وزیراعظم عمران خان نے قرض کے حصول کیلئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ،آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات کرنے کی منظوری دیدی۔ انہوں نے اقتصادی ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد بیل آؤٹ پیکیج لینے کے حوالے سے گرین سگنل دیا۔ ایک ویڈیو پیغام میں وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے فوری مذاکرات شروع کیے جا رہے ہیں۔ ملک جس مشکل حالات سے گزر رہا ہے پورے ملک کو ادراک ہے۔ آئی ایم ایف سے ایسا پروگرام لینا چاہتے ہیں جس سے معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے، ایسا پروگرام لانا چاہتے ہیں کہ جس کا کمزور طبقے پر کم سے کم اثر پڑے، معاشی بحالی کے لیے ہمارا ہدف صاحب استطاعت لوگ ہیں۔ ہر جانے والی حکومت نئی حکومت کے لیے معاشی بحران چھوڑ کر گئی، ہر نئی حکومت کے آنے پر معاشی بدحالی کا تسلسل توڑنا چاہتے ہیں اور ہم مستقل بنیادوں پر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں، ابھی مشکلات برداشت کرلیں گے لیکن ملک کو پاؤں پر کھڑا کریں گے۔ ہم نے اس بحران سے نکلنے کے لیے متبادل راستے اختیار کرنے ہیں اور اس مشکل سے نکلنے کے لیے ایک سے زیادہ ذرائع استعمال کریں گے۔ معاشی بحالی کے لیے اقتصادی ماہرین کے ساتھ مشاورت کی ہے اور دوست ملکوں سے بھی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
روزگار کی فراہمی معاشی ترجیحات میں شامل ہے اور معاشی بحران پر قابوپانے کے لئے بنیادی منشور میں تبدیلی نہیں کرنا چاہتے معاشی بحالی آسان چیلنج نہیں ہے لیکن پاکستانی قوم نے ہمیشہ مشکل حالات کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف سے 3 سال کے لیے 7 سے 8 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی بات کی جائے گی۔حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام لینے کا فیصلہ مالی صورتحال پر ماہرین معاشیات سے مشاورت کے بعد کیا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کا پروگرام لے رہی ہے، پاکستان 1990 کے بعد 10 مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام لے چکا ہے۔ ہر حکومت نے گزشتہ حکومتوں کی پالیسیوں سے معیشت کے نقصانات کے باعث آئی ایم ایف سے رجوع کیا۔ اس وقت پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب ڈالر ماہانہ ہے، توانائی کے شعبے کے نقصانات 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ ترامیمی فنانس ایکٹ بھی ان حالات کی وجہ سے لانا پڑا جب کہ سٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ میں اضافہ مائیکرو اکنامک استحکام کے لئے کیا۔ وزارت خزانہ کے اعلامیے کے مطابق حکومت آئی ایم ایف کا پروگرام لے کر بنیادی اصلاحات لائے گی، ان اصلاحات کے بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پاکستان آئی ایم ایف کو 6 سے 7 ارب ڈالرز قرضے کی درخواست کرے گا، پاکستان کی درخواست کے بعد آئی ایم ایف وفد 10 روز میں پاکستان کا دورہ کرے گا ، آئی ایم ایف وفد اپنی شرائط لے کر پاکستان آئے گا، پاکستان کی آئی ایم ایف شرائط پر رضا مندی کے بعد پروگرام کو حتمی شکل دی جائے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل کے لیے 4 سے 6 ہفتوں کا وقت درکار ہوگا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکی معیشتوں اور انکی باہمی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ، بیرونی قرضہ جات پر نظررکھتا ہے اور انکی معاشی فلاح اور مالی خسارے سے نبٹنے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک کا توازن ادائیگی کا خسارہ پیدا ہو گیا تھا۔ ایسے ممالک کی مدد کرنے کے لیے یہ ادارہ وجود میں آیا۔ یہ ادارہ جنگ عظیم دوم کے بعد بریٹن وڈز کے معاہدہ کے تحت بین الاقوامی تجارت اور مالی لین دین کی ثالثی کے لیے دسمبر 1945 میں قائم ہوا۔ اس کا مرکزی دفتر امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن میں ہے۔ اس وقت دنیا کے 185 ممالک اس کے رکن ہیں۔ شمالی کوریا، کیوبا اور کچھ دوسرے چھوٹے ممالک کے علاوہ تمام ممالک اس کے ارکان میں شامل ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر بڑی طاقتوں کا مکمل راج ہے جس کی وجہ اس کے فیصلوں کے لیے ووٹ ڈالنے کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ یہ ادارہ تقریباً تمام ممالک کو قرضہ دیتا ہے جو ان ممالک کے بیرونی قرضہ میں شامل ہوتے ہیں۔ ان قرضوں کے ساتھ غریب ممالک کے اوپر کچھ شرائط بھی لگائی جاتی ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اسے بگاڑتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے بین الاقوامی اداروں کے ڈھانچے کو بدلنے کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا کردار ایک بین الاقوامی پولیس والے جیسا ہے۔
آئی ایم ایف غریب ممالک کو ان شرائط پر قرض دیتا ہے۔سود کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ اس سے غربت بڑھ جاتی ہے۔ٹیکس بڑھایا جائے اور حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے۔ اس سے عوامی سہولیات میں کمی آتی ہے اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کی نجکاری کی جائے۔ اس سے ملکی اثاثے غیر ملکیوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔بین الاقوامی سرمائے کی ملک میں آمد و رفت پر سے تمام پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ اس سے اسٹاک مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔بین الاقوامی بینکوں اور کارپوریشنوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے۔ اس سے ملکی صنعتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔اس کے بعد ان غریب ممالک کو بس اتنی رقم مزید قرض دی جاتی ہے کہ وہ اپنے موجودہ بین الاقوامی قرضوں کا سود ادا کر سکیں۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں ملکی دولت آئی ایم ایف کے پاس چلی جاتی ہے اور یہ سب جمہوریت کی آڑ میں ہوتا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے حکومت کے آئی ایم ایف میں جانے کے فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ اب کرلو خود کشی، پر کیا کیا جائے اس کیلئے بھی شرک اور حیا چاہئے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اچھی معیشت چھوڑ کر گئی تھی، یہ حکومت میں بیٹھ کر اپوزیشن والی بات نہ کریں، آئی ایم ایف جانے کا فیصلہ کیا ہے بتا نہیں سکتا۔ ہمیں برا دکھانے کیلئے غلط اعداد و شمار بتائے جا رہے ہیں۔
سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں نے بھاری نقصان اٹھایا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں روپے کی قدر میں 25 فیصد کمی آئی ہے۔ حکومت آتے ہی گاڑیاں اور بھینسیں نیلام کرنے میں لگی رہی، حکومت نے ایسا کوئی معاملہ نہیں چھوڑا جہاں یوٹرن نہ لیا ہو۔ماہر معاشیات اشفاق حسن نے کہا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاناچاہیے،اسے عالمی مالیاتی ادارے کے بغیر جینا سیکھنا ہوگا۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ کم کرنا ہوگا،غیرضروری چیزوں کی درآمد بند کرنے سے مجموعی طورپر9 سے10 ارب ڈالر بچائے جا سکتے ہیں۔ دنیا سے ادھار لے کر ہم مہنگی گاڑیاں،کھانے پینے کی اشیاء جن میں پانی اور گوشت تک شامل ہے درآمد کرتے ہیں۔ماہر معاشیات نے کرنٹ اکائونٹ خسارے کی فنانسنگ کیلئے فنڈز کا انتظام کو ایک معاملہ قرار دیا اور خسارے کو کم کرنے کے لئے پرتعیش اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کرنا تجویز کیا ہے۔آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے کے لیے ہر صورت اپنی شرائط منواناچاہتا ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ پاکستان میں بجلی ، گیس اور تیل کی قیمتوں میںاتنا اضافہ کر دیاجائے کہ اس کی زراعت اور معیشت تباہ ہو جائے اور توانائی کے شعبہ میں خود کفیل نہ ہو سکے اور بھارت کا دست نگر بنارہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سمیت عالمی مالیاتی اداروں پر صہیونی قابض ہیں جو کسی صورت بھی پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہوتے نہیں دیکھ سکتے اور ہمیں خود انحصاری کی منزل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ حکومت نے اپنے اللے تللوں اور کرپشن کے لیے پاکستان کو عالمی صہیونی اداروں کا مقروض بنا کر ہماری گردنوں میں آئی ایم ایف کی غلامی کا پھندا ڈالا ، لوگوں کو امید تھی کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے پھندے سے نجات حاصل کر کے معاشی آزادی حاصل کرے گی لیکن اس نے برسراقتدار آتے ہیں آئی ایم ایف سے قرضے کی بھیک مانگنا شروع کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے کی قسطیں ادا کرنے کے لیے اسی سے مزید قرض حاصل کیا جارہاہے، اس کے لیے سخت شرائط کی کڑوی گولی بھی آخر اسے نگلنا پڑے گی۔ حکمران اپنی آسائشیں اور عیش و عشرت کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ، اخراجات پورے کرنے کے لیے ملک کے مستقبل کو تباہ کیا جارہاہے ، سود پر حاصل کیا گیا قرض ایسا شیطانی چکر ہے جس سے نکلنا ناممکن نہیں تو انتہائی دشوار ہوگا۔ عوام کو یہ توقع بھی تھی کہ نئی حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کم اور بجلی ، گیس اور تیل کی قیمتوں میں کمی کر کے عوام کو ریلیف دے گی لیکن تمام دعوئوں اور وعدوں کے علی الرغم موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کے عوام کش اقدامات پر عمل پیرا ہے۔