اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا بیل آؤٹ پیکج معیشت کے لیے ناگریز ہے، آئی ایم ایف سے ملے یا چین سے، بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہے، ہر مہینے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو ارب ڈالر بڑھ رہا ہے، تیل کی بڑھتی قیمتیں درآمدات بڑھنے کا سبب ہیں، ملک میں دو ماہ کی درآمد کے ذخائر بھی نہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے سی پیک کی شفافیت پر بات نہیں کی، ڈالر کی قیمت ایک روپیہ بڑھنے سے 95 ارب کا ملکی قرضہ بڑھا ہے، اس کا ذمہ دار وہی ہے جس نے معیشت کو تباہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ جب تجارتی خسارہ بڑھے گا تو ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو گا، اسدعمر اگر برآمدات نہیں بڑھیں تو ڈالر کی قیمت بڑھتی جائے گی۔
اسدعمر کا کہنا تھا کہ چین پہلے ہی کرپشن کیخلاف اقدامات کر رہا ہے، چین نے کرپٹ وزیروں کو پھانسیاں دیں، وزارت خزانہ میں سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہیے، آئی ایم ایف میں امریکا بڑا سٹیک ہولڈر ہے، لیکن امریکا کے پاس ویٹو کا اختیار نہیں، ایران پر پابندیوں سے آِئل کی قیمیتیں بڑھیں گی جس سے پاکستان کو مزید نقصان ہو گا۔
اسد عمر نے آئی ایف کی شرائط کے حوالے سے فواد چوہدری کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی کڑی شرائط عائد نہیں ہوئیں، اگر آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے والی ہوئیں تو نظر ثانی کر سکتے ہیں، ابھی نہ شرائط ہیں نہ ایسی صورتحال، ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ اسٹیٹ بینک کو کرنا ہے۔
وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت ختم ہوئی تو زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب تھے جو 8 ارب ڈالر تک آ گئے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ن لیگ کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا، اسحاق ڈار کا اس میں قصور نہیں، ہمارے پاس بھی اس وقت آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا، جب حکومت ختم ہو گی تو حالات ماضی سے مختلف ہونگے۔