عدل کا لغوی معنی حقدار کو اس کا مکمل حق تفویض کرنا ہے اس طرح کہ نہ اسکے حق میں کمی ہو اور نہ ہی زیادتی۔ عدل کی بنیاد اس دن رکھی گئی جس دن اللہ کے رسول ۖ نے عالم کائنات کے سامنے اعلان نبوت کیا۔ جیسے ہی لوگوں کو اللہ کی توحید کا درس دینا شروع کیا تو ساتھ میں ہی عدل کا بھی حکم ارشاد فرمایا قران مجید نے بھی جا بجا انصاف کی تعلیم کا درس دیا اور بے انصافی کی مذمت کی۔ اب ہر شخص اپنے حق کے حصول کے لئے انصاف کا متلاشی ہوتا ہے اس لئے ہر ملک کی حکومت نے الگ الگ انصاف کی فراہمی کرنے والے ادارے بنائے ہو ئے ہیں جیسے پولیس وغیرہ مگر اعلی فیصلے جو کرتی ہیں وہ عدالتیں کہلاتی ہیںان عدالتوں کو آجکل کے باشعور دور میں کورٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے یہ عدالتیں مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں کچھ تو ان میں سے نیچلی سطح کی ہوتی ہے جیسے لیبر کورٹ وغیرہ ہو گئی اور کچھ اعلی سطح کی جیسے ہائی کورٹ وغیرہ۔ سب سے بڑی عدالت کا نام سپریم کورٹ آف پاکستان اور اسکے سب سے اعلی عہدے پہ فائز ہو نے والے شخص کو چیف جسٹس آف پاکستان کہا جاتا ہے۔
اس نشست پہ جلوہ افروز ہونے والے کئی اشخاص گزرے ہیں ان ہی میں سے ایک افتحار حسین ہیں یہ ملک پاکستان کے وہ چیف جسٹس ہیں جو کہ اسم بامسمہ ہیں۔ جو بلا مبالغہ ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے حتی الوسع انصاف کی بالا دستی قائم کرنے کے جہد مسلسل کی۔ جس چیز کو اچھا سمجھا اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ جس کو درست نہ سمجھا اس کے خلاف فیصلہ دینے میں کبھی گریز نہ کیا۔ ویسے تو ان کے کئے گئے فیصلے صدیوں یاد رکھیں جائیں گے مگر کچھ بہت ہی اہم فیصلے بھی انہوں نے کئے جو کہ تاریخ سنہری حروف سے تحریر کی جانے والی کتب کا اک سنہری باب ہو ں گی۔
ان میں سے ایک اپنے حق کے لئے صداء احتجاج کا بلند کرنا ہے جو انہوں پرویزمشرف کے دور میں اپنے حقوق کے لئے کی۔ اور اپنے حق کے لئے مشرف حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہیے جب کہ اس دور میں اپنے اپنے کو شیر و بہادر کہنے والے معاہدوں کے تحت ملک چھوڑ کر پاکستان سے باہر آرام وآرائش کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی اور عوام کو ان کے حال پہ چھوڑ کے باہر مزے کرتے رہے۔ مگر یہ شخص اپنے حقوق کے لئے جما رہا۔ یہاں تک کہ محترمہ بے نظیر کو بھی کہنا پڑھا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان کو ان کے عہدے پہ بحال کر کے ان کی رہائش گاہ پہ قومی پرچم لہرائیں گے مگر جیسے ہی محترمہ اس دنیا سے رخصت ہوئی تو اب ان کے جانشین نے واضح انداز میں کہا کہ ہمیں لوگوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کے لئے ووٹ نہیں دئے بلکہ عوام نے تو ہمیں اپنے مسائل کے حل کے لئے ووٹ دیا ہے عوام نے ہمیں روٹی کپڑا اور مکان کے لئے ووٹ دیا ہے۔
مگر افتحار محمد چوہدری کے عزم و حوصلے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی انہوں نے اپنی جہد مسلسل کو جاری رکھا یہاں تک وہ شخص جس نے مفاہمت کے نام پہ سب کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے مفادات کا حصول کیا۔ یہاں تک کہ جس نے اپنے زبان سے کہے گئی قاتل لیگ کو حریف اقتدار بنا کر اس ہی قاتل لیگ کو نائب وزیر اعظم کا عہدہ تک دے دیا تا کہ وہ اس اقتدار میں رہنے کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی تحریک ن چلائیں مگر افتخار محمد چوہدری اپنے عزم و ارادے پہ ڈٹے رہے پھر اللہ تعالی نے انہیں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا اور ان کی محنت رنگ لائی پھر وہ اپنے عہدے پہ بحال ہوئے تو اس کے بعد انہوں نے جو فیصلے کئے وہ ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں جب تک وہ اپنے عہدے پہ متمکن تھے ان کے ہر فیصلے کو من وعن تسلیم کیا جاتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے وہ کام کئے جو دور اسلاف میں قاضی کیا کرتے تھے انہوں نے دو وزاء اعظم کے خلاف فیصلہ دے کر ان کو بھی نہیں بخشا جس سے عوام کو انہوں نے یہ تاثر دیا گویا کہ ہر حکمران حساس رہیں اور عوامی خدمات کے لئے کام کرے ایسا نہ ہو کہ وہ عوام کے خلاف فیصلہ کرے تو اس کی عوامی خدمت سے ہی ہاتھ دھونا پڑھے۔
Iftikhar Mohammad Chaudhry
جیسے ہی ان وزاء کے خلاف فیصلہ آیا تو ملک کے وزیر اعظم نے پاکستان کی حکومت کو ہی چھوڑنے میں عافیت سمجھی مگر جیسے ہی چیف جسٹس آف پاکستان اپنے عہدے کو خیر آباد کہہ چکے تو ان کے بارے میں چیمگوئیاں شروع ہو گئی ہیں شاہد کی اس کی وجہ جسٹس صاحب کا مستقبل کا پلان ان کے ملحوظ نظر ہو۔ جیسے کہ یہ اس ملک کی ریت ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی بھی میدان میں کسی بھی طرح فیمس ہو جائے تو سیاست میں ضرور حصہ لیتا ہے خواہ وہ کوئی عالم ہو یا جاہل فنکار ہو یا اداکار سائنس دان ہو یا کرکٹر۔ جیسے کہ قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی جو کہ ایک عالم دین کی حیثیت سے جانے و پہچانے جاتے تھے تو انہوں نے سیاست کو یہ شرف بخشا کہ اپنے وجود کو بھی سیاست سے منسلک کر لیا۔ اور وہ کئی دفعہ اسمبلی و سینٹ کو اپنے وجود مسعود سے مستفیض بھی کیا۔
اس ہی طرح عمران خان نے ولڈکپ جیت کہ پوری دنیا میں اور بالخصوص پاکستان میں شہرت پائی تو وہ بھی نہ صرف سیاست کے دلدادہ ہوئے بلکہ ان کی قائم کردہ جماعت ملک پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بھی بن کر منظر عام پہ آچکی ہے اس کی کئی اور بھی امثلہ موجود ہیں۔ جیسے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یا پرویز مشرف کو ہی لیں لیں کہ یہ تو فوج کے سربراہ تھے لیکن جب انکو شہرت ملی تو اتنا عرصہ اقتدار کرنے کے بعد آج بھی یہ سیاست میں اپنے قد بڑھانے کے لئے تگ و دو کر رہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ افتخار حسین جسٹس آف پاکستان اب سیاست میں حصہ لیں لیں اور میرے خیال میں یہ حقیقت بھی ہے اس کے وقوع پذیر ہو نے کا اغلب یقین بھی ہے۔
مگر چہ مہگوئیاں اپنی جگہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام کے دل میں افتخار محمد چوہدری کے لئے بہت ہمدردیاں ہیں اگرچہ بابر اعوان صاحب کا یہ کہنا ہو سکتا ہے کہ بجا بھی ہو۔ کہ چیف جسٹس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے انہوں نے حدود کو پار کیا ہے مگر جناب اعلی میں عرض کرتا چلو کہ ہم عوام کو نہیں معلوم کے کیا چیف جسٹس آف پاکستان کے کیا اختیارات ہیں یا کیا نہیں۔ کیونکہ انہیںں تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ ہمارا ووٹ کہاں ہیں کیوں کہ انہوں نے ووٹ دینا نہیں اور نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جس دن یہ ووٹ دینے جائیں گے اس دن ان کے گھر کا کیا بنے گا اس کے اخراجات کون چلائیں گا ہم تو غیر سیاسی لوگ ہیں ہمیں نہ جمہوریت سے کوئی غرض ہیں اور نہ آ مریت سے۔ اگر کوئی آمر ایسا آ جا تا ہے جو عام عوام کو اشیاء خورد و نوش سستی دیتا ہے تو یقینا وہ آمریت عوام کے لئے اس جمہوریت سے بہتر ہے جس میں غریب کا خون چوسا جا رہا ہو۔
جناب اعلی اگر انہوں نے اپنے اختیارت سے تجاوز کیا تو کیا ہوا یہ تو ہوا نہ کہ انہوں نے اس ملک پاکستان کی عوام کو گیس پہ ناجائز نفع کو رکوا دیا انہوں نے (سی این جی ) کی مد میں لاکھوں و کروڑوں روپے کا فائدہ عوام کو بلاواسطہ پہنچایا۔ اب عوام کو کچھ نہیں معلوم کہ انہوں نے حدود میں رہ کر کیایا حدود سے باہر نکل کر۔ پر عوام خوش ہیں کہ انہوں نے یہ کام کر کے عوام کو فائدہ پہنچایا اگر جناب بابر اعوان صاحب آپ کو برا نہ لگے تو ہم جیسے غیر سیاسی لوگوں پہ رحم کریں جنہیں آپ کے زیر حکومت صوبہ سندھ میں رہائش پذیر ہونے کا شرف حاصل ہیں آپ کوئی ایسا پلان بنائیں تا کہ ہم جیسے ہمارے غریب بھائیوں کو بھی کوئی ریلیف مل سکے۔
اب جناب ہمارے تبصرت و گفتگو سے کوئی بھی نقصان چیف جسٹس آف پاکستان کی ذات کو نہیں پہنچ سکتا۔ درحقیقت ان کا دور ایک سنہری دور تھا عدلیہ کا وقار بحال ہوا اور پاکستانی عدلیہ پورے دنیا میں سرخرو ہوئی۔ ان کا ایک اور سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے آخری دن بھی کیس کی سماعت کی گویا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو میرا آخری دن ہے میں اس کی تنخواہ ڈیوٹی دے کے وصول کرنا چاہتا ہوں یقینا یہ احسن قدم ہے جس سے عوام کی نظروں میں ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی ہے اگر اسطرح کے لوگ سیاست میں آئیں اور ملک پاکستان کی ترقی و تعمیر میں اپنے شب و روز بسر کریں نہ صرف ہم ترقی کی راہ پہ گامزن ہو سکتے ہیں بلکہ دنیا ہم کو اپنا آئیڈیل سمجھ کر ہماری اقتداء بھی کر سکتی ہے۔
اور اگر ہم غور کریں اور تاریخ کا مطالعہ کریں تو یقینا دور اسلاف میںبھی قاضی غریب و امیر کا لحاظ کا خیال کئے بغیر فیصلہ دیا کرتے تھے یہاں تک کہ جو بادشاہ وقت ہوتا جس کو اس دور میں خلیفہ کہا جاتا تھا اور وہ قاضی بھی اس ہی خلیفہ کا مقرر کیا ہوتا تھا پھر بھی اگر فیصلہ بادشاہ وقت کے خلاف آتا تو قاضی صاحب ان کے خلاف فیصلہ دینے سے دریغ نہ کرتے جیسا کہ خلیفہ منصور نے ایک دفعہ بصرہ کے قاضی سوار بن عبداللہ کو لکھا کہ نگران اصطبل اور ایک تاجر کے مابین جو زمین کا جھگڑا ہے اس میں غور خوض کرو اور فیصلہ اصطبل کے نگران کے حق میں دو چیف جسٹس آف بصرہ نے لکھا کہ گواہیوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ زمین تاجر کی ہے۔ بادشاہ نے سختی سے حکم دیتا رہا بلآخر قاضی وقت نے اپنا حتمی فیصلہ دیا کہ اللہ کی قسم میں تاجر کے حق میں ہی فیصلہ دوں گا۔
اگر دور حاضر ہو تا تو ہم کہتے کہ چیف جسٹس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے مگر منصور نے یہ سن کر کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے زمین کو عدل کا گہوارہ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے وقت کا قاضی بھی مجھ سے لڑتا ہے۔ جو چیف جسٹس ہے اس کو یہ اختیار ہے کہ وہ ہر مظلوم کی داد رسی کرے اگرچہ کہ ظالم بادشاہ وقت ہی کیوں نہ ہو ۔ اگر چیف جسٹس نے کوئی فیصلہ دیا ہے تو یقینا وہ عوام کے مفاد میں دیا ہے اگر کوئی فیصلہ عوام کے مفاد میں دیا جائے تو یقینا وہ چیف صاحب کااختیار ہے۔ تمام پاکستانی عہدوں پہ فائز لوگوں کو چاہیں کہ وہ چیف جسٹس کی پیروی کرتے ہوئے ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کے لئے قدم بڑھائیں اور عزم مصمم اور حوصلے سے آگے بڑھیں۔