واقعہ کربلا کو آج تقریباً 1400 برس بیت چکے ہیں لیکن یہ المناک و دل فگار سانحہ مسلم اُمہ کے دلوں سے محو نہیں ہو پایا،حضرت امام حسین نے کرب و بلا کے ریگستانوں میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ اسلام کی سربلندی اور بقاء کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ،وہ ملت اسلامیہ کی تاریخ کا ایک بے مثال واقعہ ہے ،آپ نبی کریم ۖ کے نواسے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے لختِ جگر تھے۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت مبارکہ 5 شعبان 04ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔نبی کریم ۖ نے آپ کے کان میں اذان دی ، منہ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپ کے لئے دعا فرمائی پھر ساتویں دن آپ کا نام ”حسین” رکھا اور عقیقہ کیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب سبط ِرسول تھا۔
مسلم اُمہ کی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ واقعہ اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہواہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک ایسا سانحہ ہے کہ جس میں نواسہ ء رسول ۖ اور ان کے خانوادوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو یاد کرکے اس قدر آنسو بہائے گئے اور بہائے جاتے رہیں گے کہ جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں مل سکتی ۔اللہ تعالیٰ نے واقعہ کربلا کو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بنا دیا تاکہ انسان اور خصوصا ایمان والے اس سے عبرت حاصل کرتے رہیں۔
احادیث مبارکہ میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ۖ نے فرمایا ”حسین مِنِی و انا مِن الحسین”۔۔ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۔یعنی حسین رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ر ۖ سے اورنبی کریم ۖ کو حسین رضی اللہ عنہ سے انتہائی قرب ہے۔ گویا کہ دونوں ایک ہیں ۔ حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر حضور ۖ کا ذکر ہے ۔ حسین رضی اللہ عنہ سے دوستی حضور سے دوستی ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ سے دشمنی حضور ۖ سے دشمنی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ سے لڑائی کرنا نبی کریم ۖ سے لڑائی کرنا ہے۔ سرورِ کائنات حضرت محمد ۖ ارشاد فرماتے ہیں ا حب اللہ من ا حب حسینا جس نے حسین سے محبت کی اس نے اللہ تعالی سے محبت کی (مشکوةٰ شریف ،صفحہ (571 ۔اس لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور ۖ سے محبت کرنا ہے اور حضور ۖ سے محبت کرنا اللہ تعالی سے محبت کرنا ہے۔(مرقا شرح مشکوةٰ صفحہ (605
سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کا ذکر ہی زبان زد عام رہا۔ حضرت علی ، حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر صحابہ ِ کبار و اہلِ بیت کے جان نثار رضی اللہ عنہما سبھی لوگ آپ کے زمانہِ شیر خوارگی میں ہی اس المیے سے آگاہ ہو گئے تھے کہ یہ جگر گوشہ بتول ظالموں کے ہاتھوں شہید ہوں گے اور ان کا خون کرب وبلا کی سرزمین پر بہایا جائے گا۔ اس سانحہ کے بارے میں بعض احادیث کریمہ سے ثابت ہے جو آپ کی شہادت کے حوالے سے بیان کی گئی ہیں ۔ایک روایت میںحضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز نبی کریم ۖ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو آپ ۖ کی گود میں دیا، پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور ۖ کی چشم مبارک سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ ! میرے ماں باپ آپۖ پر قربان ہوں، یہ کیا حال ہے ؟ فرمایا میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی کہ ”میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی۔ حضرت ام الفضل فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہۖ !کیا اس فرزند کو شہید کرے گی۔نبی کریم ۖ نے فرمایا” ہاں پھر حضرت جبرئیل میرے پاس اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹی بھی لائے ”(مشکوةٰ صفحہ 572 ) اور ایک روایت میں ہے کہ حضور ۖ نے فرمایا اے ام سلمہ !جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا ہے۔
سید الشہدا ء حضرت امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ مسلم امہ کیلئے ایک بہت بڑا پیغام ہے جسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے یہ پیغام یوںہے کہ کوئی ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر صداقت پر جما رہے باطل قوتوں سے مرعوب نہ ہو، فسق و فجور والے کاموں سے خود بھی دور رہے اور نہ ایسے لوگوں کے ساتھ پنا تعلق قائم رکھے ۔ اس میں ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی،کبھی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ ان باتوں سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ شبیریت اور حسینیت ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت امتِ مسلمہ کے لئے کئی پہلو سے عملی نمونہ ہے، جس پر انسان عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق سنوار سکتا ہے۔
ماہ محرم الحرام اور خاص طور سے یوم عاشور کا دن مسلم اُمہ کیلئے غم و اندوہ کا دن ہے ، امام عالی مقام اور ان کے خانوادوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ہر آنکھ اشکبار ہے ، پتھر سے پتھر دل بھی اس سانحے پر آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا ، یوم عاشور پر ماتمی جلوسوں ،مجالس عزاء برپا کی جاتی ہیں ، عزاداری کی جاتی ہے ،پورے ملک میں امام عالی مقام کا سوگ منایا جاتا ہے ، ماضی میں انہی جلوسوں میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات ،بچے ،بوڑھے اور جوان شریک ہوتے ہیں ، محبت و اخوت کی ایک ایسی فضا ہوتی تھی کہ جس میں سبھی طبقات مل کر جلوسوں میں شریک ہوتے ،دودھ اور شربت کی سبیلیں لگاتے ، کھانا تقسیم کرتے ، کہیں کوئی تفرقہ محسوس نہ ہوتا تھا ، لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے ملک و اسلام دشمن قوتوں کے پروردہ عناصر نے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے تقرقہ بازی کو پروان چڑھایا ، دہشت گردی کی لہر نے بھی سارے سسٹم کو درہم برہم کر دیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محرم الحرام کے مقدس مہینے میں بھی ہر طرف خوف اور دہشت کے سائے پھیلتے چلے گئے۔
ہمارے مابین اختلافات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کو اپنی سازشوں کو پروان چڑھانے کا موقع دیا ،لیکن ہم لوگ یہود ونصاریٰ کے ناپاک عزائم کی تکمیل میں ان کے حصے دار بن گئے ،اس روش نے ہمارے اندر تفرقہ بازی کو فروغ دیا ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ”یوم عاشور ” سمیت مذہبی حوالے سے نکلنے والے جلوسوں ،مجالس عزا ء و دیگر پروگراموں کے انعقاد میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے ، مذہبی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے ، اسلام نے بھی کسی کے عقیدے یا مسلک پر تنقید کرنے کی کہیں اجازت نہیں دی ، ملک کو امن و آشتی کا گہوارا بنانے کیلئے اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینا ناگزیر ہو چکا ، ہمیں چاہئے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ۖ کی تعلیمات سے مکمل آگاہی حاصل کریں ، حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حقیقی فلسفہ و حقیقت اور مقصد کو سمجھیں ، اپنے بچوں کی اسلام کے زریں اصولوں کی روشنی میں تربیت و رہنمائی پر دھیان دیں ، ”جیو اور جینے دو” کے اصول کو اپنا کر ہم وطن عزیزکو ایک مثالی اسلامی و فلاحی ریاست بنا سکتے ہیں۔