جا کیا میں نے تیرے اوپر عدل نہیں کیا ہے؟” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمانِ جلالت نشان سنتے ہیں زمین ساکن ہو گئی اور زلزلہ ختم ہو گیا۔
Hazrat Umar Farooq
روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ مصر کا دریائے نیل خشک ہو گیا۔ مصری باشندوں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فریاد کی اور یہ کہا کہ مصر کی تمام تر پیداوار کا دارومدار اسی دریائے نیل کے پانی پر ہے۔ اے امیر! اب تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی دریا سوکھ جاتا تھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا میں زندہ دفن کر کے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے تو یہ درفیا جاری ہو جایا کرتا تھا۔ اب ہم کیا کریں؟ گورنر نے جواب دیا کہ ارحم الراحمین اور رحمت العالمین کا رحمت بھرا دین اسلام ہر گز ہر گز کبھی بھی اس بے رحمی اور ظالمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہذا تم لوگ انتظار کرو۔ میں دربارِ خلافت میں خط لکھ کر دریافت کرتا ہوں۔ وہاں سے جو حکم ملے گا ہم اس پر عمل کریں گے۔ چنانچہ ایک قاصد گورنر کا خط لے کر مدینہ منورہ میں حاضر ہوا۔ امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا، جس کا مضمون یہ تھا:”اے دریائے نیل! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہو جا!” امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خط کو قاصد کے حوالے فرمایا اور حکم دیا کہ میرے اس خط کو دریائے نیل میں دفن کر دیا جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کھے مطابق گورنر مصر نے اس خط کو دریائے نیل کی خشک ریت میں دفن کر دیا۔ خدا کی شان کہ جیسے ہی امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دریا میں دفن کیا گیا فوراً ہی دریا جاری ہو گیا اور اس کے بعد پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔ روایت میں ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں ایک مرتبہ ناگہاں ایک پہاڑ کے غار میں سے ایک بہت ہی خطرناک آگ نمودار ہوئی جس نے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا، جب لوگوں نے دربارِ خلافت میں فریاد کی تو امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی چادر مبارک عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تم میر یہ چادر لے کر آگ کے پاس چلے جائو۔ چنانچہ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مقدس چادر کو لے کر روانہ ہو گئے اور جیسے ہی آگ کے قریب پہنچے یکا یک وہ آگ بجھنے اور پیچھے ہٹنے لگی یہاں تک کہ وہ غار کے اندر چلی گئی اور جب یہ چادر لے کر غار کے اندر داخل ہو گئے تو وہ آگ بالکل ہی بجھ گئی اور پھر کبھی ظاہر نہیں ہوئی۔ (ازالة الخفاء مقصد ٢، ص١٧٢) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات کہ مردوں سے بھی بات کر سکتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اے فلاں! اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتَانِ۔ یعنی: جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈر گیا۔ اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ اے نوجوان ! بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟ اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لے کر پکارا اور بلند آواز میں دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطا فرما دی ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبولِ اسلام کے بعد تمام غزوات میں شامل ہوئے اور جرات و بہادری کے جوہر دکھائے۔ غزوہ بدر میں قریش کے سرغنہ کو قتل کیا، غزوہ اُحد میں بھی آخر تک نہایت ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، غزوہ خندق میں خندق کے پار کفار کے حملوں کو پسپا کیا، غزوہ خیبر میں قلعہ وطیع و سالم کو فتح کرنے کے بعد ابو بکر صدیق کے بعد آپ کو بھیجا گیا، فتح مکہ کے موقع پر حضور ۖ نے آپ کو خواتین سے بیعت لینے پر مامور فرمایا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے گھر کا آدھا مال پیش کیا، غرضیکہ آپ تمام غزوات میں پیش پیش رہے۔ اللہ رب العزت نے مرادِ مصطفی ۖ کو جس طرح شاندار زندگی عطا کی میت بھی ویسی عطا کی۔ آپ نے اللہ کے حضور دعا کی۔ ”اے اللہ تیرے رستے میں شہادت پانے کا سوال کرتا ہوں اور تیرے حبیب کے شہر میں موت چاہتا ہوں۔ ” شہرِ رسول پاک ۖ میں بات ہی کچھ ایسی ہے کہ بیشتر صحابہ اکرام نے یہی خواہش کی۔ حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ ”مجھے موت قبول ہے رسولِ خدا کے شہر کی جدائی گوارا نہیں۔ ” عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ الٰہی میں جو دعا مانگی وہ قبول ہوئی۔
Allah
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جتنی فتوحات ہوئی اس کی دنیا میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان و شوکت اور فتوحات اسلامی سے باطل قوتیں پریشان تھیں۔ فیروز نامی پارسی مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا۔ وہ چکیاں بنانے میں ماہر تھا۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں ایرانی فتوحات سے اس قدر نالاں تھاکہ اس کے دل میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انتقام لینے کی آگ بھڑک رہی تھی۔ ایک روز وہ اپنے مالک کی شکایت لے کر امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا میرا مالک مجھ سے زائد ٹیکس وصول کرتا ہے۔ آپ نے دریافت کیا کہ کتنا ٹیکس وصول کرتا ہے؟ بتایا: دو درہم یومیہ۔ آپ نے فرمایا پھر توتمہارے فن اور کاریگری کے لحاظ سے مناسب ہے زیادہ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا ”سنا ہے تم چکیاں بہت اچھی بناتے ہو، ایک چکی مجھے بھی بنا کے دو۔” اس نے کہا آپ کو میں ایسی چکی بنا کے دوں گا جس کی دھوم ساری دنیا میں ہو گی۔ اس کے جانے کے بعد آپ نے وہاں موجود صحابہ اکرام سے فرمایا یہ شخص مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے۔ صحابہ اکرام نے عرض کی ،”اے امیر المومنین حکم دیں اس کو گرفتار کر لیں۔” آپ کا عدل دیکھئے، فرمایا اس نے مجھے دھمکی ضرور دی ہے، مگر اقدام جرم نہیں کیا لہذا تعزیر نہیں لگائی جا سکتی۔
٢٦ ذوالحجہ (اکثر روایات میں ٢٧ذوالحجہ ہے) سن ٢٣ھ بدھ کے دن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حسبِ معمول نمازِ فجر کے لیے مسجد میں تشریف لائے اور نماز شروع کروائی ابھی تکبیرِ تحریمہ ہی کی تھی کہ ایک شخص ابو لئولوہ فیروز مجوسی نامی شخص مسجد کے محراب میں چھپا ہوا تھا اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شکم میں زہر آلود خنجر کے تین وار کیے جس سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافی گہرے زخم آئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمن بن عوف کے سپرد کیا اور خود اشاروں سے نماز مکمل کی کہ کہیں امامت و خلافت میں حرف نہ آ جائے۔ نماز کے بعد پہلا سوال تھا کہ میرا قاتل کون ہے؟ صحابہ اکرام نے عرض کی یا امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک کافر ہے۔
آپ نے بلند آواز میں کہا الحمد للہ۔ گویا آپ کو معلوم ہو گیا کہ آپ کی شہادت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ حکیم بلایا گیا، اس نے دوا دی مگر وہ زخموں کے راستے باہر آ گئی۔ آپ کو یقین ہو گیا کہ میر ی شہادت کی خواہش ضرور پوری ہو گی۔چنانچہ اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جائو میرا سلام کہنا اور درخواست پیش کرنا کہ عمر خادم اسلام کی حیثیت سے مصطفی ۖ کے پہلو میں جگہ چاہتے ہیں، جو آپ نے اپنے لیے رکھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس چلے گئے اور آپ کی درخواست پیش کی۔ اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا کہ یہ جگہ بہت قیمتی ہے کوئی اور ہوتا تو میں انکار کر دیتی ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیسے انکار کروں جس نے مشکل کے وقت میرا ساتھ دیا تھا جب سبھی میرا ساتھ چھوڑ گئے تھے اُس عظیم انسان نے میرا ساتھ دیا، ان کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گھونجتے ہیں۔ جب آپ نے برملا اعلان فرمایا تھا۔ ”سبحنک ھذا بھتان عظیم”۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس آئے توآپ نے فرمایا مجھے اٹھا کر بٹھائو اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جواب لیٹ کر سننا بے ادبی و گستاخی سمجھتا ہوں۔ آپ کے بیٹے نے خوشخبری سنائی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے ، سجدہ شکر ادا کیا اور حاضرین محفل کو ایک بار پھر وصیت کی کہ جب ”جب میرا انتقال ہو جائے، میرے کان سننا بند کر دیں، میری زبان بولنا چھوڑ دیں، میرے کان سننا بند کر دیں، میری زبان بولنا چھوڑ دے، میرے پائوں چلنا چھوڑ دیں، میرے ہاتھ میرا ساتھ چھوڑ دیں، میرا جسم کفن میں لپٹا دیا جائے، میری میت اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حجرے کے دروازے پہ جا کر رکھ دی جائے، میرے چہرے سے کفن ہٹا دیا جائے اور ایک مرتبہ پھر اماں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روضہ عقدس میں تدفین کی اجازت طلب کی جائے ۔ اگر وہ اس امر کی اجازت دیں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے جنت البقیع میں دفن کر دیا جائے، اس لیے کہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ عمر نے زبردستی یا طاقت کے ذریعے یہ جگہ حاصل کر لی۔ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ آپ ہفتے کے دن یکم محرم الحرام کو جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ بوقتِ وفات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر تریسٹھ برس تھی۔ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اماں عاعشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اجازت سے روضہ مبارکہ کے اندر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلوئے انور میں مدفون ہوئے۔
امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انصاف کی حالت یہ تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز کے علاقے میں ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور لوگو سے چلا کر مخاطب ہوا، اے لوگو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتقال فرما گئے۔ لوگ بہت حیران ہوئے اور پوچھا تم مدینہ سے اتنی دور جنگل میں ہو تمہیں کسی نے اطلاع دی ہے؟ تو اس نے بتایا نہیں ،لوگوں نے پوچھا تو پھر تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا جب عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھی، کوئی جانور ان کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا، آج میر ی بھیڑ کے بچے کو بھڑیا اٹھا کر لے گیا ہے میں نے بھیڑیے کی جرات سے جان لیا کہ آج دنیا میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود نہیںہیں۔ چنانچہ لوگوں نے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اسی روز امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی تھی۔