تحریر: سید انور محمود مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھیوں نے7 اپریل سے 9 اپریل 2017 تک نوشہرہ میں جمعیت علمائے اسلام کے صد سالہ یوم تاسیس پر’’تین روزہ عالمی اجتماع’’ کا اہتمام کیا تھا۔اس اجتماع میں شرکت کےلیے ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی، غیر ملکی مہمانوں میں جو خاص مہمان تشریف لائے تھے ان میں سعودی وزیرمذہبی امورشیخ صالح بن عبدالعزیز اور نائب امام خانہ کعبہ الشیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب شامل تھے۔ سعودی عرب سے آنے والے مہمانوں کے بارئے میں بتایا گیا کہ سعودی عرب کے وزیربرائے مذہبی امورکی قیادت میں آنے والا وفدسرکاری طور پرسعودی حکومت کی طرف سے بھیجا گیا تھا جس میں امام کعبہ بھی شامل تھے۔امام کعبہ نے نوشہرہ کے علاوہ اسلام آباد اور لاہور میں مختلف وقت کی نمازوں کی امامت کی جس میں عام پاکستانیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اپنی امامت میں پڑھائی گئی نمازوں میں امام کعبہ نے کہا کہ اللہ نے مسلمانوں کو بہترین امت بنایا اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر فرقہ واریت اور فروعی اختلافات میں پڑنے کی بجائےاللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھیں۔دین میں انتشار پیدا کرنے والے وہی ہیں جنہوں نے فرقہ واریت پیدا کی،مسلمان فرقہ واریت میں نہ پڑیں، فرقہ واریت پھیلانے والے فلاح نہیں پائینگے۔
امام کعبہ نے اپنی امامت میں ہونے والی نمازوں کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں اورخصوصی طور پر پاکستان کی سالمیت کی دعا مانگی۔ انہوں نے دعا کی کہ’’اے اللہ تعالی اسلام اور مسلمانوں کو عظمت عطا فرمااور فلسطین اور شام میں مسلمانوں کی مدد فرما‘‘۔ امام کعبہ نے تین روزہ اجتماع کے آخری روز کی دعا میں مقبوضہ کشمیر کےلیے بھی دعا فرمائی جو شاید کشمیر کمیٹی کے چیرمین مولانا فضل الرحمان کی سیاسی ضرورت تھی۔ تمام پاکستانی امام کعبہ کے مشکور ہیں کہ ان کی امامت میں بہت سے ان لوگوں نے نماز ادا کی جو اپنی غربت کی وجہ سے سعودی عرب جاکر عمرہ یا حج کی سعادت حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، اس لیے ان کےلیے یہ ایک سنہری موقعہ تھا کہ وہ امام کعبہ کے پیچھے نماز ادا کرسکیں۔ اللہ تعالی امام کعبہ کی مانگی ہوئی دعاوں کو قبولیت بخشےاور ان تمام بھائیوں کی دعایں بھی قبول فرمائے جو ان نمازوں میں شریک تھے۔کیا واقعی سعودی وزیر برائے مذہبی اموراورامام کعبہ کے تین روزہ اجتماع میں شرکت کا مقصد صرف اپنے پیچھے نماز پڑھانے اور لوگوں کو دین کی باتیں بتانا تھا یا کچھ اور۔ امام کعبہ کی ایک سیاسی اجتماع میں شرکت کیوں؟ امام کعبہ اور سعودی وزیر برائے مذہبی امورکا پاکستان آنے کا اصل مقصد سیاسی بھی تھا اور سفارت کاری بھی تھا، صرف نمازیں پڑھانا نہیں ۔ سیاسی مقصد انہوں نے عوام کے سامنے بیان کیا اور سفارتی مقصد کےلیے وزیر اعظم پاکستان کے علاوہ پاکستان کے بااختیار لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔
تین روزہ اجتماع کے پہلے دن سعودی وزیر مذہبی امورشیخ صالح بن عبدالعزیزنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان اور سعودی عرب کی مثال دو بھائیوں اور ایک جسم جیسی ہے جن کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں کیونکہ ہماراروح کا رشتہ ہے جس کی بنیاد کلمہ کی بنیاد پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل دیاگیا جس میں پاکستان اور سعودی عرب دونوں شامل ہیں۔ بقول ان کے اس پلیٹ فارم پر مسلمان ملک یکجا ہوگئے ہیں، دنیا میں دہشت گردی اور فساد کو برداشت نہیں کیا جاسکتا، جو دشمن بھی سامنے آئے گا اسلامی فوجی اتحاد اس کا مقابلہ کریگا۔امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم آل طالب کا کہنا تھا کہ دین اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے اور اس کا کسی دہشتگردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،دہشت گردی کا سبب اسلام کی غلط تشریح ہے، پاکستان عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے، امت کو متحد ہوکر مقدس مقامات کی حفاظت کرنا ہوگی، دہشت گردی ملک کی معیشت کو تباہ کرتی ہے، تمام علماء دہشت گردی کیخلاف کھڑے ہیں۔ امام کعبہ نے مزید کہا کہ پاکستان امت مسلمہ کی حفاظت کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امام کعبہ نے یہ بھی کہا کہ جنرل راحیل شریف دہشتگردی کی صورتحال کو سمجھتے ہیں اس لئے ان کا کردار اہم ہے اور وہ مسلم دنیا میں امن لائیں گے،فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی جگہ کام کرسکتا ہے اور راحیل شریف کا فوجی اتحاد کا سربراہ بننا پاکستانیوں کیلئے قابل فخر ہے۔
سعودی وزیرمذہبی امورشیخ صالح بن عبدالعزیزاور امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم آل طالب کے بیانات مکمل طور پر سیاسی تھے۔ سیاسی اس طرح ہے کہ عام پاکستانیوں کو اصل بات بتائے بغیرسعودی وزیر نے اس اتحاد کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جس میں ابھی تک بہت سے اہم ممالک جن میں ایران، عراق اور شام بھی ہیں اس فوجی اتحاد میں شامل نہیں ہیں۔ اس تقریر کا مقصدسیدھا سیدھا یہ تھا کہ حکومت پاکستان پر سفارتی دباو ڈال کراسلامی فوجی اتحاد کےلیے پاکستانی فوج کی مدد حاصل کی جائے اور سابق پاکستانی جنرل راحیل شریف کی خدمات حاصل کی جایں، مسلم ممالک کی تعداد 57 ہے جبکہ سعودی عرب کے مطابق اس اتحاد میں اب تک 39 ممالک شامل ہیں۔جنوری 2017 میں بھی ایک سعودی وزیر اور ایک دوسرئے امام خانہ کعبہ تشریف لائے تھے اور اس وقت بھی ان دونوں کی یہ ہی مانگیں تھیں کہ ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کی سربراہی سابق پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کریں اور سعودی عرب جن ملکوں کےخلاف ہے ان کے ساتھ فوجی جنگ میں پاکستانی فوج لڑئے، اس وقت سعودی عرب یمن کے ساتھ روز ہی لڑرہا تھا، لیکن اس وقت نہ تو پاکستان کے عوام اور نہ عسکری ادارئے اس کے حق میں لہذا یہ بات ختم ہوگئی تھی۔
محترم امام کعبہ اورسعودی وزیرمذہبی امور عرض یہ ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا اس وقت دہشتگردی کا شکار ہے، اسلامی ممالک میں دہشتگردی زیادہ ہے اوران اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ متاثر ملک پاکستان ہے جس کے 70 ہزار سے زیادہ لوگ اب تک دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں، مالی طور پر 118ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہمارئے تین پڑوسی ممالک بھارت، افغانستان اور ایران ہم سے ناراض رہتےہیں، بھارت جو ہمارا ازلی دشمن ہے وہ ہم پر دہشتگرد ملک ہونے کا الزام لگاتا ہے جبکہ ہمارئے ملک میں ہونے والی دہشتگردی میں وہ ملوث ہوتا ہے۔ایران ہمارا ایک اچھا پڑوسی دوست ملک تھا مشرق وسطیٰ کے حالات کی وجہ سے آج اس کا جھکاو بھارت کی طرف ہے، جبکہ جنوری میں پاکستانی فوج کے یمن سعودی لڑائی میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کا جھکاو بھی بھارت کی طرف ہوگیا ہے۔مشرق وسطیٰ میں اپنا اپنا اثر و رسوخ رکھنے کے لیے سعودی عرب اور ایران ایک دوسرئے کے خلاف ایک عرصے سے برسر پیکار ہیں، یہ ایک سیاسی لڑائی ہے جبکہ ہمارئے ملک میں اس کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے سعودی قیادت میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد میں ایران، عراق، شام اور دیگر شیعہ مسلک کے حامل ملک شامل نہیں ہیں اور پاکستان کےلیے یہ صورتحال کسی طور مناسب نہیں ، کیونکہ پاکستان کی رائے عامہ بھی انہی عقائد کی بنیاد پرتقسیم ہے۔
گذشتہ مرتبہ جنوری 2017 میں پاکستانی پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتیں بشمول مسلم لیگ (ن) سعودی عرب فوج بھیجے جانے کے خلاف تھیں، خود فوج کے لوگ بھی اس کے خلاف تھے۔ لیکن اب مسلم لیگ(ن) نے اگر اسلامی فوجی اتحاد میں شرکت اور جنرل راحیل شریف کو سربراہی کی اجازت دی ہے تو یہ فیصلہ بہت جلد غیر مقبول ہوجائے گا، جہاں تک حرمین شریفین کی حفاظت کی ذمہ داری کا تعلق ہے یہ دنیا کہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور ہم پاکستانی 1979 میں خانہ کعبہ کے قبضے کے وقت اس ذمہ داری کو ادا کرنے کا ثبوت دئے چکے ہیں اور آیندہ بھی ایسا ہی کرینگے، لیکن بڑی ہی معذرت کے ساتھ دنیاوی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ حرمین شریفین کی حفاظت کی ذمہ داری خود سعودی حکومت کی ہے جو تیل کی آمدنی کےبعد عمرہ اور حج پر آئے ہوئے لاکھوںمسلمانوں سے سالانہ کروڑوں ڈالر کمارہی ہے، اس آمدنی کا اقرار ایک سعودی وزیر بھی کرچکے ہیں۔ اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ میں پاکستان کی شمولیت سے اندیشہ ہے کہ پاکستانیوں میں آپس میں اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں جو ریاست پاکستان کے لیے بہتر نہیں۔