جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن اخبار میں شائع یورپی یونین کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق ترکی سے یورپ آنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کی تعداد گذشتہ برس کے مقابلے اس سال تقریباً دو گنا ہو گئی ہے۔
جرمن اخبار ‘ڈی ویلٹ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سال جنوری سے وسط دسمبر تک ترکی سے 70,002 مہاجرین یورپی یونین کے مختلف ملکوں میں پہنچے جو سن 2018 کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً چھیالیس فیصد زیادہ ہے۔
تقریباً68000 مہاجرین بحیرہ ایجیئن عبور کرکے یونان پہنچے جہاں وہ ایسے مہاجر کیمپوں میں رہ رہے ہیں جو پہلے سے ہی گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مہاجرین کی ایک تھوڑی سی تعداد بلغاریہ، اٹلی اور قبرص بھی پہنچی۔
رواں برس یورپ پہنچنے والے سب سے زیادہ مہاجرین افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد اس وقت کوئی 30 فیصد ہے جب کہ شام سے آنے والے پناہ گزینوں کا تناسب صرف 14 فیصد ہے۔ اس کے بعد پاکستان، عراق اور ترکی کے شہری ہیں جو بالترتیب 9.5 فیصد، آٹھ فیصد اور پانچ فیصد ہے۔
نئے مہاجرین کی یونان آمد کی وجہ سے مختلف مہاجر کیمپوں پر دباو کافی بڑھ گیا ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی بھرے ہوئے ہیں۔ وہاں کھانے، کپڑے اور دوائیوں کی کمی ہوگئی ہے۔ حکومت یونان پناہ گزینوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اب ملک کے دوسرے حصوں کی طرف منتقل کررہی ہے۔
موریا پناہ گزین کیمپ یونان کا سب سے بڑا استقبالیہ اور شناختی مرکز ہے۔ وہاں صرف تین ہزار افراد کی گنجائش ہے لیکن اس وقت اس کیمپ میں تقریباً بارہ ہزار پناہ گزین رہ رہے ہیں۔
اس نئی پیش رفت نے یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مہاجرین کے متعلق ہوئے سن 2016 کے معاہدہ پر سوالات کھڑے کردئے ہیں اور دیکھا جا رہا ہے کہ آیا ترکی اس معاہدہ کی کس حد تک پاسداری کررہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے ترکی کو مجموعی طور پر چھ ارب یورو کی مالی مدد دی گئی ہے۔ لیکن ترکی یورپی یونین پر اپنے وعدے پورے نہ کرنے کی مسلسل شکایت کرنے کے ساتھ ساتھ مزید فنڈ کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
یوروپی یونین کی خفیہ رپورٹ میں واپح کیا گیا ہے کہ ایسی اطلاعات ہیں جن میں ترک کوسٹ گارڈی کی گشتی کشیوں نے مہاجرین کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ یونانی کوسٹ گارڈ کی نشاندہی کے باوجود ترکی نے مہاجرین کی کشتیوں کو یونانی سمندروں کی طرف بھیج دیا۔