پاکستانی میڈیا خواہ وہ سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرونک، یوں لگتا ہے کہ دونوں نے اصلاح معاشرہ کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ ایسی ایسی برائیوں اور خرابیوں کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے کہ ان بڑھتی ہوئی برائیوں اور خرابیوں کو دیکھ کرنہ صرف عقل دنگ رہ جاتی ہے بلکہ آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ معاشرے کی ان میں بڑھتی ہوئی برائیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کرنا اور ان کے خا تمہ کے لئے کوششیں کرنا کوئی بری بات نہیں ہے بلکہ قابل تحسین اقدام ہے۔ مگر اعتراض اس بات پر ہے کہ جس طرح سے ان کو دیکھایا جاتا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں ہے۔
میڈیا کا یہ طرء امتیاز بنتا جا رہا ہے کہ برائی کے خاتمے کی کوشش کو اصلاح کا نام دے کر برائیوںسے بھرپور ویڈیو کو بظاہر ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے یہ دیکھیں کالج میں کیا ہو رہا ہے، اور پھر کالج میں ہونے والی ناچ گانے اور بیہودہ ڈانس کی پوری ویڈیو لگا دی جاتی ہے، دیکھنے والے اس کو بغور دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں اور ملامت اور لعن طعن کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ پھر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش یوں کی جاتی ہے کہ یہ دیکھیں مسلم خواتین کس طرح غیر مردوں سے مہندی لگوا رہی ہیں ،ارے بھئی اگر مہندی لگوا رہی ہیں تو اسلام کا نام لے کر اس کو بدنام تو نہ کریں، ہاں اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک مسلم خاتون اپنا ہاتھ غیر مرد کے ہاتھ میں دے ۔
اسی طرح کی اور ویڈیو بھی ہوتی ہیں کہ یہ دیکھیں کتنا ظلم ہو رہا ہے، اور پھر ایسے ایسے رونگٹے کھڑے کر دینے والے مناظر دکھائے جاتے ہیں کہ انسان کے انسان ہونے پر ہی شک ہونے لگتا ہے، پھر خاص طور سے عورتوں پر ہونے والے مظالم کی ہوش ربا اور دل کو چیر دینے والی ویڈیو ز دیکھائی جاتی ہیں، جن سے عورت کا تقدس بری طرح پامال ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسی پر بس نہیں، مرتے سسکتے تڑپتے بچوں کی ویڈیوز لگائی جا رہی ہیں۔ وحشت اور بربریت کو اتنا عام کر دیا گیا ہے کہ انسان کے دل سے محبت ،شفقت اور رحم اور صلہ جوئی جیسے الفاظ معدوم ہوتے جارہے ہیں۔
ایک دوسرے سے نفرت، بغض اور دشمنی کا دل کھو ل کر اظہار کیا جاتا ہے۔ پھر نفرتوں کو مزید بڑھاوا دینے کے لئے ایسی ایسی پوسٹ بنائی جاتیں ہیں کہ حیرت کے ساتھ دکھ بھی ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ لائیک اور شئیر کریں۔ او پھر بعض اوقات تو صرف زیادہ سے زیادہ لائیک بڑھانے کے لئے اس قسم کے سوال کئے جاتے ہیں جو کہ سراسر جہالت، کم علمی پر منتج ہوتے ہیں، ایسے سوال جن کی دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں پوچھے جاتے ہیں۔ ،مثلا کیا آپ کو محمد صلی اللہ علیہ سے محبت ہے؟ کیا آپ بیت اللہ کو پسند کرتے ہیں؟ کیا قرآن پاک آپ کی پسندیدہ کتاب ہے؟ اور پھر ستم ضریفی یہ کہ ان کے جواب ہاں یا ناں، یس اور نو میں دیئے ہوتے ہیں۔
Quran Paak
ان جاہلوں اور عقل کے اندھوں کو یہ کون سمجھائے کہ کون سا ایسا مسلمان ہے جو ان کے جواب” نہیں” میں دے گا۔ حد ہوتی ہے بے وقوفی اور جہالت کی ،دین کو مزاق بنایا ہوا ہے کچھ لوگوں نے۔ قرآن پاک کے مطالعہ اور عقلی دلائل سے دین کا پرچار اور علم کو عام کرنے کی بجائے کسی بھی مسلک یا فرقہ سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کی تصاویر کو انتہائی شرمناک انداز میں یا کارٹون کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ جو کہ سراسر اسلامی تعلیم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی ہے اور پھر افسوس کہ صرف یہ ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ لعنت ڈال کر شئیر کریں، مگر بات لعن طعن سے بڑھتی ہوئی گالیوں اور گندی زبان کے استعمال تک پہنچ جاتی ہے۔ یوں بازاری زبان اور گالیا ں دینے ایک طویل اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ایک حدیث پاک ہے حضرت ابن مسعو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طعنہ زنی کرنے والا، دوسرے پر لعنت کرنے والا، فحش کلامی کرنے والا۔ یاوہ گو زبان دراز مومن نہیں ہو سکتا۔ (ترمزی باب البر والصلةباب فی العنتہ)
اسی طرح ایک سچے اور حقیقی مسلمان کی یہ تعلیم ہے کہ تم اپنے لئے بھی وہ ہی چیز پسند کرو جو تم کسی اورکے لئے پسند کرتے ہو، تو کیا اس طرح کی پوسٹ بنانے والے پسند کریں گے کہ پلٹ کر ان کے پیاروں کی اس قسم کی جھوٹی پوسٹ بنائی جائے یا غلط پرپیگنڈہ کیا جائے۔ یقینا اس کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔ مذہبی راہنمائوں سے لے کر سیاسی سماجی راہنمائوں تک کو بخشا نہیں جاتا۔ اسلام تو نرم اور پاک زبان کے استعمال اور صبر کی تلقین کرتا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہتا ہے کہ :
گالیاں سن کے دعا دو۔۔۔۔پاکے دکھ آرام دو کبر کی عادت جو دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔تم دیکھائو انکسار
مگر ایسے موقع پر اس قدر مغلظات بکی جاتی ہیں کہ خدا کی پناہ انسان حیرت اور افسوس کے سمندر میں ڈوبنے لگتا ہے اور سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ یا اللہ !یہ کس قسم کی دین کی خدمت ہو رہی ہے۔ کہ جس میں گندی اور ناپاک زبان کا استعمال عین ثواب اور جائیز قرار پاتا ہے یوں لگتا ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے نفرت اور دشمنی میں بازی لے جانا چاہتا ہے۔ کیا اس طرح ہم اپنا معاشرہ اور ملک سدھار پائیں گے؟؟ کیا اس طرح سدھرتا ہے؟؟ ہم تو ایک دوسرے کو نہ برداشت کر رہے ہیں نہ ہی تحمل سے ایک دوسرے کی بات کو سننے کے روادار ہیں۔
اور پھر ہمیں دعوی ہے کہ ہم اس کے امتی ہیں کہ جو رحمت العالمین ہیں، جس نے تمام زندگی محبت اور اخوت اور بھائی چارے کا درس دیا۔ جس نے ہمیشہ بڑے سے بڑے دشمن کو معاف کر دیا، ہاں وہی رحمت العالمین جو نسل انسانی کے لئے نہ صرف مجسم رحمت ہیں بلکہ انسانیت کا پرچار کرنے والے ہیں۔ ہم یہ سب کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم نے اپنے آقا کے نقش قدم پر اور ان کے اپنائے ہوئے راہنما اصولوں پر چلنا ہے، نفرتوں اور دشمنیوں کو آگے سے آگے نہیں بڑھانا، بلکہ محبتوں کی پیروی کرتے ہوئے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے پیارے آقا کے قدموں کے پیچھے پیچھے چلنا ہے۔
خواہ کیسا ہی مرحلہ کیوں نہ درپیش ہو صبر و تحمل کے ساتھ اپنی اصلاح کرتے ہوئے اپنے دین و ایمان کو مضبوط کرنا ہے، اور پیغام پہنچا کر دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہے کہ دین کا معاملہ خدا اور اس کے بندے کے درمیان کا معاملہ ہوا کرتا ہے، بندے اور بندے کے درمیان نہیں۔ دین میں جبر نہیں ہے، اور نہ ہی ہمیں اپنے خیالات کو دوسروں پر زبردستی ٹھوسنے کی اجازت ہے۔ ہم قاضی نہیں بن سکتے ہم صرف داعی ہیں، اس نقطہ کو اگر ہم سمجھ جائیں تو معاشرے میں امن اور سکون کی فضا ضرور پروان چڑھے گی۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔