تحریر: منظور فریدی محرم الحرام ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے اور ذالحجہ آخری ذالحجہ میں جد الانبیاء جناب ابراہیم علیہ السلام نے حکم ربی کی تعمیل میں جب اپنے فرزند جناب اسمعٰیل علیہ السلام کو ذبح فرمایا تو اللہ نے اپنی قدرت کمال سے جناب ابراہیم کی نظروں کو دکھائے بغیر جناب اسمعٰیل علیہ السلام کو ہٹا کر انکی جگہ ایک مینڈھے کی گردن پر چھری چلوا دی اور ساتھ ہی ارشاد ہوا کہ بدل دیا ہم نے اس قربانی کو ایک بڑی قربانی کے ساتھ اب وہ مینڈھا خواہ جنت سے آیا ہو ایک نبی سے بڑا تو نہیں ہوسکتا وہ بڑی قربانی جناب امام حسین نے میدان کربلا میں اپنے پورے خانوادہ سمیت اہل باطل سے لڑ کر جان قربان کرکے ادا کی
سیدنا امام حسین جو حسب نسب میں جگر گوشہ رسولۖ جناب فاطمہ اور نائب رسول جناب علی کے فرزند ہیں انہیں یہ خاص فضیلت حاصل ہوئی کہ جب صاحبزادہ رسول عربی فرزند رسول خدا جناب ابراہیم ایک طرف اور امام حسین ڈوسری طرف محمد کریمۖ کی گود میں کھیل رہے تھے تو اللہ نے حکم دیا کہ اے میرے محبوب ان دونوں صاحبزادوں میں سے ایک کا انتخاب کرلیں تو رسول خدا نے جناب حسین کو پسند فرمایا جناب ابراہیم کا وصال ہوگیا تو اللہ نے ہی سوال کیا کہ جب تیرے رب نے تجھے اختیار دیا تو تم نے اپنے بیٹے کو رکھنے کے بجائے نواسہ کو رکھا تو رسول خدا نے فرمایا کہ اے عرش اعظم کے مکین حسین کے وصال سے فاطمہ غمگین ہوجاتی اور اسکی آنکھوں کے آنسو تیرے محبوب سے دیکھے نہیں جاتے یہ عالم ہے رسول کریمۖ کی حسین سے محبت کا کبھی کندھوں پر سواری تو کبھی حالت نماز میں سجدوں کو طول دے دینا۔
Imam Hussain
مگر حسین کو تکلیف نہ ہونے دینا جمعہ کے خطبہ کو نامکمل چھوڑ کر حسین کو اٹھا لینا یہ سب شرف صرف اور صرف امام عالی مقام کو ہی ملے تربیت فرمائی تو رسول خدا نے ایسے فرمائی کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی کے صحن پاک میں زکوٰة کی کھجوروں کا بڑا سا ڈھیر پڑا تھا اور جناب حسین عالم بچپن میں تھے ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈالی تو آقا کریم نے حلق میں انگلی ڈال کر نکال دی اور فرمایا کہ یہ مال زکوٰة ہے اور تو میرا بیٹا ہمیں روا نہیں ۔رسول خدا کا تربیت یافتہ حسین جب میدان کرب و بلا میں آیا تو سامنے کوئی غیر مسلم نہیں بلکہ کلمہ گو علماء کا لشکر مقابلہ پر تھا جو کلمہ تو جناب رسول اللہ کا پڑھتے تھے مگر ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی تھیں مظالم بیان کرنا شروع کردیے جائیں تو کئی صفحات الگ درکار ہونگے اس مختصر مضمون میں گنجائش نہیں بہ ہر حال اس معرکہ میں امام کے نانا کے امتیوں نے یزید کے لالچ میں اسکے زرخرید نوکر بن کر امام عالی مقام کو بے دردی سے شہید کردیا آج کچھ ضمیر فروش ملاں یزید پلید کو امیر المومنین اور امام حسین کو باغی کہتے ہیں۔
وہ اپنے عقائد کی درستگی کریں کیونکہ قاعدہ کلیہ کے مطابق کوئی بھی شہید باغی نہیں ہوسکتا اور باغی شہید نہیں ہوسکتا اور جسے رسول خدا فرمادیں کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اور میرے حسن و حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں بھلا باغی کا جنت سے کیا واسطہ اور آخر میں نائب رسولۖ عطائے حبیب خدا شیخ ا الاسلام جناب خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے پوچھیں کہ حسین کون ہیں تو جواب یہ ملا کہ شاہ است حسین پادشاہ است حسین دیں است حسین دیں پناہ است حسین سرداد نہ داددست در دست یزید حقا کہ بنائے لاالہ است حسین دس محرم الحرام کو آپ کو میدان کربلا حالت نماز و سجدہ میں شہید کیا گیا اور یوں اللہ نے جناب ابراہیم کی قربانی کو اسطرح پایہ تکمیل تک پہنچایا اسلام کی ابتدا بھی قربانی اور انتہا بھی قربانی اللہ کریم انکے درجات میں رفعتیں عطا فرمائے اور ہمیں انکی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے آمین۔