تحریر : پیر محمد افضل قادری صحیح بخاری، صحیح مسلم، اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے حدیث نبی ہے، رسول اللہ نے فرمایا: ”اگر دین ثریا کے پاس ہو گا تو بیشک فارس کا ایک شخص اسے وہاں سے بھی حاصل کرلے گا۔” محدث کبیر امام احمد ابن حجر مکی شافعی رحمة اللہ علیہ نے ”الخیرات الحسان” میں خاتمة المحدثین علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے ”تبییض الصحیفہ” میں سند المحدثین حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے ”کلمات طیبات” میں اور دیگر بہت سے اکابرین اسلام نے اپنی کتب میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ اس حدیث مبارک میں جس آسمان علم ہستی کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی گئی ہے وہ ہستی امام الائمہ سراج الامہ امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ جبکہ اہلحدیثوں کے مسلّم بزرگ نواب صدیق حسن بھوپالی نے بھی ”اتحاف النبلائ” میں امام اعظم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا مصداق قرار دیا ہے اور اپنی کتاب ”الحطہ فی ذکر الصحاح الستہ” میں آپ کو ”الامام الاعظم” کے لقب سے ملقب کرکے آپ کی عظمت وبزرگی کا اعتراف کیاہے۔
امام الائمہ، سراج الامہ، امام اعظم، سیدنا امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی سیرت یوں ہے کہ آپ 80ھ میں کوفہ شہر میں پیدا ہوئے۔ امام اعظم کے پوتے فقیہ اسمٰعیل رحمة اللہ علیہ کے بیان کے مطابق آپ کا نام نعمان آپ کے والد کا نام ثابت دادا کا فارسی نام زوطی اور اسلامی نام نعمان اور پردادا کا نام مرزبان ہے۔ امام اعظم کے آبائو اجداد فارسی النسل تھے۔ امام اعظم کے دادا زوطی کابل میں رہائش پذیر تھے۔ کابل اس وقت ملک فارس کا حصہ تھا خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے عہد خلافت میں مسلمان ہوئے اور آپ سے بے پناہ محبت وعقیدت کی بنا پر کابل چھوڑ کر کوفہ میں سکونت اختیار کی۔ کوفہ میں حضرت زوطی رحمة اللہ علیہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ثابت رکھا اور برکت کی دعا لینے کی غرض سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔
امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ثابت کیلئے دعا برکت فرمائی جس کا اَثر یہ ہوا کہ ثابت رحمة اللہ علیہ جوان ہوئے شادی کی تو ان کے ہاں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جو اپنے وقت کے مسلمانوں کے بڑے بڑے مذہبی پیشوائوں کے بھی امام وپیشوا ہوئے اور قرآن وحدیث کے وہ راز نکال کر امت کے سامنے رکھ دیئے جن کو دیکھ کر بڑے بڑے مجتہد امام بھی عش عش کر اُٹھے اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی وہ پیشن گوئی بھی پوری ہو گئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ ”اگر دین ثریا کے پاس ہو گا تو بیشک فارس کا ایک شخص اسے وہاں سے بھی حاصل کر لیگا۔”
Imam Abu Hanifa
امام ابوحنیفہ نے جونہی اس جہان رنگ وبو میں آنکھ کھولی تو اپنے آپکو اسلامی علوم وفنون کے بہت بڑے مرکز کوفہ شہر میں پایا، جہاں باب مدینة العلم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما ودیگر بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام کے علوم کے حامل شاگردوں کے علوم ومعارف کے سمندر ٹھاٹھیں مار رہے تھے۔ مشہور مؤرخ ابن خلکان کی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ نے علماء تابعین کے علاوہ چار اصحاب رسول حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ بن ابی اوفی، حضرت سہل بن سعد ساعدی، اورحضرت ابوطفیل بن واصلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو پایا لیکن امام علائوالدین الحصکفی کی روایت کے مطابق آپ نے بیس صحابہ کرام کو پایا اور سات یا آٹھ سے درس حدیث بھی لیا۔ شارح مشکوٰة علامہ علی قاری رحمة اللہ علیہ نے مرقاة شرح مشکوٰة میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آئمہ اربعہ میں سے صرف امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ تابعی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے ملاقات اور شاگردی کا شرف عطا فرمایا۔ اس سے فقہ حنفی کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ دیگر آئمہ نے صرف دلائل شرعیہ سے اِستفادہ کیا لیکن امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے دلائل شرعیہ کے علاوہ شاگردان رسول صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی عملی زندگی سے بھی اِستفادہ کیا۔
امام ابوحنیفہ نے کوفہ بصرہ کے علاوہ حرمین شریفین مصر وشام اور یمن کے بڑے بڑے علماء سے بھی اِستفادہ کیا۔ شیخ شہاب الدین احمد بن حجرمکی شافعی ”الخیرات الحسان” میں لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے چار ہزار سے زائد شیوخ سے درس حاصل کیا۔ اس سلسلہ میں آپ نے دو سال تک سند الاتقیاء حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اِستفادہ کیا اور سب سے زیادہ حضرت امام حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تعلیم حاصل کی۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ میں امام حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اٹھارہ سال درس لیتا رہا۔ آپ نے ایک لاکھ سے زائد شاگرد چھوڑے جن میں سے چار ہزار مجتہد تھے۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے خود امام ابو حنیفہ سے اِستفادہ کیا، جبکہ امام شافعی، امام احمد، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابودائود، امام ابن ماجہ اور امام نسائی یہ سب اصحاب علم وفضل امام ابوحنیفہ کے شاگردوں یا شاگردوں کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ کتاب الآثارامام ابوحنیفہ کی حدیث کی تمام مروجہ کتب سے پہلے کی تحریر کردہ کتاب ہے، جسے امام اعظم سے آپکے تیرہ شاگردوں نے روایت کیا اور امام اعظم نے چالیس ہزار احادیث میں سے کتاب الاثار کا انتخاب کیا۔ اسکے علاوہ جلیل الشان محدثین نے آپکی روایات پر مشتمل سترہ مسانید مرتب کی ہیں۔ جن میں سے پندرہ مسانید محدث وفقیہ امام محمد بن محمود الخوارزمی نے ”الجامع المسانید لامام الاعظم” کے نام سے شائع کی اور یہ کتاب دو ضخیم جلدوں میں چھپ چکی ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ نے سب سے پہلے اجتہاد کے اُصول وقوانین وضع کئے اور کتاب وسنت سے لاکھوں مسائل استنباط کر کے انہیں مدون ومرتب کیا اور علم شریعت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا۔ امام ابن حجر مکی شافعی ”الخیرات الحسان” صفحہ نمبر 28 پر آپکی اس فضیلت کا اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ترجمہ: ”امام ابوحنیفہ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم فقہ کو مدون کیا اور اسے ابواب اور کتب کی موجودہ ترتیب پر مرتب کیا اور امام مالک نے اپنی کتاب مؤطا مالک میں آپ ہی کی پیروی کی وگرنہ آپ (امام ابوحنیفہ) سے پہلے لوگ (صحابہ وتابعین) اپنے حافظے پر اعتماد کرتے تھے۔” امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جو شخص فقہ (مسائل عملیہ)کو جاننا چاہے تو وہ امام ابو حنیفہ اور انکے شاگردوں کو لازم پکڑے کیونکہ سب کے سب لوگ فقہ میں ان کے محتاج ہیں۔”
ALLAH
امام سفیان ثوری نے محمد بن بشر سے پوچھا: آپ اس وقت کہاں سے آئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا امام ابوحنیفہ کے پاس سے۔ تو امام ثوری نے فرمایا: ” آپ ایسے شخص کے پاس سے آئے ہیں جو روئے زمین پر سب سے بڑا فقیہ ہے۔” حضرت سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میری آنکھ نے امام ابوحنیفہ کی مثل نہیں دیکھا۔” امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمة اللہ علیہ کے استاد امام مکی بن ابراہیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”امام ابوحنیفہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے۔” امام شافعی رحمة اللہ علیہ کے استاد امام وکیع رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”میں نے امام ابوحنیفہ سے زیادہ فقیہ کسی کو نہیں پایا۔” امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کے شیوخ میں سے شیخ الاسلام یزید بن ہارون رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”میں نے آپ کے معاصر علماء میں سے جسے بھی پایا اسے یہی کہتے سنا کہ اس نے امام ابوحنیفہ سے بڑا کوئی فقیہ نہیں دیکھا۔” امام المحدثین یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں: ”اللہ کی قسم امام ابوحنیفہ اس امت میں خدا اور اس کے رسول کی طرف سے جو کچھ وارد ہوا اسکے سب سے بڑے عالم ہیں۔” حافظ محمد دین یوسف دمشقی اپنی تصنیف ”عقود الجمان” میںفرماتے ہیں: ”حضرت امام ابوحنیفہ حدیث کے اکابر اور افضل حفاظ میں سے تھے۔”
امام عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اگر میں امام ابوحنیفہ کا شاگرد نہ بنتا تو عام لوگوں کی طرح جاہل رہتا۔ امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”تمام تعریف اس اللہ کیلئے جس نے امام محمد بن حسن شیبانی علیہ الرحمہ (امام اعظم کے شاگرد) کے ذریعے میری علم فقہ کے حصول کیلئے مدد فرمائی۔” علم وفقہ کے ساتھ امام اعظم ابوحنیفہ کا عبادت وریاضت اور زہد وتقویٰ میں مقام نہایت بلند تھا۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے 45 برس عشاء کے وضو سے نماز فجر ادا فرمائی اور پچپن حج کئے۔” قاضی بغداد حضرت حسین بن عمارہ رحمة اللہ علیہ جب امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کو غسل دے رہے تھے تو فرمایا: ””اللہ تعالیٰ آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ آپ تیس سال سے روزہ دار ہیں اور چالیس سال سے شب بیدار ہیں۔” شارح مشکوٰة ملا علی القاری فرماتے ہیں: ” امام اعظم امام ابوحنیفہ روزانہ رات کو دو رکعت میں مکمل قرآن کی تلاوت فرماتے تھے۔ اور فرماتے ہیں امام اعظم ابوحنیفہ کو سوبار خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا۔ آپ روزانہ رات کو پورے قرآن کی تلاوت فرماتے لیکن رمضان المبارک میں اکسٹھ قرآن تلاوت فرماتے۔ ایک دن کو ایک رات کو اور ایک نماز تراویح میں۔ آپ اس قدر متقی پرہیزگار تھے کہ ایک دفعہ کوفہ میں کسی کی بکری گم ہو گئی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بکری کی عمر سات برس ہوتی ہے تو امام اعظم امام ابوحنیفہ نے سات برس تک کوفہ کے بازار سے گوشت خریدنا چھوڑ دیا۔”
ایک بار آپ کے شاگرد نے تیس ہزار کا کپڑا فروخت کیا اور خریدار کو ایک تھان میں عیب بتانا بھول گئے تو امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے خریدار کو تلاش کرنے کا حکم دیا جب تلاش بسیار کے باوجود خریدار نہ ملا تو آپ نے ساری رقم خیرات کر دی۔ ایک مرتبہ جنازہ کے لئے تشریف لائے نمازِجنازہ میں تاخیر تھی تو دھوپ میں انتظار کرتے رہے لوگوں نے آپ کو ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھنے کیلئے کہا تو آپنے انکار فرمایا بعد میں پتہ چلا کہ اس مکان کا مالک امام اعظم کا مقروض تھا اور امام اعظم اپنے مقروض کی دیوار کے سایہ سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتے تھے۔ آپ کامیاب تاجر تھے اور بے پناہ صدقہ وخیرات کرتے تھے اور خصوصی طور پر اہل علم کی خواہش پوری کرنے پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ جب بھی اپنے لئے لباس تیار کرواتے تو ایسا ہی لباس کسی ایک عالم دین کے لئے تیار کرواتے اور جب بھی اپنے گھر کیلئے کھانے کا سامان خریدتے تو اس کی مثل صدقہ کرتے اور جب بھی آپ کھانا کھاتے تو کھانے کی مقدار کی دومثل صدقہ فرماتے تھے۔
Islam
بنو امیہ کی حکومت کے آخری دور میں امام اعظم امام ابوحنیفہ کو قاضی القضاة کا عہدہ پیش کیا گیا جسے قبول کرنے سے آپ نے انکار کر دیا۔ جس پر گورنر کوفہ آپ کو دس روز دس دس کوڑے روزانہ مرواتا رہا لیکن آپ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ ابو جعفر منصور نے دوبارہ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کو قاضی القضاة کا عہدہ پیش کیا جسے آپ نے قبول نہ کیا کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ حکومت اپنی مرضی کے مطابق غلط فیصلے کرنے پر مجبور کرے گی جس پر حاکم بغداد سخت برہم ہوا اور امام اعظم کو عمرقید کی سزا دے دی اور جیل میں محبوس کر دیا مگر امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیل میں بھی عبادت وریاضت اور علوم دینیہ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ نے جیل میں سات ہزار بار قرآن پاک کی تلاوت فرمائی۔ اور امام شافعی کے سوتیلے باپ اور استاد حضرت امام محمد بن حسن شیبانی کو جیل ہی میں تفسیروحدیث اور فقہ کی مکمل تعلیم دی۔ مگر ظالم حکومت یہ بھی برداشت نہ کر سکی بالآخر آپ کو سخت قسم کا زہر پلا دیا گیا جس کے نتیجے میں علم وفضل کا یہ آفتاب رجب المرجب 150ھ کو بغداد کی جیل میں غروب ہو گیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
حدیث نبوی ہے: ”دنیا کی زینت 150ھ میں اُٹھالی جائیگی” امام احمد بن حجرمکی شافعی رحمة اللہ علیہ الخیرات الحسان میں فرماتے ہیں اس حدیث مبارک میں امام اعظم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی طرف اشارہ ہے کیونکہ آپ اپنے علم وفضل اور پاکیزہ سیرت کی وجہ سے دنیا کی زینت تھے۔ آپ کی نمازِجنازہ میں لاکھوں خواص وعوام نے شرکت کی اور آپ کو بغداد شہر کے خیزران نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ حضرت علامہ علی قاری رحمة اللہ علیہ مرقاة شرح مشکوٰة میں فرماتے ہیں: ” آپکی قبر بغداد شریف میں ہے۔ جسکی زیارت کی جاتی ہے اور جس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔” امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر دعاء کی قبولیت کیلئے تریاق کی حیثیت رکھتی ہے۔” نیز فرماتے ہیں:”میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر کے ذریعے برکت حاصل کرتا ہوں اور جب مجھے کوئی حاجت درپیش آتی ہے تو میں آپ کی قبر کے پاس دو رکعتیں پڑھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت کیلئے سوال کرتا ہوں تو بہت جلد میری حاجت پوری ہو جاتی ہے”
جبکہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمة اللہ علیہ نے ”کشف المحجوب” میں حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمال درجہ تعریف وتوصیف کرتے کے بعد آپ کے بارے میں مبشرات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ میں ملک شام میں حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس سو رہا تھا کہ خواب میں دیکھا کہ رسول اللہۖ ”باب بنو شیبہ” سے مسجد حرام میں داخل ہوئے اور آپکی گود میں ایک بوڑھا شخص ہے، میں تعظیماً کھڑا ہو گیا اور قدم بوسی کی، فرماتے ہیں میں حیران تھا کہ بوڑھے شخص کون ہیں تو رسول اللہۖ نے میرے دل کی حیرانی معلوم فرمائی اور فرمایا: ”یہ تیرا اور تیرے اہل وطن کا امام ابوحنیفہ ہے۔”