کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : روہیل اکبر

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے مرکز، کے پی کے اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہوگئی ہیں پنجاب میں قائد ایوان کا انتخاب ہوا تو میں اسمبلی کی پریس گیلری میں اوپر بیٹھا اپنے نیچے ن لیگیوں کا شور سن رہا تھا حمزہ شہباز شریف اپنی بغلوں میں ہاتھ دبائے عظمی بخاری کی طرف سے لگائے جانے والے نعروں پر خاموشی سے جواب دے رہے تھے کل کے حکمران آج اپوزیشن بنچوں پر چڑھے نومنتخب وزیراعلی کے خلاف قاتل اعلی نامنظور ،قاتل ڈاکوکی سرکار نہیں چلے گی ،چوروں ڈاکوؤں کی سرکار نہیں چلے گی ،گو عمران گو اور رو عمران گو کے نعرے لگا رہے تھے جب اس شور شرابے کو کافی وقت گذر گیا تو بڑے تحمل،صبر اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپیکر نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کا آئیٹم مکمل ہوگیا ہے تو کاروائی شروع کریں جس پر اپوزیشن نے بھی معاملہ کی نوعیت کو بھانپ کر بیٹھنے میں ہی آفیت جانی جسکے بعد نو منتخب وزیراعلی نے اپنے علاقے اور اپنی محرومیوں اور پھر پورے صوبے کی محرومیوں کے ازالے کی بات کی بعد میں حمزہ شہباز شریف نے الیکشن میں دھاندلی کا رونا روتے ہوئے کمیشن کا مطالبہ کیا اور آخر میں معاویہ اعظم نے اپوزیشن اور حکومت کے کردار کے حوالہ سے بات کی مگر میں اوپر بیٹھا اس وقت یہ سوچ رہا تھا جب اپوزیشن کی طرف سے قاتل اعلی نا منظور کے نعرے لگ رہے تھے۔

کبھی اسی ایوان میں اس وقت کے خادم اعلی شہباز شریف کے خلاف بھی قاتل اعلی کے نعرے بلند ہوا کرتے تھے جن کی بازگشت ابھی بھی ماڈل ٹاؤن سانحہ کے حوالہ اور بلخصوص سابق پولیس انسپکٹر عابد باکسر کے حوالہ سے شہباز شریف پر جو الزامات کی بارش ہے انکی جب تفتیش مکمل ہوگی تب پعلوم ہوگا کہ قاتل اعلی کون ہے وہ جسے عدلیہ نے بری کردیا تھا یا وہ جس پر 14شہدا کے قتل کا خون اور بے شمار پولیس مقابلوں میں بے گناہ انسانوں کو پار کرنے کا الزام ہے وزیر اعلی کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی میں سپیکر اور ڈپٹی سپپکر کی تبدیلی بھی ایک خوش آئند اقدام ہے کیونکہ سابق سپیکرجذباتی اور ڈپٹی سپیکر قبضہ گروپ تھااور اب چوہدری پرویز الہی نے ایوان کو خوبصورتی سے چلانے کا کام شروع کردیا ہے یہ تھی پنجاب کی صورت حال اور اب آتے ہے پی ٹی آئی کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کی طرف جو اس وقت پوری قوم کی توجہ کا مرکز اور امیدوں کا محور بنے ہوئے ہیں عمران خان کوکھلاڑی تو سب مانتے ہیں اور اس کا بڑا ثبوت 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ ہے۔

ان کے بارے میں ایک بات بڑی واضح ہے کہ اپنی دھن کے پکے ہیں۔ جو ہدف اپنے لیے چن لیتے ہیں اسے پورا کیے بغیر آرام سے نہیں بیٹھتے فیصلہ کر کے اس پر ڈٹ جاتے تھے ب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سیاست بلکہ بطور وزیر اعظم ان کا یہ خاصہ ان کے لیے مفید ثابت ہو گا یا نہیں۔ 22 سال قبل اچانک سیاست کے میدان میں اترنے کے بعد حکومت بنانا یا وزیر اعظم بننا ان کا ہدف بن گیا تھا اور بالآخر یہ ہدف انھوں نے حاصل کر لیا ہے جیت کسی بھی کھلاڑی کیلیئے کھیل کی انتہا ہوتی ہے اس کا آغاز نہیں۔

مرکز میں حکومت کے بڑے ہدف کی راہ میں انھیں چھوٹی چھوٹی کامیابیاں اور پھر صوبہ خیبر پختونخوا میں 2013 کے انتخابات میں اقتدار کا ملنا بھی تھا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کا 22 واں وزیر اعظم بنے والا عمران خان کون سا عمران ثابت ہو گا، کھلاڑی یا سیاستدان؟ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ کھلاڑی نہیں ہوں گے جو صرف جیت کے لیے کھیلتا ہے۔ کیا وہ جیت کے بعد بھی حکومتی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لیں گے یا نہیں۔ ایک کھلاڑی نہیں بلکہ وزیر اعظم کی طرح اجلاس در اجلاس شرکت کرنی ہو گی، ملکی اور غیرملکی وفود سے ملاقاتیں کرنا ہوں گی، ماضی کے برعکس جیب میں شناختی کارڈ پڑی واسکٹ میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے جانا بھی ہو گا اور معلوم نہیں کیا کچھ کرنا ہو گا۔ عمران خان کی ایک اور عادت جو انھیں مشکل میں ڈال سکتی ہے وہ ان کی کسی سے ’ڈکٹیشن‘ نہ لینے کی ہے۔

سنتے تو وہ شاید سب کی ہیں لیکن ہمیشہ کرتے اپنی ہی ہیں۔ اس صورت حال میں وہ دیگر ریاستی اداروں کے لیے کتنے قابل قبول ہوں گے یہ واضح نہیں۔عمران خان کے ساتھ جڑا ایک سوال یہ بھی ہے کہ انھیں آخر سیاست کے دشت میں منزل تک پہنچنے میں اتنا وقت کیوں لگا۔ پاکستان میں تو کئی بڑے سیاستدان آنا فاناً یا تو موروثی سیاست یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے راستے اقتدار کے ایوانوں کی سیر کرنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر انھیں یہاں پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگی؟

کچھ مبصرین کے خیال میں اپنی سیاست کی ابتدائی نرسری میں وہ اعلیٰ و شاید کتابی نظریات کے قیدی رہے۔ آئیڈیلزم کے گرویدہ رہے۔ اپنے نظریات پر کسی قسم کی سودے بازی کی کوشش سے باز رہے لیکن 2013 کے عام انتخابات میں جیت کو اتنا قریب سے دیکھنے کے بعد شاید انھوں نے اس سے دوبارہ دور نہ جانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ پھر کیا تھا نظریات اور اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں میں دھیرے دھیرے نرمی دکھانا شروع کی اور آخر میں ’الیکٹیبلز‘ کو بھی اپنی صف میں لا کھڑا کیا۔ یہی سمجھوتے شاید انھیں وزیراعظم ہاؤس کی دہلیز پر لے آئے ہیں۔وہ مزید کتنا بدلتے ہیں یا نہیں اس کے لیے ہمیں زیادہ انتظار شاید نہ کرنا پڑے۔ ان کے ہنی مون پیریڈ میں ہی اس کے اشارے مل جائیں گے۔ جیتنا شاید آسان تھا لیکن عوام کی توقعات کا پہاڑ سر کرنا اب اس کھلاڑی کا اگلا ہدف ہونا چاہیے اور پنجاب کے نومنتخب وزیراعلی کو بھی اپنا عوامی انداز نہیں بلنا چاہیے اگر وہ بھی سابق خادم اعلی کی طرح پروٹوکول اور اقتدار کی غلام گردشوں میں گم ہو گئے پھر انکہ باتیں اور وعدے بھی انکے ساتھ ہی دفن ہوجائیں گے جسکا اظہار اسمبلی میں جناب معاویہ اعظم نے کیا ہے اور رہی بات قاتل اعلی کی وہ وقت ثابت کردیگا کہ قاتل اعلی کون ہے ؟

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر