تحریر: روشن خٹک خیبر پختونخوا کے جنوب میں ایک بے آب و گیاہ ضلع کرک کا گاوئں ڈیلی میلہ، جہاں میں پیدا ہوا، وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں جب میں ملیشیا رنگ کے کپڑے پہن کر، کالی ٹوپی سر پر رکھ کراور تختی ہاتھ میں پکڑ کر پیدل سکول جایا کرتا تھا.کبھی کبھار کونلی (لمبی کبڈی) کے مقابلے دیکھنے جاتا۔وہاں بِلا تفریق عمر بچے، جوان اور بو ڑھے سبھی موجود ہو تے،ڈھول اور شرنائی کی جوشیلی تانیں سن کر میرے رگ و پے میں بجلی کی سی لہر دوڑ جاتی۔ایک جوان آگے بھاگتا ،دو جوان اس کے پیچھے بھاگتے ،ڈھول کی آواز اور تماش بینوں کی داد سن کر میرے رونگھتے کھڑے ہو جاتے، جسم میں عجیب و غریب کیفیت کی لہر دوڑ جاتی اور روح انجانے ولولوں کی یلغار سے سرشار ہو جاتی۔۔۔۔۔۔۔
گندم کی کٹا ئی کا وقت آتا،کئی نو جوان ہاتھ میں آرے لے کر کھیتوں میں گندم کٹائی شروع کرتے تو ڈھول اور شرنائی کی لے ان کے جوش و ولولے میں کئی گنا اضافہ کرتے…… میں ابا سے پو چھتا۔…….. ابّا ! ایک دانے سے سینکڑوں دانے کیسے پیدا ہو تے ہیں ؟ وہ کو ئی تسلی بخش جواب نہ دے سکتے…..۔میری امی بہت پیاری امّی….، جب صبح سویرے گا ئے کا دودھ دوہتی اور گائے کا خوبصورت سا بچھڑا ماں کے تنوں سے دودھ پینا شروع کرتا تو میں پو چھتا……، امّی جان ! ہمارے گا ئے کے بچھڑے کو اپنی ماں کے تنوں سے دودھ پینا کس نے سکھایا ؟ تو ماں بھی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہتی، ۔۔اب سوچتا ہوں ….۔اچھا ہوا۔۔میرے ابا اور امی مجھے مطمئن نہ کر سکے، کیو نکہ کا ئنات کا بھید کھو جنے میں جو مزا ہے، پا لینے میں شاید وہ مزا نہ ہو۔۔۔
Partridge
لڑکپن میں میرے مشاغل عجیب و غریب تھے۔میں تیتر پالتا، چڑیوں کا شکار کرتا، غولیل ہر وقت پاس رکھتا۔۔۔موسم فصلِ ربیع کا ہوتا یا فصلِ خریف کا …ہمارے علاقے میں چڑیاں اور دیگر کئی قسم کے پر ندے آتے۔۔میں ان کی تاک میں رہتا۔۔ غولیل سے نشانہ باندھتا، تڑک سے پرندہ گر جاتا، میں بھاگ کر، چاقو نکال کر اسے ذبح کرتا ..گھر واپس آتا تو آٹھ دس پرندے میرے ہاتھ میں ہو تے،اسے صاف کرکے سیخ پر چڑھا تا، بھو ننے کے لئے انگاروں پر پھیلاتا تو ان کی چربی انگاروں پر پگھل پگھل کر گرتی، تو خوشبو سے بھوک میں اضافہ ہو تا۔سیخ میں بھونی ہو ئی آوارہ پرندوں کے گوشت کا لذت وہی لوگ جانتے ہیں جن کے کام و دہن اس ذائقے سے اشناء ہو ئے ہوں……..یہ وہ دن تھے جب جسمانی بلوغت کی آمد آمد تھی مگر ذہنی بلوغت نہیں تھی،ہمارے پڑوس میں ایک لڑکا ” ناصر ” میرا کلاس فیلو تھا اور دوست بھی…..ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا…….ہم اکثر سکول کا کام اکھٹے بیٹھ کر کیا کرتے تھے۔۔..ناصر کی ایک ثوبیہ نام کی چھوٹی بہن تھی دونوں بہن بھا ئیوں کا رنگ سانولا سا تھا اور خد و خال میں بھی ماں کی بجائے باپ کے زیادہ قریب تھے۔………
ثوبیہ پہلی لڑکی تھی جس نے میرے معصوم دل میں پیار کی پہلی جوت جگائی تھی……..تب میں محبت اور چاہت کے معنی نہیں سمجھتا تھا……. وہ چھوٹی سی معصوم سی لڑکی تھی لیکن جب ہماری نگاہیں ٹکراتیں تو کوئی چیز میرے دل میں سے بھی چھب جاتی اور میں کانپ سا جاتا…. ثوبیہ کی سیاہ آنکھوں میں بھی ایک عجیب سی وحشت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت پیدا ہو جاتی……..وہ بہانے بہانے بھائی کے پاس آتی……. کبھی پنسل، کبھی ربڑ، کبھی روشنائی…اس کا ہاتھ بھائی کی طرف بڑھ جاتا اور نگاہیں مجھ پر جم جاتیں…..۔۔
Love Story
میری یہ کیفیت ہوتی کہ ہاتھ لرزنے لگتے اور سبق ذہن سے نکل جاتا…….وہ بھائی سے چیز لے کر جاتی…آنکھوں سے اوجھل ہو نے سے پہلے ایک بار مڑ کر دیکھتی……میں بھی ناصر سے نظریں بچا کر اسکی طرف دیکھتا….وہ نہ مسکراتی نہ ہنستی ، مگر آنکھوں میں ایسی چمک ہوتی کہ میری روح کپکپا جاتی۔…جس دن میں ان کے گھر نہ جاتا..تو ان کے گھے گھر کا باہر سے دس مرتبہ طواف کرتا، رات کو بھی اس کی سیاہ آنکھیں میرا پیچھا نہ چھوڑتیں….انہی دنوں ناصر کے ابو نے آٹے کی مشین لگائی اور ناصر کو آٹے کی مشین پر لگا دیا ، یوں ناصر نے آٹے کی مشین سنبھال کر سکول چھوڑ دیا اور یوں ان کے گھر میرا آنا جانا بھی ختم ہو گیا۔مگر ناصر سے میری دوستی ہمیشہ ہمیشہ رہی…..وہ دھیمے مزاج کا لڑکا تھا، میں سکول سے واپس آتا تو ان کے چکی پر جاتا، وہ میرا انتظار کرتا رہتا تھا،ہم چائے اکھٹے پیتے…ثوبیہ کو دیکھنے کے لئے میری آنکھیں ترس گئی تھیں….سال ڈیڑھ سال کے بعد ناصر کو ٹی بی ہو گئی….وہ درجنوں دوائیاں کھاتا…میں ہر تیسرے دن ان سے ملنے ان کے گھر جاتا اور یوں ثوبیہ کے بھی درشن ہو جاتے۔……….جب میں دروازہ کھٹکھٹاتا تو ثوبیہ ہی دروازہ کھو لنے آتی……. ایک لمحے کے لئے ہماری آنکھیں ملتیں ..وہ مسکرا کر ،لجا کر آنکھیں جھکا لیتیں …. میں آگے بڑھتا….وہ دروازے کو کنڈی لگاتی اور دبے قدم میرے پیچھے پیچھے آتی………….۔
ناصر کے کمرے میں داخل ہو نے سے پہلے میں ایک بار مڑ کر دیکھتا، دوبارہ آنکھیں ملتیں،وہ تیزی سے پلکیں جھپکاتی، چہرہ شرم و حجاب کے نور سے تمتما اٹھتا…………..میں کانپتے قدموں سے ناصر کے کمرے میں داخل ہوتا اور اپنے اس پیارے ساتھی پر نچھاور ہو نیکو جی چاہتا. ہم گھنٹوں دنیا جہان کی باتیں کرتے…….تھوڑی دیر بعد ثوبیہ موم پھلی کسی پلیٹ میں رکھ کر لاتی اور خاموشی سے چل دیتی……پھر اچانک ایک دن ناصر چل بسا….اس دن میں بہت رویا…..بہت رویا…….یوں ناصر کی موت نے مجھے اور ثوبیہ کو بھی ایک دوسرے سے دور پھینک دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کبھار جب ہمارا ستارہ عروج پر ہوتا تو گاوں کے کسی پگڈنڈی پر ہمارا آمنا سامنا ہو جاتا….ایک عجیب و غریب کیفیت میں ڈوبے ہو ئے ہم ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو جاتے……..خاموش، متین، خوف زدہ اور سرشار………. ہم کو ئی بات نہ کرتے،ہم ایک دوسرے کے انگلیوں کے پور تک چھو نہ سکتے تھے…….
Gilr
ہم نے لمس کا ذائقہ نہ چکھا تھا مگر ہماری روحوں نے ایک دوسرے کو چھو لیا تھا …وہ ایک دوسرے میں تحلیل ہو چکی تھیں……… انہی دنوں مجھے ایک لڑکے نے بتایاکہ جب میں سکول آتا یا جاتا ہوں تو ایک لڑکی اپنے گھر کے چاردیواری کے ایک کونے میں سر اٹھا کر مھجے دیکھتی رہتی ہے اور کئی مہینوں سے یہ اس کا معمول بن چکا ہے.. میں نے اس کی تردید کی تو اس نے قسمیں کھا کھاکر میرے سینے میں ننھا سا چور بٹھا دیا……دوسرے دن میں سکول روانہ ہوا تو میری نظر اس لڑکے کے بتائے ہوئی چاردیواری پر تھی۔..گہرے عنابی رنگ میں ایک گول چاند سا خوبصورت چہرہ نظر آگیا۔۔؛؛ میں نے رومال ہلا کر اشارہ کیا تو ادھر سے بھی دوپٹہ ہلا کر جواب دیا گیا…..اور…. یوں میرا دل دھک سے رہ گیا……’یہ پلوشہ تھی……………روشن خٹک کے ناول ‘ نقوشِ محبت ” سے ماخوذ (باقی کے لئے اگلی قسط کا انتظار کیجئے)۔