کیا عمران خان نے کمیشن کی تشکیل سے مایوس ہو کر نیب سے امیدیں وابستہ کر لیں

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : سید توقیر حسین
کیا عمران خان اب پاناما لیکس پر کمیشن کی تشکیل میں زیادہ سنجیدہ نہیں رہے؟ اگر آپ کو یہ ”مفروضہ” حیران کن لگتا ہے تو بنوں کے جلسے میں ان کے خطاب کو غور سے سن لیں، اگر سننے کی سہولت نہیں تو پڑھ لیں، اس کو پڑھنے کے بعد اگر آپ مختلف نتیجے پر پہنچیں تو آپ کے من کی موج ہے، لیکن جب عمران خان یہ کہتے ہیں کمیشن کی تشکیل میں دیر ہو جائے گی، نیب کیوں کارروائی نہیں کرتا تو اس سے مختلف نتیجہ نہیں نکلتا۔ آپ کو یاد ہوگا وزیراعظم نوازشریف نے پاناما پیپرز کا معاملہ منظر عام پر آتے ہی سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا جسے تحریک انصاف اور اپوزیشن نے وقت ضائع کئے بغیر مسترد کردیا اور مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایاجائے، وزیراعظم اس دوران برطانیہ جاچکے تھے۔

ان کی غیر حاضری میں یہ مطالبہ زیادہ اونچے سروں میں کیا جاتا رہا۔ فرانزک ٹیسٹ کے مطالبے بھی باربار ہوئے، واپس آکر وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میں اپوزیشن کا یہ مطالبہ مان لیا اور چیف جسٹس کو خط لکھ دیا کہ وہ کمیشن بنا دیں ساتھ ہی شرائط کار بھی بھیج دی گئیں، اس دوران چیف جسٹس کو غیر ملکی دورے پر ترکی جانا پڑا، اب انہیں واپس آئے ہوئے بھی ایک عشرے سے زیادہ گزر چکا ہے لیکن کمیشن انہوں نے ابھی تک نہیں بنایا، وجہ اس کی غالباً یہ ہوسکتی ہے کہ اس عرصے میں اتنی گرد اڑا دی گئی ہے کہ اس میں چیزیں صاف نظر نہیں آتیں اس لئے اغلب امکان ہے کہ چیف جسٹس نے بھی سوچا ہوگا کہ پہلے منظر صاف ہو جائے’ اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں۔ اب نظریں ان کے فیصلے پر ہیں لیکن عمران خان چونکہ جلدی میں ہوتے ہیں اس لئے انہیں نظر آگیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں دیر ہو جائے گی اس لئے نیب کو کارروائی کرنی چاہئے۔

Najam Sethi

Najam Sethi

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عمران خان نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل سے کم کسی بات پر رضامند نہ ہونے کا اعلان کیا تھا اس وقت نیب کہیں گیا ہوا تھا؟ یاد رہے کہ یہ وہی نیب ہے جس کی کارکردگی پر انہوں نے ہمیشہ نکتہ چینی کی اور نیب کے موجودہ سربراہ قمر الزمان چودھری کے تو وہ اس حد تک خلاف تھے کہ جب 2013 کے الیکشن سے پہلے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی نے انہیں صوبے کا چیف سیکرٹری لگانا چاہا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی، چنانچہ نجم سیٹھی نے اپنا ارادہ منسوخ کردیا، اب اللہ جانے قمرالزمان چودھری کو کون سے سرخاب کے پر لگ گئے ہیں جس سے عمران خان بھی متاثر ہوگئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نیب اس کی تفتیش شروع کردے۔

دنیا کے بہت سے ملکوں میں سیاست دان درجہ بدرجہ آگے بڑھتے ہیں مثلاً امریکہ میں سینیٹر یا ریاستوں کے گورنر عام طور پر صدارتی امیدوار بنتے ہیں اور صدر منتخب بھی ہو جاتے ہیں مثلاً اوباما صدر بننے سے پہلے سینیٹر تھے۔ ان سے پہلے صدر بش گورنر رہ چکے تھے، اسی طرح کلنٹن بھی صدر بننے سے پہلے گورنر تھے، موجودہ صدارتی دوڑ میں شریک ہیلری کلنٹن سینیٹر اور وزیر خارجہ رہ چکی ہیں۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان پہلے وزیراعظم اور اس سے بھی پہلے استنبول کے میئر تھے۔ اسی طرح ایران کے سابق صدر محمود احمدی نڑاد آٹھ سال تک صدر رہنے سے پہلے تہران کے میئر رہے، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے صوبے میں وزیراعلیٰ تھے اور بطور وزیراعلیٰ اپنی کارکردگی کی بنیاد ہی پر انہوں نے اپنی پارٹی سے یہ طے کرالیا تھا کہ وہ بی جے پی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ وزیراعظم انہیں بنایا جائے، پارٹی نے ان کی یہ شرط قبول کرلی تھی۔ پاکستان میں اگرچہ دیکھا جائے تو نوازشریف پنجاب میں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تھے، لیکن ایم ایم اے کی حکومت نے صوبے سے بڑھ کر وفاق میں حکومت بنانے کا موقع ضائع کردیا۔

ایم ایم اے 2002کے الیکشن کے بعد پانچ سال تک صوبے میں حکمران تو رہی لیکن حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی اس اتحاد میں دراڑیں پڑگئیں اور پھر یہ ایسی ختم ہوئی کہ نہ صرف صوبے کے اقتدار سے باہر ہوگئی بلکہ اس کا اتحاد بھی ختم ہوگیا۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی نے 2008 میں صوبے کی مخلوط حکومت بنائی تھی لیکن 2013ء میں بوجوہ یہ دونوں جماعتیں صوبے کی سیاست میں غیر مؤثر ہوگئیں اور تحریک انصاف ابھر کر سامنے آئی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کا حشر بھی اپنی پیشرو جماعتوں کی طرح ہوگا۔ یا وہ دوبارہ صوبے میں برسر اقتدار آجائے گی یا صوبے کے عوام کی خدمت کی بنیاد پروفاق میں حکومت بنانے کے قابل بن سکے گی۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ صوبے کو بدل رہی ہے، لیکن عمران خان نے بنوں کے جلسے میں جب لوگوں سے پوچھا کہ کیا صوبے میں تعلیم کی حالت بہتر ہوئی ہے تو جواب میں لوگوں نے کہا ”نہیں ہوئی”۔ عمران خان نے اس جواب کی تعبیر یوں کی کہ ”بنوں میں نہیں ہوئی ہوگی”۔

Newspapers

Newspapers

گویا ان کو یقین ہے کہ صوبہ تعلیم میں بہت آگے بڑھ چکا ہے شاید بنوں مطلوبہ مقام پر نہیں پہنچ سکا، پولیس کے بارے میں تو ان کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت بدل گئی ہے۔ ”پختونخوا بدل رہا ہے” صوبائی حکومت کا مستقل نعرہ ہے جو اخبارات کے اشتہارات میں چھپتا ہے، حکومت کی کارکردگی کے اشتہارات زیادہ تر انگریزی اخبارات کی زینت بنتے ہیں جس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ صوبے میں انگریزی خواں طبقہ کافی زیادہ ہے اور انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت اگر اپنا پیغام انگریزی خواں طبقے تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئی تو شاید اگلے انتخابات میں بھی اسے کامیابی حاصل ہو جائے۔

عمران خان طے شدہ پروگرام کے مطابق یا اس کے بغیر لندن جا رہے ہیں جس کا مقصد فنڈ ریزنگ بتایا گیا ہے لیکن بعض حلقے اس دورے کا تعلق زیک گولڈ سمتھ کی شکست سے بھی جوڑ رہے ہیں۔ کنزر ویٹو پارٹی یہ جاننا چاہتی ہے کہ گولڈ سمتھ کی شکست کے اسباب کیا تھے سعیدہ وارثی جیسے پارٹی رہنماؤں کے مطابق تو اس کی وجہ منفی انتخابی مہم تھی لیکن پاکستانی حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے جب پاکستانیوں سے کہا کہ وہ زیک گولڈ سمتھ کو کامیاب بنائیں تو ردعمل میں لندن کے مسلم لیگی حلقے بھی متحرک ہوگئے اور انہوں نے ووٹروں کو گھروں سے نکلنے میں بڑی محنت کی اور یوں صادق خان کی کامیابی کی راہ ہموار ہوئی۔ منفی سیاست کے اثرات کا سامنا کنزر ویٹو پارتی کو طویل عرصے تک کرنا پڑے گا۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر حسین