اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیر خزانہ اسد عمر نے پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان معاملات طے پانے کی تصدیق کر دی۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسد عمر نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ دورہ امریکا میں آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دنیا کے بڑے سرمایہ کاروں سے ملاقات ہوئی، آئی ایم ایف کے ساتھ اصولی اتفاق ہوگیا ہے، آئی ایم ایف کا وفد اپریل کے آخری ہفتے میں پاکستان آئے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے فوراً بعد ورلڈ بینک اور ایشیاتی ترقیاتی بینک سے فنڈ ملیں گے، زرمبادلہ ذخائر پر 2016 سے جاری دباؤ کم ہوجائے گا اور ذخائر بڑھیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ معاشی اصلاحات پر کام ہورہا ہے، آئی ایم ایف پروگرام کے بعد کیپیٹل مارکیٹ کی حالت بہتر ہوگی، معاشی استحکام نظر آئے گا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ دورہ امریکا کے دوران ایف اے ٹی ایف کے صدر سے ملاقات ہوئی، بھارت کے رویے کے بارے میں ان سے خدشات کا اظہار کیا ہے، ایف اے ٹی ایف کے صدر نے یقین دہانی کرائی کہ فیصلے تکنیکی بنیادوں پر ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرائط کا عام آدمی پر اثر نہیں پڑے گا اور اس سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا، آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوگا، معاہدے کے بعد ساڑھے 7 ارب عالمی مالیاتی بینک سےآئیں گے، ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے آنے والی امداد اس کے علاوہ ہوگی جب کہ آئی ایف سی سے بھی فنڈ دستیاب ہوں گے۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوگا، پاکستان جلد ہی بانڈ جاری کرے گا، کیپیٹل مارکیٹ اس وقت مثبت ہے، شرح سود 9 سے کم ہوکر7 فیصد پر آگئی ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آج ایف اے ٹی ایف کو ان کی سفارشات پر عملدرآمد کا مسودہ بھجوادیں گے، مسودے پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے ایف اے ٹی ایف کا وفد مئی کے تیسرے ہفتے پاکستان آئے گا، آئی ایم ایف سے چینی قرضوں پر حالیہ دورے میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
اسد عمر نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں توانائی شعبے کے 600 ارب روپےکو بہرحال کہیں سے پورا کرناہے، حکومت کا بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں، (ن) لیگ کے دور میں پیدا ہونے والی بجلی کی قیمتوں کے نوٹیفکیشن نیپرا کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرکاری کمپنیوں، بجلی کی ترسیل اور پبلک فنانس کے بجٹ میں بہتری معاہدے میں شامل ہے، سی پیک کے حوالے سے تفصیلات آئی ایم ایف کو اکتوبر میں دے چکے ہیں، سی پیک پر کچھ چھپانے کو نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت کےچھوڑے گئے مالی خسارے کے باعث سخت اقدامات اٹھانا پڑرہے ہیں، ملکی معیشت میں بہتری سے متعلق حکومتی اقدامات سے عوام پر بوجھ پڑے گا، مسلم لیگ (ن) نے جن چیزوں کی قیمت نہیں بڑھائی وہ مہنگی کرنا پڑے گی۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان واشنگٹن میں تعمیری مذاکرات ہوئے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی حکام کی درخواست پر آئی ایم ایف کا وفد اپریل کے اواخر سے پہلے پاکستان کا دورہ کرے گا۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان کی مجوزہ اثاثہ جات ڈیکلیئریشن اسکیم سے اختلاف نہیں کیا، پاکستان نے مجوزہ اسکیم کا مسودہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف سے پہلے ہی شیئر کر لیا تھا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے بھی اس اسکیم پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج پر دستخط اپریل میں ہی کرلیے جائیں گے، آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ملنے والا بیل آؤٹ پیکج 3 سال کے لیے ہوگا تاہم پاکستان کو 6 ارب ڈالرز یا 9 ارب ڈالرز کا پیکج دینا ہے اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے جس کے لیے آئی ایم ایف کا وفد اس ماہ کے آخر میں پاکستان کا دورہ کرے گا اور اس دورے کی تاریخ آئندہ ایک دو روز میں طے کی جائے گی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ اثاثہ جات ڈیکلیریشن اسکیم کو آئی ایم ایف کے دورے سے پہلے قانونی شکل دی جائے گی، اثاثہ جات ڈیکلیریشن اسکیم کی حتمی منظوری کل کابینہ سے لی جائے گی، کابینہ سے منظوری پر ایک 2 روز میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسکیم نافذ کردی جائے گی، آرڈیننس جاری ہوتے ہی اثاثہ جات ڈیکلیریشن اسکیم فوری طور پر نافذ ہوگی۔