ستر کی دہائی میں جب ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بہترمعاش اور روشن مستقبل کی تلاش میں اپنے وطن کی سرحدوں سے دور ہونے لگے تو بیرون ممالک میں روزگار کے ساتھ ساتھ انہیں ان ممالک میں رہائیش کیلئے قانونی دستاویزات کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔ قانونی دستاویزات کے حصول کیلئے تارکین وطن کو ان ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں سے واسطہ پڑا۔ اور پھر یہیں سے تارکین وطن کی پریشانوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔
پاکستان سے سفارش اور اقربا پروری کے زور پر بیرون ممالک تعینات بیوروکریسی کے کلرک بادشاہ پوری کوشش کرتے کہ روزگار کیلئے وطن سے دور آئے ہوئے پاکستانیوں کو ذلیل و خوار کرنے کی کوشش کرتے اور اپنی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل میں ناکامیوں کا بدلہ ان ہم وطنوںسے لینے کو اپنا شعار بنالیتے۔بیرون ممالک پاکستانیوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی سفارتخانوں کے ساتھ تارکین وطن کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو تا گیا۔ خصوصی طور پر یورپین ممالک میں پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات چپڑاسی سے لیکر کلرک تک اور تھرڈ سیکریٹری سے لیکر ہیڈ آف چانسلری تک اکثر اپنی پوسٹنگ کے پہلے دن سے ہی تارکین وطن کے مسائل کے حل کی بجائے اپنے بچوں کو اچھے اسکولز میں داخلے۔
یا پھر بچوں کیلئے امریکہ اور کینیڈا کے ملٹی پل ویزے حاصل کرنے اور یا پھر کمیونٹی کے کھاتے پیتے معززین سے تعلقات بنا کر اُن سے تحفے وصول کرنے اور دعوتیں اُڑانے میں ہی وقت گزارنا پسند کرتے ہیں اور کچھ کی تو کوشش ہوتی ہے کہ اگر خود نہ سہی تو کم از کم اپنے بچوں کو ہی یورپ یا امریکہ میں سیٹل کروا دیں یا پھر گرین کارڈ کا حصول ہو جائے خواہ اسکی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
اور ان تمام مشاغل میں مصروفیت کی وجہ سے تارکین وطن کے مسائل کے حل کیلئے سفارتخانے کے بے چارے عملے کے پاس کم ہی وقت بچتا ہے۔ اور جب اس کم وقت میں وہ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے تو پھر تارکین وطن کی شکایات بڑھتی جاتی ہیںجن کو یہ لوگ درخور اعتناء نہیں سمجھتے کیونکہ یہ بادشاہ لوگ ہوتے ہیں جنہیںکوئی روکنے ٹوکنے والا یا پھر جواب دہی کرنے والا نہیں ہے۔ سفارتخانوں میں تعینات جو افسر زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں وہ اپنی من مانی کرنے کیلئے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔
کمیونٹی کے چند نمائندوں اور چند صحافیوں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر لیتے ہیں اور پھر اُ نکی دسوں اُ نگلیاں گھی میں اور سر کڑاھی میں۔ اگر کمیونٹی کا کوئی دوسرا نمائندہ یا پھر کوئی صحافی سفارتخانہ سے متعلق کمیونٹی کی شکایات کو سامنے لانے کی جسارت کرے تو سفارتخانہ کے پالتو کمیونٹی نمائندے اور صحافی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا عملی ثبوت دیتے ہوئے شکایات کو سامنے لانے والے کے خلاف محاذ بنا لیتے ہیں جبکہ اُن شکایات کا جن افسروں کو جواب دینا چاہیے وہ اپنے آرام دہ دفتروں میں بیٹھے گرم چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کمیونٹی نمائندوں کو آپس میں دست و گریباں ہوتے دیکھ کر مُسکرا رہے ہوتے ہیں۔
Pakistani Embassies
ایسے واقعات یورپ کے کئی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں میں ہوچکے ہیں۔ کمیونٹی کے کچھ لوگ تو باقاعدہ سفارتخانے کے ٹائوٹ بن جاتے ہیں اور کمیونٹی کے بارے میں سچی جھوٹی خبریںآکر افسران کو سنا نا ہی انکا کام ہوتا ہے۔ اسکے بدلے میں وہ ان افراد سے اپنے قریبی لوگوں یا جن سے وہ کچھ رقم لیتے ہیں انکے پاسپورٹ اور قانونی دستاویزات کی تصدیق وغیرہ کے مراحل دفتر میں بیٹھ کر حل کرالیتے ہیں۔ جبکہ بزرگ مرد و خواتین لائینوں میں لگے کلرک بادشاہوں کی جھڑکیاں سن رہے ہوتے ہیں۔
کچھ کلرک اور سیکرٹری عہدے کے لوگوںنے تو ، انصاف عوام کی دہلیز پر ، کے نعرے سے متاثر ہو کر ایک نیا نعرہ ایجاد کر لیا ہے کہ ، آپکی دستاویزات آپ کی دہلیز پر،اور اس مسئلے میں وہ اتنے ایکٹو ہوتے ہیں کہ اگر آپ انکی جیب گرم کر دیں تو وہ آپ کی دستاویزات آپکے گھر سے لیکرسفارتخانہ سے تصدیق کراکے واپس آپ کے گھر کی دہلیز تک پہنچا تے ہیں اور اپنی جیب گرم کرتے ہیں۔ تارکین وطن کی خوش قسمتی سے اگر کوئی ڈسپلن کا پابند ،محنتی اور ایماندار آفیسر تعینات ہو جائے تو سفارتخانے اور کمیونٹی کا چاپلوس مافیا پہلے تو اُس آفیسر کو اپنے ڈھب پر لانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
اگر اس میں کامیاب نہ ہو ں تو پھر اس آفیسر کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ اُس آفیسر کا ناطقہ بند کر دیا جائے۔ خواہ پاکستان سے کسی وزیر یا مشیر یا حکمران سے دبائو ڈلوایا جائے یا پھر مقامی صحافیوں میں سے کچھ کالی بھیڑوں کو استعمال کیا جائے، اور پھر اس ایماندار اور محنتی آفیسر کے خلاف وہ لوگ کمیونٹی کے مسائل کا جھنڈا لیکر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جنہوں نے خود سفارتخانہ کے کرپٹ افسران کے ساتھ ملکر پہلے یہ مسائل خو د ایجاد کئے ہوتے ہیں۔
تاکہ ان مسائل کی وجہ سے کمیونٹی کو جب مشکل پیش آئے تو وہ ان اصحاب کے پاس اپنی مشکلات لیکر آئیں اور یہ لوگ ان پر احسان کر کے سفارتخانہ کے کرپٹ آفیسرز کے ساتھ اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے ان مسائل کو حل کروا کر اپنی خود ساختہ اور نام نہاد لیڈری کا بھرم رکھ سکیں۔۔بیرون ممالک سفارتخانوں خصوصا یورپ میں قائم پاکستانی سفارتخانوں اور قونصلیٹ میں تارکین وطن کو درپیش مشکلات میں جتنا حصہ سفارتخانوں میں تعینات سرکاری بابوئوں کا ہے۔
اُس سے کچھ زیادہ حصہ تارکین وطن کے ان نمائندوں کا ہے کہ جو بعض اوقات اپنی چودھراہٹ، ذاتی تعلقات اور ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیںاور اور کرپٹ افسران کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، اور تقریبا یورپ میں مقیم تمام تارکین وطن کو اپنے سفارتخانوں سے کم و بیش ایک جیسی ہی شکایات ہیںگزشتہ د و عشروں سے پاکستانی سفارتخانہ پیرس میں بھی کم و بیش یہی حالات ہیں، کبھی حالات کچھ بہتر ہو گئے۔
Pakistan Community
توکبھی بد ترین ۔ لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ وہ یہ ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں سفارتخانہ پاکستان کے پاس معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، اور سفارتخانے کے چند موروثی پاکستانیوں اور ذاتی دوستوں کے علاوہ سفارتخانے کے افسران کو نہ تو کمیونٹی کے نمائندوں کی کوئی پہچان ہے اور نہ کوئی اُنکے بارے میں معلومات ، حتی کہ پاکستانیوں کی یہاں قائم سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمات کے بارے میں بھی مکمل آگاہی نہیں ہے۔ سفارتخانے میں ہونے والے قومی دنوں پر پاکستانی کمیونٹی کیلئے الگ پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے اور فرنچ اور ڈپلومیٹک کمیونٹی کیلئے بالکل الگ، سفارتخانہ کے لوگوں کی یہ پالیسی رہی ہے۔
پاکستانی کمیونٹی کو فرنچ کمیونٹی سے دور رکھا جائے۔۔ اب یہ احساس کمتری ہے یا سفارتخانہ پاکستان کے افسران کا اپنی کمیونٹی سے اظہار بیزاری کچھ پتا نہیں۔ لیکن کمیونٹی کو ڈیل کرنے والے افسران اپنے گنے چنے ذاتی دوستوں کو کسی بھی موقع پر مدعو کرنا نہیں بھولتے۔ان تمام خامیوں کی طرف توجہ دلانے کے باوجود کبھی کسی کے کانوںپر جوں نہیں رینگی۔ خوش قسمتی سے پیرس میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوںکیلئے تازہ ہوا کا ایک جھونکا اس وقت آیا کہ جب گزشتہ دنوں فرانس میں نئے سفیر غالب اقبال نے سفارتخانہ فرانس پاکستان کا چارج سنبھالا۔
فرنچ صدر فرانسوا ہالینڈ کو اپنی سفارتی اسناد پیش کرنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ فرنچ اور پاکستانی صحافتی حلقوںمیںیکساں مقبول ،متحرک اور محنتی پریس قو نصلر طاہر خوشنود نے تمام صحافیوں کو ایک چھت تلے اکٹھا کر دیا، اس ملاقات میں سفیر پاکستان جناب غالب اقبال نے غیر افسرانہ اور نہایت بے تکلفانہ انداز میں اپناتفصیلی تعارف کراتے ہوئے سفارتخانہ پاکستان اور کمیونٹی کے درمیان رابطے کے فقدان اور تنائو کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے اپنی گفتگومیںپاکستانی کمیونٹی کو سفارت خانہ پاکستان کے حوالے سے شکایات پر بھی تفصیلی بات کی اور صحافیوں سے ان مسائل کے حل کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی ۔ انہوں نے یقین دلایا کہ آئیندہ چند ہفتوں میں آپ کے یہ مسائل بھی حل ہوں گے اورسفارتخانے اور کمیونٹی میں جو تنائو اور دوری ہے وہ بھی دور ہو جائے گی۔انہوں نے پریس قو نصلر طاہر خوشنود کی مشاورت سے صحافیوں یہ وعدہ بھی کیا کہ فرانس میں مقیم پاکستانی نژاد صحافیوں کو مقامی فرانسیسی صحافیوں کے ساتھ موثر رابطے سمیت دیگر بعض امور کیلئے پلیٹ فارم مہیا کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا یورپی ممالک میں ایک روشن اور مثبت تصور قائم کرنا اور پاکستان کے زیادہ سے زیادہ دوست بنا نا ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور ِفرانس اور پاکستان میں باہمی تجارتی سرگرمیوں کو ہر سطح پرمزید فروغ د ینے کی اشد ضرورت ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ روز فرانس کے صدر فرانسواہالینڈ کو اپنی فرانس میں تقرری کی اسنا د پیش کرنے کے موقع پران کو پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے دورہ فرانس کے موقع پر پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کرنے کی یاد دہانی کرائی جس کے جواب میں فرانسیسی صدر فرنسواہالینڈ نے کہا کہ وہ جلد ہی ایک بڑے تجارتی وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں سفیر پاکستان غالب اقبال نے کہا کہ فرانس میں مقیم پاکستانیوں کو درپیش دستاویزات کے مسائل کو حل کرنے کیلئے موثر تجاویز کا خیرمقد م کریں گے اور ان کی کوشش ہوگی کہ کورئیر سٹم کے تحت ان کے مسائل ان کی دہلیزپر ہی حل کردیئے جائیں تاکہ دور دراز شہروں میں مقیم پاکستانیوںکو کاغذات کی تصدیق کے لئے پیرس سفارتخانہ میں آنے پر وقت کے ساتھ ساتھ جو سفر ی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں اس سے کم خرچ اوروقت کی بچت کے ساتھ ان کے مسائل انکے گھر پر ہی حل ہوجائیں۔
دیار غیر میں مقیم ہرپاکستانی کیلئے ان کے دروازے صبح ساڑھے پانچ بجے سے رات گئے تک کھلے ہیں، کسی بھی پاکستانی کو اگر کوئی پرابلم ہو تو وہ بلا جھجک مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے۔ فرانس میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کیلئے اپنے پیغام میں انہوں نے کہا پیرس میں قائم پاکستان ایمبیسی کو یہاں مقیم پاکستانی بہن بھائیوں کیلئے ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ وہ ایمبیسی کو اپنا گھر محسوس کریں گے۔گزشتہ دو عشروں میں پہلی بار کسی سفارتکار کو کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلئے اتنا پر عزم ، چاق و چوبند اور پرُ اعتماد پایا، اور جو بات سفیر پاکستان غالب اقبال نے زور دیکرکہی وہ یہ تھی کہ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہے یا کوئی شکایت ہے۔
Ghalib Iqbal
تو وہ غالب اقبال سے ہونی چائیے نہ کہ سفیر پاکستان کے عہدے سے ۔ پاکستان کا سفیر ہونا ایک اعزاز اور عزت ہے اس عہدے کی بے توقیری نہیں ہونی چائیے۔ آپ غالب اقبال کی کسی بھی غلطی پر تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں لیکن سفیر پاکستان کے عہدے پر انگشت نمائی نا قابل برداشت ہے۔ ،اس موقع پر پریس اتاشی طاہر خوشنود ،اور عمران خان لودھی بھی موجودتھے۔ تمام سنیئر صحافیوں نے اس ملاقات کو خوش آئیند قرار دیا اور سب اس بات پر متفق تھے کہ اب سفارتخانہ پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی ضرور آئیگی۔
اور اس بات کا ثبوت د و د ن کے بعد ہی مل گیا۔ جب ہیڈ آف چانسلری ڈ اکٹر اعجاز نے سفارتخانہ سے فون کیا اور بتایا کہ سفیر پاکستان کے ساتھ ملاقات میں راقم بیورو چیف نوائے وقت نے جس اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی تھی اسکا فوری طور پر نوٹس لے لیا گیا ہے او ر سفیر پاکستان غالب اقبال کی ہدایت پر اب سفارتخانہ پاکستان میں ہونے والی تمام تقریبات میں پاکستانی اور فرنچ کمیونٹی کو اکٹھے بلایا جائے گا۔ اور کسی قسم کی تفریق نہیں ہو گی۔
انہوں نے راقم کی طرف سے دی گئی ایک فائل جس میں فرانس میںرجسٹرڈ پاکستانی کمیونٹی کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیمات کے نمائیند وںاور انکے رابطوںکی تفصیل موجود تھی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ڈ اکٹر اعجازنے مزید کہا کہ کمیونٹی کو آئیند ہ چند ہفتوں میں ہی سفارتخانہ پاکستا ن پیرس میں بہت ساری مثبت تبدیلیاں نظر آئیں گی ۔ اور خصوصی طور پر پاسپورٹ اور ویزہ سیکشن سے متعلقہ شکایات کے ازالے کیلئے بھی فوری اقدامات کئے جارہے ہیں۔ امیدہے کہ پاکستانی کمیونٹی فرانس کی سفارتخانہ کے حوالے سے شکایات دور ہوں گی اور دکھے دلوں سے نئے سفیر کے لئے دعائیں نکلیں گی۔ تحریر : صاحبزادہ عتیق الر حمن