تحریر : انجینئر افتخار چودھری NOW OR NEVERیہ جملہ تو چودھری رحمت علی کا ہے۔لیکن آج کی پریس کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ١٩٣٣ میں دنیا کے سب سے پہلے پاکستانی کا کہا گیا یہ جملہ اب عمران خان کی آواز بن چکا ہے۔عمران خان کو جب فرش کے سب خدائوں سے لڑتے جھگڑتے دیکھتا ہوں تو مجھے چودھری رحمت علی یاد آ جاتے ہیں۔انہوں نے ایک پمفلٹ ١٩٣٣ میں لکھا جس میں انہوں نے کہا اسلامیان ہند اب اٹھ کھڑے ہوں یہی وقت ہے کہ وہ اپنے لئے ایک دیس مانگیں۔تاریخ ہے کیا اس میں وسوسے الجھنیں ہیں ضیاء شاہد بھی مجیب شامی اور خوشنود علی خان سب مانتے اور جانتے ہیں کہ کہ تحریک پاکستان کا اولین داعی کون تھا؟لیکن مدتوں سے اس قوم کو پڑھایا گیا کہ دو قومی نظرئے کے خالق علامہ محمد اقبال ہیں ان کی عظمت یہ تھوڑی ہے کہ وہ مسلم نشاط ثانیہ کے خواب دیکھنے والے تھے۔
چودھری رحمت علی تو بیسویں صدی کے اوائل سے شور کر رہے تھے کہ مسلمان نہیں رہ سکتے ہندوئوں کے ساتھ۔انہوں نے شمالی ہند بشمول کشمیر ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا اور ایسے انداز میں اسے آگے لے کر بڑھے کہ جب علامہ اقبال سے کرنل تھامسن اور مولوی راغب حسن نے استفسار کیا تو ان کا بھی جواب تھا کہ یہ تصور کیمرج سے آیا ہے اور چودھری رحمت علی اس کے خالق ہیں۔پاکستان بن گیا مگر اس خالق نظریہ و لفظ پاکستان کے ساتھ سب کی لڑائی شروع ہو گئی سردار بہادر خان ایوب خان کے بھائی تھے وہ کہا کرتے تھے ہر شاخ پے الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
شاخ کے مکینوں میں کس کس کی بات کریں جن سے چودھری رحمت علی نہیں لڑے۔ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ قائد اعظم کی ایمبولینس پانچ گھنٹے خراب کھڑی رہی قوم کا معمار قتل کر دیا گیا اور کسی ا یک پر ہی بس نہیں ہوئی مصدقہ اطلاعات کہتی ہیں کہ ان کے بعد لیاقت علی خان کو بھی ایک موذی شخص نے قتل کروایا جو ایک نبی کاذب کا ماننے والا تھا۔ جس وقت چودھری رحمت علی نے الگ مسلم سٹیٹ کی بات کی اس سمے بر صغیر میں ہندو مسلم اتحاد کی باتیں ہو رہی تھیں۔ چودھری رحمت علی کے بارے میں پاکستان کی اسمبلی میں صرف ذوالفقار علی بھٹو نے آواز اٹھائی اور انہوں نے قائد اعظم اقبال اور چودھری رحمت علی کے پاکستان کی بات کی۔وہ ایک درویش صفت مسلامن تھے انہوں نے کشمیر کے بارے میں کہا کہ دریائوں کے سوتے پاکستان کو ملنے چاہئیں ورنہ ہندوستان کسی بھی سمے پاکستان کو بے آب و گیا ریگزاروں میں بدل دے گا۔انہوں نے اپنی سیکریٹری اور ٹائپ رائٹر سے پاکستان کی جنگ لڑی۔
Choudhary Rahmat Ali
١٩٤٠ میں جب قراردا لاہور منظور ہوئی تو ہندو پریس نے اسے چودھری رحمت علی کے پاکستان سے منسوب کیا۔یہ کیا وجہ ہے شیخ رشید،حمید نظامی،مجیب شامی،الطاف حسین قریشی،خوشنود علی خان اور دور حاضر کے باخبر صحافی تزئین اختر،روء ف طاہر انہیں تحریک پاکستان کے اولین قائدین میں شمار کرتے ہیں۔ مگر حکومت ان کے جسد خاکی کو پاکستان نہیں لاتی۔سابق گورنر سجاد حسین قریشی تو ان کی قبر پر حاضری دینے بھی گئے۔ان کا قصور یہ تھا کہ وہ سچے تھے اور دھن کے پکے تھے شائد یہی قصور عمران خان کا ہے۔آج میں بھی پریس بریفنگ میں تھا جس وقت انہوں نے کہا کہ پرویز رشید مجھے غائب کرنے کی دھمکی دے رہے تھے میں بھی ٢ نومبر کو دیکھ لوں گا۔سچ پوچھیں میں کانپ کے رہ گیا کہ ایک ایسا شخص جو اداروں پر ایمان کی حد تک یقین رکھتا تھا اسے بھی مجبور کر دیا گیا کہ وہ ننگ دھڑنگ سامنے آ گیا اور حکومت کو چیلینج کرنے لگا۔
ویسے اس نے مانگا ہی کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مال لوٹا گیا ہے لوٹنے والے تلاشی دیں تلاشی نہیں دینی تو ملک کی جان چھوڑیں۔کسی کو غلط فہمی ہے کہ وہ اسے روک لیں گے۔جعلی اپوزیشن جتنا مرضی چہک لے اسے پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔منگل کے روز ٢ نومبر کو دن ٢ بجے اسلام آباد بند ہو گا۔اس نے یہ بھی بتایا کہ پلان بی بھی ہے اور اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ہم آخری حد تک جائیں گے۔وقت حاضر کے اس چودھری رحمت علی نے مانگا ہی کیا ہے؟کیا پانامہ لیکس کے نتیجے میں آئیس لینڈ کے وزیر اعظم مستعفی نہیں ہوئے؟کیا برطانوی وزیر اعظم نے اسمبلی کے فلور پر آ کر حساب کتاب پیش نہیں کیا؟اگر کیا ہے تو وزیر اعظم کو کون سی چیز منع کر رہی ہے؟اس نے کتنی سچی بات کی ہے کہ جو نواز شریف کے ساتھ ہے وہ چور ہے۔اس کے مخالفین اپنے منہ میں یہ کہہ کر خاک بھرتے ہیں کہ دھرنوں میں عورتیں ڈانس کرتی ہیں میں حیران ہوں کہ کسی بھی جگہ خوشی منانے کے انداز اور ناچنے گانے میں جو فرق ہوتا ہے اسے سمجھا جائے۔
جب بھی کہا جاتا ہے تم نے فوج کی توہین جواب آتا ہے دھرنے میں ناچتے ہو؟کبھی سوال کریں کہ پانامہ کا مال واپس لائو دھرنے میں ناچتے ہو کی بات کی جاتی ہے۔نواز شریف کی یہ خصلت ہے کہ وہ خود کسی کے خلاف بات نہیں کرتا اس کے لئے دس بارہ پال لیتا ہے اور جس کو پکڑنا ہوتا ہے تئو کہہ کر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔کوشش تو ہوتی ہے کہ بھنبوڑ لیں مگر اللہ ہے ناں۔شیخ رشید نے جواب دیا تھا آپ کام جاری رکھیں ہم گزر جائیں گے۔ غلط سہی لیکن قوم کا مال شیر مادر سمجھ کر پی جانے والوں نے اس ملک کو کیا سمجھ رکھا ہے۔عمران خان اکیلا تو ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ اس کے چاہنے والوں کی لمبی قطار بتا رہی ہے کہ اس کا نعرہ ء مستانہ چودھری رحمت علی کا NOW OR NEVERہے جس طرح اللہ نے انہیں کامیابی دی ہے عمران خان کو بھی ملے گی ۔انشاء اللہ( جنہیں عمران خان کی اس کال پر کوئی تکلیف ہے تو وہ قائد اعظم کی ١٩٤٦ کی ڈائریکٹ ایکشن کال دیکھ لیں)۔