اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے 700 ارب روپے کے ٹیکسز نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ہم مذاکرات کے بعد آئی ایم ایف کو 350 ارب روپے ٹیکسز تک راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے کہا کہ حکومت نے منی بجٹ میں کھانے پینے کی اشیا پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا البتہ جانوروں کی درآمد اور مہنگے موبائل فونز پر 71 ارب کے ٹیکسز لگائے ہیں، حکومت اگلے مرحلے میں گزشتہ حکومتوں کے نافذ کردہ غیر ضروری ٹیکسز ختم کرنے جارہی ہے۔
وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں اچانک خام تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے قیمتیں بڑھ گئیں جبکہ ہمیں آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق پیٹرول کی قیمت مزید بڑھانی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ 2023ء تک پاکستان کی برآمدات 38 ارب ڈالرز تک پہنچ جائے گی جبکہ مستقبل میں پاکستان کو چینی درآمد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، پاکستان سے مچھلی برآمد ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان مچھلی بھی درآمد کر رہا ہے جس پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، اسی طرح ادویات کا کام کرنے والوں میں بھی مسائل ہیں جو ادویہ ساز ٹیکس چوری کرتے ہیں ان پر ٹیکس عائد ہوگا۔
ترجمان وزارتِ خزانہ کا کہنا تھا کہ اب ہم گزشتہ حکومتوں کی جانب سے نافذ کیے جانے والے غیر ضروری ٹیکس کو ختم کرنے جارہے ہیں، جن 100 کمپنیوں نے سال کے دوران اربوں روپے نفع کمایا انہیں اب ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی ادارہ خوراک نے دنیا بھر میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 20 فیصد اضافے اور مہنگائی کا 10 سالہ ریکارڈ ٹوٹنے کی تصدیق کی ہے۔
مزمل اسلم نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ ڈبل روٹی پر ٹیکس لگ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعدد بڑی بیکریاں انڈے ڈبل روٹی کے علاوہ پیزا اور دیگر مہنگی اشیاء فروخت کررہی ہیں، ان بڑی بیکریوں پر پوائنٹس آف سیل لگا کر ان کی فروخت جانچ کی جارہی ہے، فنانس سپلمنٹری بل میں غریب عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا کیونکہ مہنگے اور اشیائے تعیش اور برانڈڈ درآمدی اشیاء پر ٹیکس عائد کیا گیا۔