پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے26جولائی کی شام جس طرح مدبرانہ اور ذمہ دارانہ خطاب کیا، اس کی مثال گزشتہ تین دہائیوں میں تو نہیں ملتی۔ان کے اس خطاب کی مد میں نا صرف پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا نے پاکستان کے ایک حقیقی اور سنجیدہ لیڈرکا چہرہ دیکھا۔انھوں نے پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہارکرتے ہوئے عام آدمی کے مسائل کو ڈسکس کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو درپیش دیگرچیلنجز دہشت گردی، کرپشن ، بیروزگاری اورمعاشی بحران جیسے بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظرواضح کیا۔ انھوں نے خصوصاًہمسایہ ممالک اور تیسری دنیا کے ساتھ خوشگوار اور پرامن تعلقات قائم کرنے کے عزائم کا بھی اظہار کیا اورپاکستانی عوام کو ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان دینے کا وعدہ کیا۔اور ایک خاص بات یہ بھی کہ انھوں نے عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد سادگی اختیارکرنے کی اخلاقی جرأت کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم آفس کو تعلیمی درسگاہ کالج یا یونیورسٹی میں تبدیل کرنے اور تمام گورنر ہاؤسز اور ریسٹ ہاؤسز کو عوامی استعمال میں لانے کا وعدہ کیا۔
عمران خان نے بطور لیڈر اپنے خطاب میں جس طرح کی ذمہ داریوں کا اظہار کیااس کے نا صرف پاکستانی عوام، پاکستانی معیشت، بلکہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ اور امریکا جیسی سپر پاور ملک کی صحت پر بھی مثبت اور خوشگواراثرات پڑے۔ چین نے عمران خان کی قیادت میں دونوں ملکوں کی دوستی کو مضبوط اور مستحکم خیال کیا اور دورۂ چین کی دعوت دی۔ سعودی عرب کے سفیرنے ان سے باقاعدہ بنی گالہ میںجا کر ملاقات کی، امریکا نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے باہمی شراکت داری کے استحکام اور ہر طرح کی ڈپلومیٹک تعاون کی یقین دہانی کرائی اور خاص بات یہ ہے کہ بھارت کے دانشوروں اور سیاسی و قانونی مبصرین نے عمران خان کے اس پہلے ہی سیاسی قدم کو مثبت اور مہذب تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذکرات بحال کرنے اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کا مشورہ دیا۔ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خان صاحب کے حلف اٹھانے سے قبل ہی داخلی و خارجی سطح پر ایک مضبوط اورمستحکم پاکستان کے خواب کی تکمیل ہوتی نظر آرہی ہے۔
مگر ابھی تک مسائل حل نہیں ہوئے،حل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ بلکہ حالیہ دنوں میں عمران خان کی حکومت کے لیے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ گردشی قرضوں کی ادائیگی اور آئی ایم ایف سے چھٹکارہ بھی پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے بیحد ضروری ہے۔جس کے لیے زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے ہوں گے۔اور زرِ مبادلہ کے ذخائر تبھی بڑھیں گے جب پاکستان میں سرمایہ آئے گا۔ سرمایہ لانے کے لیے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے مطمئن کرنا اور انھیں مکمل تحفظ دینے کی یقین دہانی کرانی ہوگی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سابقہ حکمرانوں، چوروں لٹیروں اور کرپٹ ٹولے سے لوٹی ہوئی دولت بھی واپس لا کر قومی خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ معاشی ماہرین کے مطابق نئی حکومت کو معاشی استحکام کے لیے 16ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ دہشت گردی کا خاتمہ بھی اوّلین چیلنجز میں سے ہے۔ باوجود انتخابات ہوجانے کے کئی طرح کے نئے سیاسی مسائل نے سر اٹھا لیا ہے۔
جن میں سب سے اول تو شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کا اے پی سے بلا کر حالیہ انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنا اور دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کرنا۔وفاق اور اکثریتی نشستیں حاصل کردہ صوبوں میں اپنی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ ممبران کی حمایت حاصل کرنا اور اپوزیشن کے روایتی سیاسی ہتھکنڈوں سے نپٹنا بھی تحریکِ انصاف کے لیے کھلے چیلنجز ہیں اور اوپر سے دہشت گردی کے عفریت نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔کچھ بعید نہیں کہ عمران خان ان تمام مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کر لیں مگر یہاں پر پچھلے ستر سال سے پاکستانی عوام جن مسائل میں الجھی ہوئی ہے ان کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔قیام ِ پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک کی سیاسی اشرافیہ، سرمایہ دار،جاگیردار، بیوروکریسی اور دیگر قوتوں نے ملک و قوم کو دیمک کا طرح چاٹا ہے ۔ایک عام آدمی کو آج تک یہ نہیں معلوم کہ قانون کیا ہوتا ہے؟ بنیادی انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں؟کیوں کہ ہمیشہ مقتدر قوتوں نے عوام کا استحصال کر کے انھیں پستی اور جہالت کے کنویں میں دھکیلا ہے۔
قانون کو صرف غریب آدمی کو دبانے اور اپنے فائدے کے لے استعمال کیا۔عوام کوتعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم کرکے بے دریغ اس ملک کے خزانے کو لوٹا اور اپنے فار ن اکاؤنٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ دوبئی یورپ اور امریکا میں اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے عالیشان محلات کھڑے کیے۔ اور عوام آج تک، غربت، بیروزگاری، بیماریوں،ناخوندگی، صحت و تعلیم کی سہولتوں کے فقدان اور بنیادی انسانی اور شہری حقوق کی عدم فراہمی ایسے مسائل کا شکار ہے اور ان کا حل چاہتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں عمران خان کی جیت کوئی معجزہ نہیں ہے، یہ پاکستان کے پسے ہوئے اور نچلے طبقے کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔یہ جیت ان خوابوں کی ہے جن کی تعبیر کا وعدہ عمران خان نے قوم سے کیا۔ یہ عوام کی وہ توقعات ہیں جو بہتری اور تبدیلی کی خاطر عمران خان سے سے جڑی ہوئی ہیں۔یہ ان وعدوں کی یاد دہانی ہے جو عمران خان پچھلے بائیس سال سے عوام سے کرتے آ رہے ہیں۔عوام اب ان وعدوں کی تکمیل اور اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتی ہے۔ اپنے بنیادی انسانی اور شہری حقوق چاہتی ہے۔ اپنے بچوں کے لیے صحت و تعلیم کی سہولتیں، ہسپتال، سکول کالجز، یونیورسٹیاں،روز گار ، امن اور ملک و قوم کا خون پینے والی جونکوں سے نجات چاہتی ہے۔
مگر کیا عمران خان عوام کے ان مسائل کا دراک کر چکے۔؟ کیا عمران خان خود سے اپنی حکومت ( جنھیں عوام نے نجاتِ دہندہ کے طور منتخب کیا ہے)سے وابستہ عوام کی توقعات پہ کلی طورپر پورا اتریں گے؟
کیا عمران خان کو معلوم ہے کہ بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے دورافتادہ علاقوں اور چولستان میں انسان اور جانور ایک ہی تالاب (جوہڑ) سے پانی پینے پہ مجبورہیں؟
کیا عمران خان کو معلوم ہے کہ پاکستان کے ہسپتالوں ، سکول اورکالجوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں، اگر کہیں ہیں تو صرف بااثر لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں؟
کیا عمران خان کو معلوم ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے گھر میں کھانے کا ٹیبل، چھری کانٹے، انواع و اقسام کے کھانے تو درکنار دو وقت کی روٹی تک بھی میسرہے یا نہیں ؟
اگر نہیں معلوم تو معلوم ہونا چاہیے،معلوم کرنا چاہیے۔ کیوں کہ آپ مدینہ منورہ جیسی ایک فلاحی ریاست چاہتے ہیں، جس میں اگر ایک کتا بھی بھوک اور پیاس سے مر جائے تو اس کا ذمہ دار حاکمِ وقت ہوتا ہے، جس کا اظہار آپ نے اپنے گزشتہ خطاب میں بھی کیا تھا۔
نیازی بادشاہ! اپنی ذات کے کرب سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی سچائی نہیں ہے۔اور ایک عام آدمی کا کرب جاننے کے لیے اس کی روح میں اترنا پڑتا ہے جو کہ ناممکن کی حد تک مشکل ہے۔ایک عام آدمی کی جب تھانے میں تذلیل ہوتی ہے تو اس وقت اس کے کرب کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔جب ایک سائل کے ساتھ کورٹ کچہری میں ناانصافی ہوتی ہے تو تب اس کے کرب کا احساس کوئی گوشت کا وجود نہیں کرسکتا ۔اورجب پٹوار خانے میں اس کی وراثت پہ ڈاکہ ڈالا جاتا ہے یا جب کسی فاقہ کش مزدور کے بیٹے کا کسی کالج یونیورسٹی یا کسی سرکاری ادارے میں حق مارا جاتا ہے تو اس وقت اس آدمی کا کرب شاید ہی کوئی محسوس کرتا ہو۔ جب کسی ماں کی معصوم بچی کی زندگی سرکاری ہسپتال میں موت کے بسترپر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتی ہے اور ڈاکٹر چائے سموسوں کی ٹیبل نہیں چھوڑتا ۔ جب کسی غریب دیہاڑی دار کے اکلوتے بچے کو موت اس لیے اپنے وحشی پنجوں میں دبوچ لیتی ہے کہ اس کا باپ پرائیوٹ ڈاکٹر کی بھاری فیس، مہنگی ادویہ اور غیر ضروی ٹیسٹوں کے لیے جیب میں کچھ نہیں رکھتا ، یا پھر، جب کسی غریب یا ہاری کی بیٹی کا بااثر جاگیردار، سرمایہ دار یا سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والوں کے بیٹے ریپ کرتے ہیں یا کسی ماں باپ کے نوجوان بے قصور بیٹے کا وحشیانہ قتل کیا جاتا ہے تو تب اس بد نصیب متاثرہ کے کرب کوزمین و آسمان کی وسعتوں میں سمانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور بھی بہت سے کرب ہیں جنھیں میں کاغذ پر سمیٹ نہیں سکتا۔ جنھیںپاکستان کی عوام مر مر کر سہہ رہی ہے۔
عمران خان صاحب، اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس عوام کے کرب کو سمجھتے ہیں یا نہیں اور اگر سمجھتے بھی ہیں تو مداواہ بھی کرتے ہیں یا نہیں ۔یاپھر ماضی کے حکمرانوں کی طرح اقتدار کی چکا چوند روشنیوں میں کھو جاتے ہیں، یا پھر اپنے حکومتی و سیاسی مسائل کا رونا روتے ہوئے اپنے اقتدار کی مدت پوری کر لیتے ہیں۔ مگر اللہ نا کرے کہ آپ گزشتہ حکمرانوں کی تقلید کریں۔آپ کو جرأت اور بہادری دکھانی ہوگی ۔اپنی عوام کے دکھوں کو ماپنے کے لیے ان کے کرب کو محسوس کرنے کے آپ کو اپنی عوام کی روح میں اترنا ہوگا۔ان کے مسائل کے ادراک اور ان کے خاتمے کے لیے ایک نجات دہندہ، ایک حقیقی نمائندہ ، عوام کا محافظ، عوام کا پاسبان بن کرعوام کے سامنے آنا ہو گا۔