بصارت سے محروم افراد کی بینائی واپس لانے کے لیے جینیاتی طریقہ علاج دریافت

EYE

EYE

لندن (جیوڈیسک) بصارت سے محرومی انسان کو ایک طرف تو لاچار اور مجبور بنا دیتی ہے تو دوسری جانب اس سے دنیا کی دلکشی اور رنگینی بھی چھین لیتی ہے لیکن اب ایسے افراد کے لیے برطانوی سائنسدانوں ے امید کی کرن روشن کردی ہے کیونکہ جنیاتی طریقہ علاج جس سے انتہائی کم بصارت کو بھی واپس لایا جا سکے گا۔

برطانوی سائنس دانوں کی تحقیق سے دریافت ہونے والے اس طریقہ علاج کو نہ صرف کامیاب ترین قرار دیا گیا ہے بلکہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ علاج پائیدار بھی ہے اور اسے پورے اعتماد سے استعمال کیا جا سکتا ہے جب کہ سائنس دان بعض عام اقسام کے نابیناپن کے علاج کے لیے اس طریقہ کار کے مطابق آئندہ سال اس کے تجربات شروع کردیں گے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقہ علاج میں آنکھ کے پچھلے حصے میں ایک فعال جین داخل کر دیا جاتا ہے جن سے خلیوں کا از سرِ نو احیا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طریقہ علاج کو گزشتہ ساڑھے 4 سال تک برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور جرمنی میں 32 مریضوں پر آزمایا گیا۔ اوکسفرڈ یونیورسٹی میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایک ایسی بیماری کا علاج کیا جو نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے اور اس میں ایک ناکارہ جین کی وجہ سے آنکھ کے خلیے مرنے لگتے ہیں جس سے یہ مریض رفتہ رفتہ نابینا ہو جاتے ہیں جب کہ اب تک اس مرض کا کوئی علاج نہیں تھا۔

ماہرین طب نے اس طریقہ علاج کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور پھر چند دنوں میں نہ صرف بیماری رک گئی بلکہ اس سے بعض مرتے ہوئے خلیے دوبارہ صحت مند ہو گئے اور مریض کی بینائی بہتر ہو گئی جب کہ اس جیسے کئی اور تجربات نے ثابت کیا ہے کہ یہ طریقۂ علاج دیرپا بھی ہے کیوں کہ پہلے مریض کا علاج ساڑھے 4 سال قبل ہوا تھا اور ان کی بینائی میں اب تک کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس سے بھی دلچسپ بات یہ تھی کہ اس مریض کی بصارت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتری آتی جا رہی ہے۔

تحقیق کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کسی بیماری کا جینیاتی سطح پر علاج اس سے نمٹنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے جس میں جین تھراپی میں جین کی خرابی کو درست کردیا جاتا ہے اور جب ڈی این اے کو ایک بار درست کرکے درست خلیے میں ڈال دیا جائے تویہ سیل مستقل بنیادوں پر اپنا کام انجام دیتا رہتا ہےاور موجودہ طریقہ کار کی طرح دوبارہ سرجری کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔