تحریر : حفیظ خٹک شہر قائد میں ان دنوں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خصوصی دورے پر آئے ہوئے ہیں۔ اپنے اس دورے میں انہوں نے متعدد اجتماعات سے خطاب کرنے کے ساتھ اپنی تنظیمی سرگرمیوں کو موثر بنانے کیلئے اجلاس بھی کئے۔ ان کے اس دورے سے جہاں تحریک انصاف کے کارکنان و رہنماﺅں کو تقویت ملی اسی طرح ان اداروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی جہاں عمران خان نے جاکر خطاب کیا۔
تحریک انصاف کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں وطن عزیز میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔ عوام کو ماضی کی بنسبت موجودہ حال میں شعوریانداز میں اپنے فیصلے کرنے کی ہمت افزائی ہوئی۔ ایک جانب ہندوﺅں کی دیلوالی کی تقریب میں عمران خان کا جانا ہوا تو اسی دوسری جانب انہوں نے اندرون سندھ میں کامیاب جلسے بھی کرڈالے۔ تاہم مزار شہباز قلندر پر انہیں فاتحہ حوانی کیلئے اندر نہیں جانا دیا گیا ، انتظامیہ کے اس قدم کی ہر سو مذمت کی گئی۔
تنظیم کی اس طرح کی کارکردگیوں کے نتیجے میں عوام کے اندر پذیرائی میں اضافہ ہوتا ہے عوام ایسی سیاسی جماعتوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے موزوں سمجھنے لگتی ہے اور پھر ہوتا یہی ہے کہ اسی جماعت کو اتخابات میں ووٹ دے دیئے جاتے ہیں۔ اب یہ اک الگ معاملہ اور بحث ہے کہ ہمارے ملک میں ووٹنگ کا نظام قابل اعتراض ہے، بہت ساری شکایتیں اس حوالے سے سیاسی جماعتوںسمیت عام لوگوں کے پاس موجود ہیں۔ تاہم امید کی جاتی ہے کہ اب آہستہ ہی سخی یہ انتخابات کا نظام بہتر ہوگا اور ایسا وقت جلد آئے گا کہ جب واقعتاَ صاف و شفاف سمیت منصفانہ اتخابات ہونگے۔
شہر قائد سمیت دورے میں قائد تحریک انصاف سے شہر قائد کی عوام ہی ایک سوال پوچھتی ہے وہ سوال صرف عمران خان سے ہی نہیں بلکہ ہر دوسرے اور ہر اک سیاسی رہنماءسے پوچھتی ہے کہ انہوں نے اپنے دورہ کراچی میں اس شہر کی ہی نہیں اس ملک بلکہ اس امت کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بچوں سے ان کی والدہ سے اور ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے ملاقات کیوں نہیں کی؟ کیوں ان کے گھر جاکر ان کو دو بول تسلی کے نہیں دیئے ؟ آخر کس چیز نے کس بات نے انہیں ایسا کرنے سے روکے رکھا؟ عمران خان ہی وہ سیاستدان ہیں کہ جن کے ساتھ برطانوی صحافی جو کہ اب مریم ریڈلے بن چکی ہیں، پریس کانفرنس کی اور اس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا ذکر ہی نہیں واضح طور پر یہ بتایا گیا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے؟ عمران خان نے اس ابتدائی کانفرنس کے بعد متعدد بار قوم کی بیٹی کا ذکر کیا ہے۔ اپنے دھرنوں میں بھی وہ ڈاکٹر عافیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اسے وہ واپس لے آئیں گے۔ شہر قائد میں ہی ان کی موجود جماعت کی قیادت نے اپنے طور پر اس معاملے میں گہری دلچسپی لی ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ 253کے امیدوار اور نائب صدر تحریک انصاف کراچی سیف الرحمن مسعود مسلسل ان کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، ان کے پروگرامات سمیت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں، انہوںنے اپنے طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس کوشش کو تاحال جاری رکھا ہوا ہے۔
تاہم قائد تحریک انصاف سے یہ پوچھنا ہر شہری کا حق ہے کہ وہ شہر قائد میں آنے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے گھر کیوں نہیں گئے؟ ان کی رہائش گاہ کے قریب جامعہ کراچی کے طلبہ سے خطاب کیا اور پھر آباد کے دفتر میں بھی آبادکاروں سے مخاطب ہوئے ۔ عمران خان ان خطابات کی اہمیت اپنی جگہ پرتاہم قوم کی بیٹی کے گھر جاکر ہمت بندھانی بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کو چاہئے کہ قوم کی بیٹی کے معاملے میں بے توجہی نہ اپنائیں اس روش پر نہ جائیں جس پر اس ملک کا سابق اور نااہل وزیر اعظم چل پڑا تھا۔ اس نے تو منتخب ہونے کے بعد پوری قوم سے اور قوم کی بیٹی کے بچوں و ماں تک سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اب جلد ہی امریکہ سے قوم کی بیٹی کو واپس لے کر آئیگا۔ لیکن وہ وعدہ آج تلک پورا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ وہ خود بھی چلے گئے بلکہ بھیج دیئے گئے۔ وہ نااہل وزیر اعظم تو آج بھی یہ کہتے پھرتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا لیکن انہیں انے کے گرد ڈھیرے جمائے ساتھی اس بات کو واضح نہیں کرتے کہ اس ملک کی ایک سپریم کورٹ ہے جس پر آپ نے ماضی میں حملہ کیا تھا اسی سپریم کورٹ نے آپ کو آپ کی کارناموں کی وجہ سے باہر نکالاہے۔ امید کی جاتی ہے کہ بہت جلد نواز شریف کی اپنی بیٹی مریم انہیں اس بات کی تفصیلات سے آگاہ کریں گی اور انہیں یہ بتائیں گی کہ آپ کو کیوں نکالا؟
عمران خان صاحب، جس طرح نواز شریف صاحب یہ کہتے ہیں کہ انہیں کیوں نکالااسی طرح اس شہر قائد کا ہر شہری آپ سے یہی پوچھتا ہے کہ آپ (عمران خاںصاحب ) ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے گھر کیوں نہیں گئے؟ یہ سوال وہ طلبہ بھی پوچھتے ہیں ، وہ تاجر بھی ، وہ ہندو بھی وہ تحریک انصاف کی خواتین بھی اور سب سے بڑھ کر اس شہر کی عوام بھی۔ آپ کو یہ بتانا ہوگا کہ آپ کیوں نہیں گئے ؟ یہ یاد رکھیں کہ اب آپ کی جماعت میں معروف ٹی وی اینکر ڈاکٹر عامر لیاقت شامل ہوگئے ہیں اور یہ وہ اینکر ہے جو کہ ماضی میں ایم کیو ایم میں بھی رہے۔ یہ فرد قوم کی بیٹی کیلئے باقاعدہ پروگرام بھی کرتا ہے اس کا ذکر بھی کرتا ہے اور اس کی واپسی کیلئے اپنے تئیں کوششیں بھی کرتا ہے ۔ آپ کو یہ اک معصومانہ سا مشورہ ہے کہ آپ قوم کی بیٹی کے حوالے سے اپنی جماعت موقف اور ذمہ داری اسی ڈاکٹر عامر لیاقت کو دیدیں اہل ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس ڈاکٹر عامر لیاقت کو جانتی ہے اور اس کی عزت و تعظیم بھی کرتی ہے۔ آپ کے اس عمل سے اس شہر کے باسیوں پر اور اسکے ساتھ ہی ڈاکٹر عافیہ کے گھر والوں پر بھی مچبت اثرات مرتب ہونگے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو واپس آنا ہے اور یہ توقع یہ امید سب سے زیادہ ان کی والدہ عصمت صدیقی کو ہے، وہ تو مایوس ہونے والے اپنے سوشل ورکرز کو بھی یہی کہتی ہیں کہ کوشش پانی پوری کریں اور امید اللہ سے رکھیں، ان شاءوہ واپس آئے گی اور باعزت واپس آئے گی۔ اس امید کے ساتھ ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بھی جہد مسلسل کر رہی ہیں اور ان کے ساتھ دیگر سینکڑوں ہزاروں لوگ بھی اسی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ ہاں وہ آئے گی اور باعزت رہائی کے بعد ہی اسی ملک میں آئے گی اور آنے کے بعد اس ملک کے لئے اپنی خدمات سرانجام دیں گی، ان شاءاللہ