اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سیاسی حلقوں کے نزدیک مولانا فضل الرحمن کے دھرنے نے اسٹیبلشمنٹ کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور اپوزیشن کا یہ اجتجاج فوج کو بتا رہا ہے کہ وہ عمران خان کی اندھی حمایت چھوڑ دے۔
اپوزیشن کے دھرنے میں مظاہرین وزیراعظم عمران خان کا استعفیِ لینے پر بضد نظر آئے اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل غفور کی بیان بازی پر بھی تنقید کی۔
جلسے میں جے یو آئی (ف) کے مرکزی جنرل سیکریڑی مولانا عبدالغفور حیدری نے فوج کو مخاطب کر کے کہا کہ، “سرحد پر ہمارے جوان شہید ہورہے ہیں۔ ہماری عوام شہید ہورہی ہے۔ اس پر آپ کی نظر ہونی چاہیے اور مودی کو سبق سکھانے پر آپ کی نظر ہونی چاہیے۔ آپ کی نظر افغانستان کے باڈر پر ہونی چاہیئے۔آپ یہ سب چھوڑ چھاڑ کے اپوزیشن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ادارے غیر جانبدار رہیں۔ اگر آپ غیر جانبدار رہیں گے تو پوری قوم سے عزت پائیں گے۔”
مظاہرین عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف بھر پور نعرے بازی کرتے رہے۔ پنڈال میں بار بار “گو نیازی گو” کے نعرے گونجتے رہے۔
کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے جمیعت کے رہنما مطیع اللہ کا کہنا تھا کہ، “اگر دو دن میں حکومت نے استعفیِ نہیں دیا تو پھر ہم دیکھیں گے کہ ہمارے قائدین کیا حکم دیتے ہیں۔”
جمیعت کے کارکنان نے کہا کہ ان کی کم از کم دس دن کی تیاری ہے جبکہ مذید بندوبست کیا جا رہا ہے۔ تاہم اسلام آباد میں ممکنہ بارش اور سخت سردی کی صورت میں یہ احتجاج مختصر بھی ہو سکتا ہے۔
ہزارہ سے تعلق رکھنے والے جمیعت کے ایک کارکن راج ولی شاہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر عمران خان استعفی نہیں دیتے تو وہ ڈی چوک تک جائیں گے۔
گوادر میں جمعیت کے امیر عبدالحمید انقلابی نے متنبہ کیا کہ، “اگر حکومت یا فوج نے طاقت استعمال کی تو ہم مقابلہ کریں گے۔ ہم قائدین کے حکم پر ہر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ استعفے سے کم کوئی بات نہیں ہوگی۔”
مظاہرے میں موجود جمیعت کے کارکنان ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پر برہم تھے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے حبیب کاکڑ کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو کس نے اتھارٹی دی کہ وہ سیاسی معاملات پر بیان بازی کریں۔ انہوں نے کہا کہ، “فوج پبلک سرونٹ ہے۔ وہ ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہیں۔ وہ اس بات کا حلف اٹھاتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ میرے خیال میں ڈی جی کا یہ بیان ان کے حلف کےخلاف ہے اور انتہائی نا مناسب ہے۔”
پنڈال میں اے این پی، مسلم لیگ ن، نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور جے یو پی کے کارکنان بھی نظر آئے۔
چار سدہ سے تعلق رکھنے والےاے این پی کے ایک کارکن غلام حسین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، “عمران کی وجہ سے فوج بدنام ہو رہی ہے اور اس بیان کے بعد لوگ مذید فوج پر تنقید کریں گے۔ میرے خیال میں فوج کو ان معاملات سے دور رہنا چاہیے۔”
حزب اختلاف کی جماعت کے ایک اہم رہنما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “پہلے تو فیصلہ یہی ہوا تھا کہ دھرنا نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی ڈی چوک کی طرف مارچ کیا جائے گا لیکن اب مولانا کے ارادے بدلے ہوئے لگ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس اجتجاج سے اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ عمران خان کی اندھی حمایت نہ کریں۔”
ادھر حکومت نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ رد کردیا ہے اور اطلاعات ہیں کہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کرانے پر غور ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ فوج عمران خان کو کبھی استعفی کا نہیں کہے گی اور فضل الرحمن کا احتجاج ناکام ہوگا۔
لیکن بلوچستان کے سابق وزیر اعلی ڈاکڑ عبدالمالک کا خیال ہے کہ مولانا کی ناکامی کا تاثر غلط ہے۔ “ہم نے کل دوربین سے دیکھا اور حد نظر تک لوگ ہی لوگ نظر آئے۔ کیا یہ مولانا کی کامیابی نہیں ہے کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں ان کے پیچھے کھڑی ہیں۔ اصل میں لوگ حکومت کی تباہ کن پالیسوں سے لوگ پریشان ہیں، جس کی وجہ سی مہنگائی اور بے روزگاری بڑھی ہے اور کاروبار تباہ ہوا ہے۔ اس لیے لوگ آج بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔”
حزب اختلاف کے ایک سینیٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ، “مولانا اسٹیبلشمنٹ کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ وہ پاکستانی سیاست میں اب بھی ایک فورس ہیں۔ انہوں نے اتنے لوگ جمع کر کے اسٹیبلشمنٹ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ “