11 مئی 2014 نئی حکومت کو ایک سال کا عرصہ ہو چلا ہے جب عمران خان نے ہر طرف سے مایوسی کے بعد عوامی عدالت کا رخ کیا ہے یقینا یہ مفادات کی پچ پر جارحانہ کھیلنے والی موروثی سیاست کیلئے ایک بُرا شگون ہے عمران خان کی خامیاں یہ ہیں کہ پاکستان کے موروثی سیاسی ماحول میں وہ منافقت سے عاری نظر آتا ہے جبکہ عوام پر حکمرانی کیلئے سیاست میں منافقت پہلا وصف ہوتی ہے جو عمران میں نہیں دوسرا وصف اقتدار میں آنے کیلئے جھوٹ کی تکرار ہے جو الیکشن میں عوامی مینڈیٹ کی راہ ہموار کرتی ہے۔
عمران کے پاس یہ بھی نظر نہیں آتا اب آتے ہیں جیو کے افتخار احمد کے چیلنج کی طرف کیونکہ جیو والے سمجھتے ہیں کہ جو اُنہوں نے کہہ دیا وہی سچ ہے اور جو ہمارے سچ پر قدغن لگائے گا وہی ہمارے عتاب میں ہوگا مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ جب نتائج آرہے تھے تو انتہائی قلیل مقدار میں صرف 36 حلقوں کے نتائج انائونس ہوئے تھے جب جیو نیوز نے میاں نواز شریف کو وزیر اعظم کے پروٹوکول کے ساتھ افتتاحی تقریر کیلئے لاکھڑا کیا یہ مبینہ دھاندلی نہیں تھی مجھے افتخا ر احمد سے صرف ایک سوال کا جواب پوچھنا ہے۔
پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں جیو کے پروگرام ”آج کامران کے ساتھ ”کونسا پروگرام ایسا ہے جو اس سچ کی نفی کردے کہ کامران خان نے آئندہ الیکشن میں میاں نواز شریف کی راہ ہموار کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی حکومتی پالیسیوں کو ہدف تنقید نہ بنایا ہو آج جب ملک بحرانوں میں گھرا ہوا ہے کامران خان کو ساون کے اندھے کی طرح ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے کیا میڈیا کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ ریاست کے اندر ریاست قائم کر کے ریاست کے اختیارات اپنی دسترس میں لینے کی کوشش کرے؟ بقول مستعفی سینیٹر فیصل رضا عابدی کے عمران خان کو 125قومی حلقوں کی نشستوں سے محروم کیا گیا اب یہاں ایک بات کرنا ضروری ہے۔
ہمار ے وہ نام نہاد دانشورجو حکومت کے کاسہ لیس ہیں اُن کا کہنا ہے کہ عمران نے سر ِ دست احتجاج کی راہ کیوں نہیں اپنائی ؟اُنہیں باور کرانا ہے کہ تب عمران خان ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ جمہوریت ڈی ریل ہو اورموروثی سیاست کو کوئی جواز مل سکے جس کی بنا پر وہ عوامی عدالت میں مظلوم بن کر عوامی حمایت کے حصول میں کامیاب ہو جمہوریت کو بچانے کی خاطر عمران خان نے صرف چار قومی اسمبلی کے حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق چاہی لیکن گیارہ مئی 2014تک اُنہیں کسی عدالت سے یا الیکشن کمیشن سے ریلیف نہ مل سکا وہ جب بھی عدالت گئے حکومت نے سٹے آرڈر حاصل کر لیا یہ بھی چیئرمین تحریک انصاف نے یہ باور کرایا کہ اگر ان چار حلقوں میں رگنگ ثابت ہوتی ہے۔
Election
تو بھی ہم اس الیکشن کو مان لیں گے لیکن اُس کی شفافیت کو نہیں خواجہ سعد رفیق جو خود جعلی مینڈیٹ پر اسمبلی میں پہنچے ہیںاُن کا واویلہ ”چور مچائے شور ” کی طرح سب سے زیادہ ہے جہاں تک افتخار محمد چوہدری پر الزام ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ بقول حکومتی کارندوں کے عمران خان نے ہی فخرالدین جی ابراہیم پر اعتماد کا اظہار کیا تھا اُس پر آج بھی عمران اُسی طرح اعتماد کرتے ہیں وہ اُس کا آج بھی کوئی قصور نہیں گردانتے لیکن کیا اس سچ کی نفی کی جاسکتی ہے کہ افتخارمحمد چوہدری نے انتخابات کاکنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی پر شدید دبائو ڈالا اور کہا کہ وہ انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے سپریم کورٹ سے مدد مانگیں جس کیلئے ایک اجلاس بلایا گیا۔
جس کی فرمائشی صدارت خود چوہدری نے کی چوہدر ی صاحب کے کہنے پر الیکشن کمیشن کی طرف سے استدعا ہوئی کی چیف جسٹس صاحب الیکشن کو شفاف بنانے کیلئے اُن کی مدد کو یقینی بنائیں اسی درخواست کی آڑ میں فخرو بھائی کو گھر بٹھادیا گیا اور من مرضی کے انتخابی نتائج پر چوہدری صاحب کا تسلط قائم ہو گیا آج وہ کہہ رہے ہیں کہ ریٹرننگ آفیسرز اُن کے ماتحت نہیں تھے لیکن فخرو بھائی کی اس درخواست کی روشنی میں کیا آپ کے کردار کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ؟ آج جب ہم تحقیق کرنے بیٹھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ 35 پنکچر ز تو اُس ”چڑی باز ” نے لگائے تھے۔
انتخابی نتائج جب آئے تو اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کو فون کر کے بتایا تھا کہ اُن کی جیت کو چرانے کیلئے کس کس نے پنکچر لگائے ہیں؟وہ شخص جو آلو کے دام بڑھنے پر اور ایئر پورٹ پر ایک سیاسی جماعت کی نمائندہ سے شراب برآمد ہونے پر سو موٹو ایکشن لیتا رہا لیکن جب عوام کے حق خود ارادیت پر پڑنے والے ڈاکہ کے خلاف عمران خان درخواست لیکر گیا اور بھری عدالت میں استدعا کی کہ ”ہم جانتے ہیں کہ پینسٹھ حلقوں کے رزلٹ چیک کرانا مشکل ہے۔
لہٰذا صرف چار حلقوں کو ہی چیک کرا دیں ”تو چوہدری کا جواب تھا کہ میرے پاس پہلے ہی بیس ہزار کیس پڑے ہیں میرے پاس ٹائم نہیں ہے پھر افتخار محمد چوہدری کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ دھاندلی میں شریک نہیں تھا ؟میرے اپنے آبائی حلقہ این اے 69 میں عام انتخابات سے لیکر ضمنی الیکشن تک عوام نے ملک عمر اسلم کا بھر پور ساتھ دیا لیکن جیت ایک درآمد شدہ اُمیدوار کے حصہ میں آئی ابرارالحق کے ساتھ نارووال میں یہی کچھ ہوا اور لودھراں میں جہانگیر ترین کی جیت کو شکست میں بدل دیا گیا۔
ملتان میں شاہ محمود قریشی کی جیت غفار ڈوگر کے کھاتہ میں ڈال دی گئی ،بہاولپور میں فاروق اعظم ملک کو شکست سے دوچار کر کے بلیغ الرحمان کو جتوا دیا گیا جواب دہ پروگرام کے افتخار احمد خود جواب دیں کہ جیو کے نجم سیٹھی کو کونسے کارنامے کا صلہ ایک بڑے صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی شکل میں ملا اور اب کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی اُن کو پلیٹ میں رکھ کرکیوں دے دی گئی ہے ؟علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کو جب یہ زعم ہے کہ عوام اُن کے ساتھ ہیں تو عمران خان سے اُن کو خطرہ کیسا؟