سات برس پیچھے جائوں تو ایک دھندلی سی تصویر بنتی ہے کل بھی عمران خان بھی اسی طرح پر عزم تھا ،آج بھی اسی طرح پر عزم دکھائی دیتا ہے۔یہ2007 کی بات ہو گی جب ان سطور کا لکھنے والا ابھی بچپن سے لڑکپن کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ انھی دنوں ایک کارکن کی طرف سے کپتان کو دعوت دی گئی یہ ان دنوں کی بات ہے جب کپتان کے آگے پیچھے سینکڑوں گاڑیوں کے قافلے نہیں ہوا کرتے تھے،قصہ مختصر یہ کہ شام کے سائے جب گہرے ہونے لگے تو کپتان کے چاہنے والوں کا انتظار بڑھنے لگا تھا،لیکن اس محلے میں کچھ خاص گہما گہمی نہ تھی سب کچھ معمول کے مطابق تھا پھر بتاتا چلوں ”یہ ان دنوں” کی گردان اس لیے بھی ضروری ہے
آج کے نوجوانوں کویہ بات بڑی ناگوار گزرے گی کہ پاکستان میں کہیں ایسا بھی ہوا ہو گا کہ ان کا کپتان کا کہیں سے گزر ہو اور وہاں اس کے چاہنے والوں کا سمندر نہ ہو پھر وہیں سے بات شروع کروں تو کپتان فیروزپوروڈ کے اس مڈل کلاس محلے میں آیا کارکنان تھے یا اس کے کرکٹ کے فین اپنی استطاعت کے مطابق کپتان کا استقبال کیا گیا،پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں جس کا بلاشبہ وہ حقدار بھی تھا۔۔ان سطور کو لکھنے والا بھی ان دنوں کپتان کے مداحین میں شامل تھا۔۔سو قافلے کی صورت میں کپتان کو پنڈال کی طرف لے جایا گیا کپتان بولنے کے لیے تیار تھا،مگر سامعین سننے کے لیے نہیں،سننے والے بمشکل ستر کے قریب ہوں گے۔۔۔
کپتان بولتا جارہا تھا لیکن سننے والوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی سوائے اس کہ ایک کرکٹ کا کھلاڑی جس کی قیادت میں پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کی فاتح بنی تھی وہ ان کے سامنے ہے۔۔کپتان کی تقریر میں رکاوٹ سامعین خود تھے۔۔۔یہ وقت ،وقت کا کھیل ہے یہی کپتان اب لاکھوں کے جلسے کو ایک اشارے سے خاموش کروانے کی طاقت رکھتا ہے، لیکن اس شام کپتان بے بس نظر آیا تھا۔۔ذہن پر زور دوں تو چند باتیں یاد آتی ہیں جیسے کپتان نے کہا ”میں نے پرتعیش،آرام دہ زندگی چھوڑ کر اس سخت میدان یعنی سیاست کا میدان آپ کے مسائل حل کرنے کے لیے چنا ہے۔
Pakistan
میں نے پوری دنیا دیکھی ہے اللہ تعالی نے میری ہر خواہش پوری کی ہے اب خواہش ہے کہ پاکستان کی تقدیر بدل دوں۔میرے پاس دولت،عزت اور شہرت کی کمی نہیں۔۔ کپتان کی تقریر کے بعد اس سے مصافحہ کرنے والوں کی تعداد کچھ زیادہ نہ تھی سو ان سطور کے لکھنے والے نے بھی ہمت کر کے کپتان سے مصافحہ کیا یہ کپتان سے پہلی ملاقات تھی اس کے بعد مختلف جلسوں میں صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کپتان کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا مگر اب سیکورٹی اور خوشامدیوں کا ہجوم دیکھ کر ارداہ ترک کر لیتا ہوں۔آج تقریبا سات برس کے بعد کپتان ایک موثر پارٹی اور ایک سوئی ہوئی قوم کا لیڈر بن چکا ہے۔۔
کل کے کپتان اور آج کے کپتان میں واضح فرق طاقت کا ہے۔آج کا کپتان قدرے بالغ قائد جس کے پاس عوام کی طاقت ہے،آج اسے لوگ اسے دیکھنا بھی چاہتے ہیں اس کی گفتگو بھی سننا چاہتے ہیں۔۔بزرگ بتاتے ہیں اگر ذولفقار علی بھٹو کے بعد عوام کسی لیڈر کے دیوانے ہوتے نظر آرہے ہیں تو وہ کپتان ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہہے جب وہ طالبعلموں سے خطاب کر رہا تھا اپنی بات کے دوران قرآن اور اقبال کو نظر انداز وہ کر ہی نہیں سکتا اس کا مخاطب ہونے کا انداز اس کے وسیع مطالعے اور ویڑن کے گواہ ہیں۔۔ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے وہ عوام کا حوصلہ بڑھا رہا ہے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے وہ لوگوں کو اکسا رہا ہے
جو بات زبانوں پر لوگ لانے سے ڈرتے تھے آج اسی کی بدولت وہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں کپتان سے لاکھ اختلاف کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں ۔وہ جو کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے،طریقہ کار سے اختلاف مگر ہو سکتا ہے۔کہتا ہے ان سب کی جائیدادیں بیرون ملک ہیں یہ لوگ دہری شہریت رکھتے ہیں،کہتا ہے وزارت عظمی کا خواہش مند ہوتا تو پینٹا گون کے طواف کرتا اس کے سچا ہونے کے دلیل اس سے بڑھ کر کیا ہے کہ کڑوا سچ وہ بڑی دلیری سے کہہ جاتا ہے ۔ایک شاندار ہسپتا ل اور یونیورسٹی کی صورت میں اس کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس کی جدوجہد پر نظر ڈالتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ کتنے برسوں سے وہ ان کٹھن راہداریوں میں روشنی کی تلاش کر رہا ہے لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا مگرکوشش ابھی بھی اس کی جاری ہے۔۔ابھی بہت سی مشکلات ہیں اگر یہی خلوص اورپختہ ارادہ اس کے ساتھی رہے تو وہ وقت دور نہیں جب وہ اپنی منزل پالے گا۔۔۔کسی نے کہا ہارن آہستہ بجائیں یہ قوم سو رہی ہے،مگر کپتان کی ہمت کو داد جو مسلسل اس قوم کو جگانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔سچ پوچھیں تو کہیں دور سے ایک صدا سنائی دیتی ہے عمران خان نے ناممکن کو ممکن کردیا۔۔۔