مدینے کی اسلامی ریاست کے لیے ٧٢ سال سے ترستی آنکھوں والے غریب عوام نے جب عمران خان صاحب وزیر اعظم پاکستان کو عنان حکومت پر بیٹھتے دیکھا تو اُس سے اُمیدیں باندھ لی تھیں کہ انہیں اب انصاف ملے گا۔کیونکہ عمران خان صاحب ٢٣ سال سے تسلسل سے کہہ رہے تھے کہ میں اقتدار میں آکر حضرت علامہ شیخ محمد اقبال شاعر اسلام کے خواب اور حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق ،مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان مثل مدینہ ریاست کو مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست کے مطابق بنائوں گا۔ ملک میں انصاف کا بول بالا ہو گا۔ حقدار کو حق ملے گا۔ملک کو کرپشن فری کروں گا۔ غربت ختم ہو جائی گی۔ ملک میں امن آمان ہوگا۔ عمران کہتے تھے کہ ملک کا چیف اگر ایمان دار ہے تو رفتہ رفتہ نیچے والے بھی ایمان دار ہو جائیں گے۔ اس بیانیہ کو عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بننے سے آج تک اپنی تمام تقاریر میں میں بڑے عزم اورحوصلے سے دھراتے رہے ہیں۔مگر ٧٢ سال سے جن کے منہ کو کرپشن کاخون لگا ہوا ہے ان کو عمران خان آج تک درست نہیں کر سکے ۔ ان کے ارد گرد آج بھی پہلے والی سیاسی پارٹیوں کے کرپٹ اور قرضے معاف کرانے والے لوگوں کا جھمگٹا ہے۔ کرپٹ لوگوں کے حمائیتی بیروکریٹس حکومت میں اب بھی موجود ہیں۔ جنہوں نے عمران خان کو اپنے شکنجے میں جھگڑ رکھا ہے۔ سرمایہ داروں کے حماہتی بیروکریٹس نے اب عمران خان سے غریب عوام کی محنت مزدوری سے کمایا ہوئے پیسے، جو ان سے گیس کے معاملات کو درست کرنے کے لیے ٹیکس کے ذریعے وصول کیے تھے۔وہ گیس کے معاملات کو درست کرنے کی مد میں خرچ کرنے کے بجائے سرمایاداروں، جن کے پاس پہلے سے اربوں سرمایا موجود ہے کو معاف کر دیا ہے۔
غریب عوام کے٣٠٠ ارب روپے قرضے معاف کر کے ایک صدارتی آرڈینس کے ذریعے سے لوٹ لیے گئے ہیں۔اس اقدام سے ملک میں شور مچ گیا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا میں عمران خان کے پرانے بیانات کو بار بار دھرایا جا رہا ہے۔ جس میںعمران خان کہہ رہے ہیں کہ کیا غریب عوام کے پیسے جو حکومت ٹیکس کی مدد میں وصول کرتی ہے، کسی بھی معاف کرانے والے اور معاف کرنے والوں کو عمران خان کہتے تھے کہ کیا یہ پیسا تمھارے باپ کا پیسا ہے ۔جو تم معاف کروا رہے ہو یا معاف کر رہے ہو۔ اب خود اپنے ارد گرد کے سرمایا داروں کے قرضے ایک صدارتی ایکٹ نافذ کر کے معاف کر دیے ہیں۔ لوگ کہہ رہے کہ کیا یہ پیسے قرضے معاف کرانے والے یاعمران خان کے باپ کے پیسے ہیں جو سرمایا داروں کو معاف کر دیے ہیں۔ عمران خان کو اپنے پرانے بیانیہ کے مطابق ان سے یہ پیسے وصول کرنے چاہیے تھے۔
مخالفوں کے مطابق آتے ہی عمران خان نے کچھ نمائشی اقدامات کیے۔ وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنا۔ وزیر اعظم ہائوس کی بجائے خود اپنے گھر بنی گالہ میں بیٹھ کر امور حکومت چلانا۔وزیر اعظم ہائوس ، گورنرز ہائوسز اورمملکت کے دفاتر میں خرچے کم کرنا۔ گورنرز ہوئوسز کو حکومتی استعمال کے بجائے عوام کے مفاذ میں استعمال کرنا۔ ریسٹ ہائوسز کو حکومتی اہلکاروں کے استعمال کے بجائے ان کو کمر شل استعمال کرنا۔ غریب عوام کے لیے شلٹر ہائوسز بنانا۔ وزیر اعظم کابیرونی دوروںکے لیے جہاز چارٹیڈ کرنے کے بجائے عام فلائٹ میں سفر کرنا۔ مگرکیا ان اقدامات سے عوام کو کچھ فاہدہ ہوا ہے۔نہیں قطاً نہیں۔ بلکہ عوام پہلے سے زیادہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔پٹرول اور گیس مہنگی ہو گئی۔ عمران کیں کے کچھ اقدامات کا مذاق بھی اُڑایا جاتا ہے۔ مثلاً وزیر اعظم ہائوس میں رکھی بھینسوں کی نیلامی، مرغیان انڈے ، کٹے پالنا۔ لوگ کہتے ہیں عمران خان صاحب ان اقدامات سے ملک ترقی نہیں کرتے یہ تو صرف ٹوٹکے ہیں جو تم نے چھوڑے ہیں۔ عمران خان ملک کی بند انڈسٹری کو چلانے کے اقدامات کرو۔ملک کی واحد اسٹیل ملز کو دوبارا سے فعال کرو۔ملک میں بند کاٹن انڈسٹریل یونٹ کو پھر بحال کرو۔ ایکپورٹ بڑھا ہو ۔ باہر سے سرمایا لانے کے اقدامات کرو۔تب ملک ترقی کرے گا۔
عمران خان اپنے الیکشن میں عوام سے کہتے رہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی ٣٠ سال سے اپنی اپنی باریاں پوری کرتی رہیں۔ میثاق جمہوریت نہیں، میثاق کرپش پر ایک دوسرے کی کرپشن چھپائی ۔ میں اقتدار میں آکر ان سے کرپشن کا ایک ایک پیسا نکلوائوں گا۔ ملک کے بیروکریٹس ان دونوں پارٹیوں سے ملے ہوئے ہیں۔گو کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے بھی آف شورکمپنی کیس میں ریمارکس دیے تھے کہ حکومتی اہل کاروں کی سمت صحیح نہیں۔ سفارشی بھرتی کیے ہوئے حکومتی اہلکار کرپٹ لوگوںکے خلاف کوئی بھی کاروائی نہیں ہونے دیتے۔پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹ کمیٹی نے بھی کرپشن پکڑنے والے اداروں کے سربرائوں کو بلایا تو پہلے تو وہ آنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے۔ جب تنگ آ کر قانونی نوٹس جاری کیے گئے تو پھر تشریف لائے۔ معلوم کرنے پر بیان دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ملک میںرفتہ رفتہ پہلے سے زیادہ بد حالی ، بے روز گاری اور مہنگائی ہو گئی ہے۔ کہاوت ہے نا کہ”پیٹ نہ پیاں روٹیاں تے ساری گلاں کھوٹایاں” کیاعوام کی قسمت میں
٢ وہی پہلے والی، بلکہ اُس سے بھی زیادہ لکھی ہوئی ہے؟عمران خان کی سیاسی پارٹی کا نام ہی تحریک انصاف ہے، یعنی عوام کو انصاف مہیا کرنے والی پارٹی۔عمران خان نے اپنے سیاسی بیانات میں کرپشن سے پاک پاکستان کا بیانیہ عوام میں عام کیا تھا۔ اِسی بیانیے کو تحریک انصاف کے منشور میں شامل کیا۔ آتے ہی پہلے دور میں رجسٹرڈ کیے گئے میگا کرپشن کے مقدمات، جن کی سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی لسٹ مانگی تھی، نیب کی طرف سے کھولے گئے۔جن میں نواز شریف صاحب،مریم صفدر صاحبہ اور داماد کیپٹن صفدر صاحب کو سزا ہوئی۔ مریم صفدر صاحبہ ضمانت پر ہیں اور نیب نے ایک نئے مقدمے میں تفتیش کے لیے گرفتار بھی کیا ہوا ہے۔ اس طرح نون لیگ کے شہباز شریف،حمزا شہباز اور دوسرے لیڈر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زداری صاحب ان کی بہن فریا ل تالپور صاحبہ اور ان کے دوسرے ساتھی بھی گرفتار ہیں۔ مگر عوام کہتے ہیں ان کو سزا اور گرفتاریوں سے ہمیں کیا فاہدا ہوا۔ عمران خان کی حمایئیوں میں کمی آئی ہے۔الیکٹرونک میڈیا والے سرمایاداروں کے قرضے معاف کرنے کے خلاف پروگرام کر رہے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ عمران خان صاحب بیروکریٹس کے شکنجے سے باہر نکل کر اس صدارتی ایکٹ کو منسوخ کرنے کا اعلان کرو۔ ورنہ مکافات عمل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جائو۔ غریب عوام اب اعلانات پر یقین نہیں کریں گے بلکہ آپ کی حکومت گرانے والوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائے گی۔