میاں برادران کے رویہ سے تنگ 44 ناراض اراکین قومی اسمبلی نے عرصہ سے شکایات کا ازالہ نہ ہونے پر ایک الگ گروپ قائم کر رکھا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی حکومت کے خلاف متوقع تحریک کے باعث میاں برادران کے غرور اور تکبر کا زور ٹوٹنا شروع ہو گیا ہے۔ اور انہوں نے سب سے پہلے ناراض اراکین اسمبلی اور مسلم لیگی رہنمائوں سے ملاقات اور انہیں منانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
گو کہ لیہ کے حلقہ NA-182 سے رکن قومی اسمبلی سید ثقلین بخاری ناراض گروپ کا حصہ تو نہ تھے لیکن انہیں بیوروکریسی سے بہت زیادہ شکوے شکایات تھیں۔ کئی بار کہتے سنے گئے کہ ڈی سی او اور ڈی پی او لیہ انہیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ اور اطلاع کے مطابق انہوں نے ڈی پی او کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق بھی جمع کروا رکھی ہے۔
Syed Saqlain Bukhari
سید ثقلین بخاری نے میاں نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری تک یہ بات پہنچائی اور کافی عرصہ سے ملاقات کا وقت مانگ رہے تھے جس پر گزشتہ روز ان کی ملاقات میاں صاحب سے ساتھ ہو گئی۔ جس میں انہوں نے انہیں نظر انداز کیئے جانے کے ساتھ ساتھ لیہ ، چوک اعظم ، میں سوئی گیس کا کام مکمل کرنے اور پاسپورٹ آفس سمیت لیہ تونسہ پل کی فوری تعمیر کا بھی مطالبہ کیا۔ اسی طرح لیہ کے حلقہ NA-181 صاحبزادہ فیض الحسن ممبر قومی اسمبلی جو کہ گزشتہ ایک سال سے پنجاب حکومت کے زیر عتاب ہونے کے باعث ناراض اراکین میں شامل ہیں اور کافی عرصہ سے میاں نواز شریف سے ملاقات کیلئے عرضیاں لکھ رہے ہیں۔ 1985 کا دور ایسا تھا جب مسلم لیگ کی ڈور مرحوم محمد خان جنیجو کے ہاتھ میں تھی اور وہ وزیر اعظم پاکستان تھے۔
ضلع لیہ کی اس نشست پر قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ اور اس وقت کی مسلم لیگ کے صوبائی صدرچوہدری رحمت علی علوی مظفر گڑھ سے آکر الیکشن میں حصہ لیا کرتے تھے۔اس سیٹ پر مسلم لیگ ( ن ) کے پاس کوئی مظبوط امیدوار موجود نہیں تھا۔ 1988 میں ضلع لیہ سے مسلم لیگ ( ن ) کی تشکیل نوع ہوئی تو پنجاب کے معروف روحانی خان وادے اور کثیر ووٹ بنک کی حامل شخصیت صاحبزادہ فیض الحسن کو حلقہ کے عوام نے مجبور کیا کہ وہ ومسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیں۔
جس پر صاحبزادہ فیض الحسن نے اپنی روایت کو توڑتے ہوئے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ اور پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار بہرام خان کو شکست دے کر کامیاب ٹہرے۔ 1990 میں دوبارہ الیکشن ہوئے تو صاحبزادہ فیض الحسن نے پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار محمد جہانگیر خان سیہڑ کو شکست دے کر دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ پھر 1997 میں صاحبزادہ فیض الحسن تیسری مرتبہ کامیاب ہوئے اور میاں نواز شریف کی حکومت میں وفاقی پارلیمانی سیکریٹری منتخب ہوئے۔
1999 میں صدر مشرف نے ٹیک اوور کر کے جمہوریت کو شب خون مارا اور میاں نواز شریف کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دینے کے بعد جلا وطن کر دیا گیا تو سیاست کے میدان میں چڑھتے سورج کے پجاریوں نے مفادات کی دہلیز پر قدم رکھا اور وفاداریاں بلد لیں۔ ضلع لیہ میں مسلم لیگ ( ن ) سے وابستہ ایسے سیاستدان بھی تھے جنہوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم میاں نواز شریف فے بڑے سیاستدان ہیں۔ لیکن صاحبزادہ الحسن میاں نواز شریف کی طویل جلا وطنی کے دوران ثابت قدم رہے۔
ق لیگ کے میاں محمد اظہر اور چوہدری برادران کی جانب سے ملاقاتوں میں ضلع ناظم اور ایم این اے کی آفر کے باوجود میاں نواز شریف کو نہ چھوڑا اور یوں 2002 اور 2008 کا الیکشن ہار گئے۔ جس کی بڑی وجہ ملک احمد علی اولکھ کے ساتھ پینل تھا۔ چونکہ صاحبزادہ فیض الحسن کے مخالف امیدوار نے ہمیشہ اپنے پینل میں آباد کار امیدوار رکھا جبکہ صاحبزادہ فیض الحسن کے ساتھ ملک احمد علی اولکھ رہے۔
ملک احمد علی اولکھ کے پاس مسلم لیگ کیلئے ووٹ بنک موجود نہیں۔ کیونکہ ملک احمد علی اولکھ کے حمایتی ہمیشہ قومی اسمبلی کا ووٹ پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے امیدوار سیہڑ برادران کو دیتے آئے ہیں۔ بلا آخر 2013 کے الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مسئلہ آیا تو صاحبزادہ فیض الحسن نے میاں برادران اور کمیٹی کے اراکین جن میں خواجہ سعد رفیق اور دیگر ارکین شامل تھے کو باور کروایا کہ حلقہ PP-262 میں آباد کار ووٹ بنک کے فیصلہ کن رول کی وجہ سے ٹکٹ آبادکاروں کے امیدوار چوہدری اطہر مقبول کو دیا جائے اور ملک احمد علی اولکھ کو حلقہ PP-262 کی بجائے حلقہ PP-263 الیکشن لڑوایا جائے تو تمام نشستیں جیتی جاسکتی ہیں۔ لیکن پارٹی ٹکٹ کا فیصلہ کرنے والی اتھارٹی کے اراکین 2013 کے الیکشن میں بھی شاید صاحبزادہ فیض الحسن کو آئوٹ کرنا چاہتے تھے لیکن اس بار صاحبزادہ فیض الحسن سابقہ غلطی نہیں دوہرانہ چاہتے تھے اور NA-181 کی سیٹ میاں نواز شریف کو پیش کرنا چاہتے تھے۔
اس لیئے انہوں نے اپنی جیت کو ممکن بنانے کیلئے حلقہ PP-262 میں آزاد امیدوار چوہدری اطہر مقبول اور حلقہ PP-264 میں حاجی غلام عباس بپی کے ساتھ پینل بنایا۔ اور یوں انہوں نے قومی اسمبلی کی سیٹ پر 1 لاکھ 20 ہزار ووٹ لیکر 38 ہزار کی لیڈ سے کامیابی حاصل کی۔ حلقہ PP-262 میں اگر پارٹی قیادت صاحبزادہ فیض الحسن کے فیصلے کو مدِنظر رکھتی تو یہاں سے تمام نشستیں جیتی جا سکتی تھیں۔
اگر میاں برادران ضد نہ کرتے اور صاحبزادہ فیض الحسن کو ان کی مرضی سے عنگ بنانے دیتے اور ان کی خواہش کے مطابق مسلم لیگ کا ٹکٹ PP-262 میں اطہر مقبول اور PP-263 میں ملک احمد علی اولکھ کو دے دیا جاتا تو تمام امیدواروں کی جیت یقینی تھی۔ PP-262 سے تحریک انصاف کے امیدوار عبدالمجید نیازی نے 36 ہزار ووٹ حاصل کیئے جبکہ صاحبزادہ فیض الحسن کے پینل میں آزاد امیدوار اطہر مقبول نے 26 ہزار اور مسلم لیگ کے ٹکٹ ہولڈر سابق صوبائی وزیر ملک احمد علی اولکھ نے 24 ہزار ووٹ حاصل کیئے۔ دونوں مسلم لیگیوں کے درمیان ووٹ تقسیم ہو جانے کے باعٹ تحریک انصاف کے امیدوار نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لے کر ایم پی اے کی سیٹ جیت لی۔ حالانکہ اس سے قبل مجید خان نیازی یونین کونسل تھل جنڈی جو کہ ان کی آبائی ہونین کونسل ہے سے ناظم کا الیکشن ہار چکے تھے۔
اسی طرح PP-263 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار شہاب الدین سیہڑ نے کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدِمقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک عبدالشکور سواگ دوسرے نمبر پر رہے۔ یہاں پر قابل ذکر امر یہ ہے کہ خود کو مسلم لیگی کہلوانے والے اور بار مسلم لیگ کے ٹکٹ کیلئے عرضی دینے والے چوہدری قیصر ارشد اور سردار اقبال احمد خان شہانی نے مقابلے میں الیکشن لڑ کر عبدالشکور سواگ کو نقصان پہنچایا جس کے باعث یہ سیٹ بھی ہاتھ سے نکل کر پیپلز پارٹی کے پاس چلی گئی۔ اگر اس حلقہ سے ملک احمد علی اولکھ کو ٹکٹ مل جاتا تو اولالذکر تینوں امیدواروں نے حصہ نہیں لینا تھا اور آرام سے ملک احمد علی اولکھ ایم پی اے منتخب ہو سکتے تھے۔
Sahibzada Faiz-ul-Hassan
اس ساری صورتحال میں صاحبزادہ فیض الحسن کو قصوروار ٹہراتے ہوئے اور حکم عدولی کی پاداش میں وہ پنجاب حکومت خصوصاً حمزہ شہباز شریف کے زیر آتاب ہیں۔ اور الٹ ان کی جیت کے بعد ان کے سارے اختیارات سلب کر کے انتظامیہ کی دسترس میں دے کر انتظامیہ کو طاقتور بنا دیا گیا اور لاکھوں ووٹروں کے حق خوداردیت پر ڈاکا ڈالتے ہوئے صاحبزادہ فیض الحسن کی آواز کو دبا دیا گیا۔ حالانکہ کہ ضرورت پڑنے پر میاں برادران نے پاکستان بھر سے ایسے منتخب افراد کو اپنے ساتھ شامل کیا جو کہ مسلم لیگی امیدواروں کو ہرا کر کامیاب ہوئے تھے جن میں کچھ افراد کو وزارتیں بھی دی جارہی ہیں۔ لیکن صاحبزادہ فیض الحسن کی مجبوری اور زمینی حقائق کو مدِنظر نہ رکھتے ہوئے انہیں مظبوط کرنے کی بجائے کمزور کر کیا جا رہا ہے۔
صاحبزادہ فیض الحسن برسراقتدار مسلم لیگ (ن) کا ایم این اے ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی روحانی گدّی کے خانوادے ہیں۔ جن کے 14 خلفاء کے ملک بھر میں بڑے بڑے مزارات ہیں۔ صاحبزادہ فیض الحسن صرف لیہ میں ہی ووٹ بنک نہیں رکھتے بلکہ ان کے ووٹ بنک ضلع بھکر ، جھنگ ، خوشاب ، ضلع مظفر گڑھ ، ڈی آئی خان، بلوچستان اور کراچی تک میں ان کے مریدین کا بہت بڑا حلقہ موجود ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود صاحبزادہ فیض الحسن ابھی تک مستقل مزاجی پر قائم ہیں اور ایک سال سے میاں نواز شریف سے ملاقات کیلئے عرضیاں لکھ رہے ہیں تا کہ میاں نواز شریف کے نوٹس میں اپنے حالات اور سپوٹروں کے جذبات سے آگاہ کر سکیں۔
اطلاع کے مطابق آئیندہ چند روز میں ان کی ملاقات بھی متوقع ہے۔ لیکن شائد حمزہ شہباز شریف اور پارٹی قیادت یہ بات بھول چکی ہے کہ ان کے پاس حلقہ NA-181 میں کوئی امیدوار موجود نہیں جو کہ مخالف کا مقابلہ کر سکے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو صاحبزادہ فیض الحسن اور ان کا پورا حلقہ احباب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے۔