تحریر : سیدہ کنیز زاھرہ ہمارے زمانے میں جو چیز “اسلامی انقلاب” کے نام سے ظہور پذیر ہوئی ہے دوست او ر دشمن ہرایک کے تصورات سے بالا تر تھی مختلف ممالک میں اسلامی تحریکوں کی مسلسل شکست کی وجہ سے مسلمان یہ سوچنے لگے تھے کہ جو وسائل دشمنان اسلام کے اختیار میں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت کی تشکیل عملا ممکن نہیں ہے ۔ دوسری طرف مخالفین اسلام بھی اپنے منصوبوں اور سازشوں کے تہت مطمعن ہو چکے تھے کہ خود مسلمانوں اور اسلامی ملتوں کے درمیان انہوں نے مذہب ، قوم ، نسل اور مسلک کے نام پر جو اختلافات پیدا کر دیئے ہیں ان کی بنیاد پر ان ممالک میں “اسلامی حکومت”نام کی کوئی شے وجود میں لانا اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ خود ایران کے اندر گزشتہ پچاس برسوں میںپہلوی حکومت کے ہاتھوں اسلام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں کی گئیں پہلوی شہنشاہیت نے نہ صرف اپنے دربار میں بلکہ ملک کے تمام حساس مقامات پر اخلاقی اقدار کی پامالی کا بازار گرم کر رکھا تھا، شاہ ایران نے اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن بر پا کر کے جو دراصل مجوسیت کا مظہر تھا اور ہجری تاریخ کا نام شہنشاہی تاریخ میں تبدیل کر کے علامی کفر اور استعار کے تسلط کے لیئے مکمل طور پر زمین ہموار کر دی تھی ایسے ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی یقینا نا قابل تصور اور غیر معمولی چیز تھی۔
بلا شبہ جس ہستی نے اس انقلاب کی قیادت و رہبری کی ملکی و غیرً ملکی تما م تر رکاوٹوں اور مادی وسائل کی کمیوں کے باو جود پوری ملت کو اپنے گرد جمع کر کے نہ صرف اس اسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی یقینا یہ ہستی عالم اسلام کی ایک غیر معمولی اور اشتنائی شخصیت کی حامل ہے ۔ ظاہر ہے اس عظیم ہستی نے مسلمانوں کی آگاہی او بیداری، ان کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور ان کے امراض کی تشخص اور علاج کے سلسلہ میں بے پناہ تکلیفیں اور مشقیں اٹھائی ہیں۔ملا قاتیوں کے سامنے مختلف جلسوں میں بیان فرمائی ہیں ان کا مطالعہ کیا اور شاید ہی کوئی ایسی نشست ہو جس میں آپ نے امت مسلمہ کے اصل مرض اختلاف اور فرقہ بندی کو ختم کرنے اور باہمی وحدت و اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں جو آپ کی نظر میں اس کا بہتریں علاج تھا اور جس کے ذریعہ آپ کو کامیابی ہوئی ہے سخت تاکید و نصیحت سے کام نہ لیا ہو ۔حضرت امام خمینی قم شہر میں علماء کے ایک وفد کے سامنے فرماتے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ اسلامی امتیں اٹھ کھڑی ہوں اور وحدت کلمہ کے ساتھ اسلام اور ایمانی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے غیروں پر اور ان تمام طاقتوں پر جو وملت کو ہمیشہ اپنے اختیار اور تسلط میں رکھنا چاہتی ہیں غلبہ حاعل کریں صدر اسلام میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز یہی وحدت کلمہ اور ایمانی قوت تھی ۔اور اب احساس بھی کرتا ہوں اور لمس بھی کرتا ہوں کہ اگر ملت آپس میں اتحاد پیدا کرے اگر مختلف جماعتیں ایک ہو جائیں تو بڑی طاقتیں بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔
میں امید کرتا ہوں کہ یہ اتحاد “وحدت کلمہ”جو ہماری ملت کے تمام طبقوں کے درمیان باقی رہے اور اسی وحدت کلمہ کے سہارے اسلامی تحریکیں آگے بڑھیں اور اسلامی حکومت عدل قائم کر کے تمام طبقے اپنے حقوق حاصل کر یں ۔خداوند تبارک و تعالی اگر توفیق دے اور ہم اور ہماری ملت اس راز کو ہمیشہ نظر رکھیں تو مجھے امید ہے کہ ہم اس اسلامی حکومت اور اسلامی احکام کو استقرار دے سکتے ہیں لیکن اس کے لیئے وحدت کلمہ کی ضرورت ہے ہماری ملت کو اتحاد و یکجہتی باقی رکھنا چاہیئے وہ ملتیں جو مختلف شہروں اور علاقوں میں ہیں ہماری اس کوشس میں شریک ہوں اور سب کے سب متحد اور ایک آواز ہو کر اسلامی جمہوریہ اور اسلام کے مقدس احکام کی طرف آگے بڑھیں ۔ ہم اسلامی حکومتوں کو اپنا شعار بنائیں ، وحدت کے ساتھ اور لا الہ الا اللہ کے پرچم تلے رہ کر ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں جب تک دنیا کے مسلمان ایران میں رونما ہونے واے اس راز سے آگاہی پیدا نہیں کر تے کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ اسلامی حکومتوں کو باہم ایک حکومت ہونا چاہیئے ۔ یہ سب ایک وسیع معاشرہ کی طرح ہیں ایک پرچم ہے ایک کتاب ہے ایک پیغمبر ہے ان کو ہمیشہ متحد رہنا چاہیئے اور آپس میں تعلقات اور روابط رکھنا چاہیئے اگر یہ آرزو پوری ہو جائے اور اسلامی حکومتوں میں ہمہ جہت وحدت پیدا ہو جائے تو امید ہے وہ اپنی مشکلات پر قابو لیں گی اور دیگر تما م طاقتوں کے مقابل ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آئیں گی ۔یہ وحدت کلمہ محفوظ رہنا چاہیئے کیوں کہ اگر خدانخواستہ یہ وحدت کلمہ ہاتھ سے چلی گئی ا ور ہم شکست سے دو چار ہوئے تو پھر کبھی ایران کے چہرے پر اس کی شاد مانی لوٹ کر نہ آسکے گی ۔بنا بریں ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس تحریک کی حفاظت کریں اور وحدت کلمہ کو محفوظ رکھیں۔ وہ مختصر سے افراد جو آج سازشوں میں مصر وف ہیں انشاء اللہ بہت ہی جلد ہی نا بود جائیں گے۔ وہ اس خیال باطل مین گرفتار ہیں کہ ایک شجاع قوم کے کاخلاف وہ سازش کر سکتے ہین وہ دفن کر دیئے جائیں گے شرط یہ ہے کہ مستضعفین وحدت کلمہ کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔ تمام گروہ آپس میں متحد رہیں ویسے ہی جیسے وہ اب تک باہم متحد رہے ہین اور اس تحری کو وحدت کلمہ کے ساتھ خداوند عالم پر بھروسہ کر تے ہوئے یہاں تک پہنچا یا ہے بڑی بڑی دیواروں کو گرای ہے اب اس کے بعد بھی آپس مین متحد رہیں اور اس کامیابی کے راز کی حفاظت کریں ۔ کامیابی کی کلید اپنے ہاتھ میں رکھیں ، اگر یہ راز یعنی وحدت کلمہ ، خدائے عظیم پر بھروسہ اور خدائیے عظیم کی طرف توجہ محفوظ رہے اگر مسلمان اس راز کی حفاظت کریں تو کامیابی ان کے ساتھ ہے آخری کامیابی۔ سب کی ایک عمومی ذمہ داری ہے اور وہ کہ ہم سب اپنی تمام تر قوت و طاقت کے ساتھ کوششیں کریں کہ یہ انقلاب محفوظ رہے یہ وحدت کلمہ محفوظ رہے یہ انقلاب کی صورت میں محفوظ رہے۔
Muslims
مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے کو پہچانیں اورخود اپنے آپ کو بھی پہنچانیں اس فکر میں نہ رہین کہ بڑی طاقتیں کیا ہیں ؟ سب کے سب باہم جمع ہوں، باہم اتحادبرقرار رکھیں تا کہ انشاء اللہ کامیاب ہوں اور انشاء اللہ کامیاب ہونگے ۔ مجھے امید ہے کہ یہ انقلاب اور تحریکیں جو مسلمانو ں کے درمیان وجود میں آچکی ہیں ہر جگہ متحد رہیں اور وحدت کلمہ کے ساتھ خداوند تبارک و تعالی پر بھروسہ رکھتے ہوئے جو تمام کامیابیوں کا سر چشمہ ہے آگے بڑھیں اور تمام اسلامی ممالک متْحد ہو کر پرچم اسلام کے زیر سایہ خوشحْالی اور عزت کی زندگی بسر کریں۔ جب انسان وقت نظر سے کام لیتا ہے اور غور و فکر کر تاہے تو یہ بات اس پر روشن ہو جا تی ہے کہ امام ْخمینی کی تما م تر توجہ وحدت و اتحاد پر رہی ہے ۔ عالم اسلام کا اصل مرض یہی ہے جب بھی امام قدس سرہ اتحاد و وحدت پر جو اس کا واقعی علاج ہے اس قدر زور دیتے ہیں اور اس میں بے انتہا زحمتیں برداشت کرتے ہیں اگرچہ ہوتا یہ ہے کہ جب انسان کو اپنی زندگی میںایک کامیابی حاصل ہوتی ہے تو در حقیقت وہ ایک طرح کا آرام و سکون محسوس کرتا ہے لیکن چونکہ حضرت امام خمینی قدس سرہ کا مقصد صرف ایرانی مسلمانوں کی کامیابی تک محدود نہ تھا لہذا اس کامیابی کے با و جود پوری دنیا کے مسلمانوں کو متحدہ کرنے کے سلسلہ میں اپنی مجاہدانہ کو ششیں جاری رکھتے ہیں ۔ ایک جملہ جو آپ نے اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید وہی احساس جو کامیابی سے قبل آپ کے قلب میں پایا جاتا تھا رحلت کے وقت بھی آپ کے قلب میں موجزن تھا اور وہ جملہ یہ ہے کہ اسلام کے لیئے اور مسلمانوں کے لیئے مبار ک وہ دن ہے جب ظالموں کا ہاتھ قلم ہو جائے اور وہ اسلامی ممالک میں خون چوسنے کے قابل نہ رہ جائیں ۔ یعنی آپ نے عیدکو اس دن پر موکو ل کر دیا جب دنیا بھر کے مسلمان حقیقی معنوں میں استقلال و آزادی پیدا کر لیں اور ایسے حالات میں زندگی گزاریں کہ ان کے سروں پر بڑی طاقتوں کا وجود باقی نہ رہے اور واقعی طور پر انہیں استقلال و آزادی نصیب ہو ۔مسلمانوں کی آزادی کے راز یعنی وحدت اور یہ کہ مسلمانوں کو استقلال و آزادی حاصل کر نے کے لیئے آپس متْحدہ رہنا چاہیئے ۔علامہ اقبال نے بھی امام خْمینی قدس سرہ کی مانند حصول اتحاد کی مختلف راہیں بیان کی ہیں ان کا خیال تھا کہ قوت طاقت اور عظمت و شوکت کے بغیر اسلام کا تصور نہیں ہے۔ علامہ اقبال کہتے تھے کہ مسلمان کو قوی اور کامیاب ہونا چاہیئے اس کے اندر کمزوری کا احساس نہیں پیدا ہونا چاہیئے۔امام ْخمینی کے خصوصیات میں سے ایک اہم چیز آپ کا تقدس اور پاکیزہ نفس تھا گویا خود امام طلب ثراہ ابتدائے زندگی اس بات کی طرف متوجہ تھے کہ خداوند عالم نے آپ کو ایک عظیم کام کے لیئے خلق کیا ہے ۔دوران عمر یقنی طور پر ہر انسان کی زندگی میں بہت زیادہ نشیب و فراز پائے جاتے ہیں۔ انبیاء ائمہ علیہ السلام جن کو خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کے لیئے منتخب فرمایا معصوم ہیں اور اس عظمت کیبعد جس کے وہ حاصل رہے ہیں ان کی زندگیاں ہر طرح کی آلودہ گیسوں سے پاک رہی ہے۔
لیکن غیر معمولی معصومین ک یہاں وہ چاہئے کتنی ہی اہم شخصیات کے حامل کیوں نہ ہوں یہ بات کہ کسی طرح کوئی کمزور پہلوان کے یہاں موجود نہ ہو بہت مشکل ہے لیکن امام خمینی کی پاکیزگی اس منزل پر نظر آتی ہے کہ حتی کہ آپ کے سخت ترین دشمن بھی آپ کے یہاں کوئی معمول سا ضعیف پہلو پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں جس وقت پہلوی حکومت نے آپ کے خلاف افوہ پھیلانا چاہی کہ اس طرح آپ کی شْخصیت کو کسی طرح سے مجروح کیا جا سکے تو سب سے بڑی بات جو وہ کہ سکے یہ تھی کہ آپ ہند الاصل اور ہندوستان سے ایران آئے ہیں بالغرض اگر یہ بات ثابت بھی ہو جائیے تو اس میں عیب کی کوئی بات نہیں ہے ایک انسان اپنی پوری زندگی ہر طرح کی آلودگی اور لغزش سے محفوظ رہ کر بسر کردے۔ یقینا کوئی آسان بات نہیں ہے اور یہ وہ خصوصیت ہے جو بہت ہی نادر طور پر دنیا کی گنی چنی شخصیتوں میں ملتی ہے۔ امام خمینی کی دوسری خصوصیات ان کی روحانیت تھی وہ ریاضت و مجاہدت وہ توجہ اور دل سوزی وہ خاص روحانی کیفیات جن کے آپ کے حامل تھے ہر دیکھنے والے بلکہ جو بھی آپکے درس میں حاضر ہوتا تھا اس کو اپنی طرف جذب کر لیتے تھے ۔ یہی روحانیت مسلمانوں ملتوں اورع اسلامی شخصیتوں کے قلوب تسخیر کر لینے کا سبب بنتی تھی۔ امام خمینی ایک اور خصوصیت انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر جانا اور عوام کا آپ کی بے دریغ حمایت کرنا تھی ۔ یقنین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبران خدا آئمہ معصومین اور صدر السالم کی عظیم شخصیتوں کے بعد قلوب میں گھر کر جانے کی یہ کیفیت کسی عالم اور روحانی شخصیت میں نظر نہیں آتی وہ شخص جس کا ایک بیٹا یا دو ، تین بیٹے شہید ہو چکے ہوں جس وقت اس سے انٹر ویو لیا جاتا تو کہتا نظر آتا ہے ہمارے بچے اسلام اور امام خمینی پر قربان ہوئے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ امام خمینی سلامت رہیں اور یہ کہ ایک جماعت حاضر ہو اور اپنے قلوب ہدیہ کرے تاکہ امام خمینی زندہ رہیں ۔ لوگوں کے درمیان یہ مقبولیت ممکن ہے اس کے نمونے دوسری جگہوں پر بھی مل جائیں لیکن وہ عاشقانہ کیفیت اور والہانہ جوش وخروش جس سے سر شار ملت امام خمینی کا وطن واپسی پر استقبال کرتی ہے اور وہ حالت کہ جس وقت آپ خطاب فرماتے تھے سب کے سب مشتاقانہ انداز میں گوش بر آواز رہتے تھے یا وہ کیفیت جو آپ کی تشیع جنازہ کے وقت دیکھنے کو ملی عوام کے درمیان آپ کو غیر معمولی مقبولیت اور ان کے قلوب میں بے مثال اور غیر معمولی نفوذ نشان دہی کرتی ہے ۔ حضرت اما م خمینی کی ایک اور خصوصیت جو آپ کی کامیابی میں بہت زیادہ موئثر ثابت ہوئی آپ کا مرجع تقلید ہونا تھا یہ امر سبب بنا کر جو افراد داخلی طور پر انقلاب کر کرتا دھرتا تھے آپ کے افکار قبول کرنے پر دل و جان سے آمادہ ہوئے اوروہ خود کو اس بات کا ذمہ دار سمجھتے تھے کہ ان کی تبلیغ و ترویج کریں اور زندگی کے آخری لمحات تک ان کا دفاع کریں۔
ایک اور امتیاز جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے امام خمینی کے ترقی یافتہ اور انوکھے افکار تھے ۔ آپ کے نظریات کچھ ایسے تھے کہ تما پڑھے لکھے افراد ، طلبہ اور اساتذہ ، ملازم اور مزدور،کسان اور تاجر حتی کی ان پڑھ افراد بھی اپنے تما م کے تما م تقاضے اما م خمینی کے افکار میں مشاہدہ کرتے تھے ۔ اسلام کی بلند افکار جن کو امام خمینی نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا لوگوں کے اندر بیداری و آگاہی اور بھولے سبق دوبارہ یاد آنے کا سبب بنے اور ملت ایران اس انقلاب کے گرد جمع ہو گئی حضرت امام خمینی کے دیگر خصوصیات میں سے ایک اور طریقہ کار بھی تھا جو دراصل وہی انبیاء علھم السلام کا اندازو شیوہ تھا یعنی اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلیئے آپ نے کوئی ْحزب اور جماعت تشکیل نہین دی کہ کچھ مخصوص افراد تحریک کے اصل محور اور اراکین کے طور پر سامنے آجائیں اور پھر کامیابی کے بعد حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں اور دوسرے ان کے مطیع و فرمان بردار بن جائیں ۔ بہت سے اسلامی ممالک میں وہ جماعتین جو اسلام کے نام پر کام کام کر رہی ہیں عموما انہیں قابل ذکر کامیابی نہیں مل سکی ہے اور اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ خود یہ گروہ تحریک کے تیئیں عوامی ہم فکری راہ میں مانع ہوتے ہیں ۔ امام خمینی قدس سرہ نے انبیاء علیھم السلام کی سیدھی سادی سیرت کا انتخاب کیا اور ایل عالم دین کے عنوان سے لوگوں کو اسلامی مسائل سے آشنا و باخبر کر دیا اور خود کو ہر طرح پارٹی و جماعت کی تشکیل سے دور رکھا امام خمینی کا یہ سادہ اور صاف ستھرا بر تائو اس انقلاب کی کامیابی میں بہت موثر اور قابل توجہ کردار ادا کیا ان میںسے ایک امام کی یہ خصوصیت بھی تھی کہ آپ نے عالی دماغ مفکرین اور علماء پر مشتمل اپنے شاگردوں کے ایک وسیع گروہ کی بڑی ہی اعلی سطح پر تربیت کی تھی جنہوں نے دقیق طور پر امام کی باتوں کو سمجھا اور آپ کی زندگی کے دوران آپ کے قوی و مستحکم بازو بنے رہے۔