ٓ انتخابات صرف چند دن باقی ہیں ۔وطنِ عزیز پاکستان میں سیاسی محاذ گرم ہے۔سیاسی قائدین کی طرف سے منظم اندز میں الفاظ کی گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔تیر و نشتر کے وار کر کے ایک دوسرے کو زخموں سے چور کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ غلط اور جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے مگر عوام بھی شعور رکھتی ہے اور کیا کیا سوچتی ہے۔ساہیوال سے اظہر لطیف صاحب کا ایک مراسلہ موصول ہواہے۔ لکھتے ہیں۔مکرمی و محترمی جناب رشید احمد نعیم صاحب! اسلام علیکم،بھائی صاحب! مجھے یہ جاننا ہے کہ یہ عمران خان حقیقت میں کیا ہے؟ یہ چاہتا کیا ہے؟ اس کے اہداف کیا ہیں؟آئے روز یہ بندہ احتجاج کیو ں کرتا ہے؟65 سال کی عمر میں گھر بیٹھ کر آرام کرنے کی بجائے گلی گلی کوچہ کوچہ کیوں جا رہا ہے ؟ دن رات جلسوں سے خطاب کرنے کا کیا مقصد ہے ؟کیا اس کی طلب پیسہ ہے؟
کیا یہ شہرت کا بھوکا ہے؟کیا یہ کرپشن کر کے دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہونا چاہتا ہے؟ کیا اس کی منزل وزارتِ عظمیٰ ہے؟کوئی اسے پاگل خان کہتا ہے تو کوئی اسے ہٹلر خان کے نام سے پکارتا ہے۔کسی جگہ اس کا ذکر طالبان خان کے طور پر آتا ہے تو کسی جگہ اس کو اسٹیبلشمنٹ خان کہا جاتا ہے۔کبھی اس کو یوٹرن خان کا لقب دیا جاتا ہے تو کبھی انتہائی حقارت سے زکوٰۃخان وکینسر خان کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔اگر ایک طبقہ سونامی خان کے نام سے یاد کرتا ہے تو فوراً دوسری طرف سے یہودی خان کی صدا آتی ہے۔ پتہ نہیں کس کس خان کے نام سے بلایا جاتا ہے اس ایک بندے کو۔۔ مگر یہ بندہ آخر ہے کون؟؟؟یہ بندہ جو ڈھیر ساری اتنی متضاد برائیوں کا بیک وقت مالک ہے۔
اس نے کون کون سی ظلم کی داستانیں رقم کی ہیں؟ کیا کیا ظلم ڈھائے ہیں اس بندے نے اس ملک پر؟اپنی 65 سالہ زندگی میں اس ملک کا بیڑہ ہی غرق کردیا ہوگا جو اتنے مختلف غلیظ ناموں سے پکارا جاتا ہے؟؟ لگتا ہے بہت بڑا فسادی ہے جس کو وطنِ عزیز میں امن آتشی ایک آنکھ نہیں بھاتی؟جو جمہوریت کا دشمن ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ ذہن اس وقت الجھ کر رہ جاتا ہے جب نظر اْن افراد پر پڑتی ہے جو اسے ان ناموں سے پکارتے ہیں اور ملک و قوم کے وہ ہمدرد دکھائی دیتے ہیں، اقتدار میں رہتے ہوئے جنہوں نے اس ملک کو ترقی کا گہوارہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر یہ الگ بات ہے کہ آج بھی ہمارے ان کرم فرماؤں کو اپنے علاج ومعالجے او ر میڈیکل چیک اپ کے لیے پاکستان بھر میں کوئی معیاری ہسپتال نظر نہیں آتا اور عوام کے ان غم خوار وں کو لندن، امریکہ یا دبئی جانا پڑتا ہے۔
عمران خاں کواْلٹے سیدھے ناموں سے پکارنے والے زرداری صاحب نے اس بھوکی ننگی قوم کی کس طرح خدمت کی؟ کون نہیں جانتا؟ ان کے وزراء ،ارکانِ اسمبلی، پارٹی راہنماؤں اور مشیروں نے کس طرح غریب عوام کا خیال کیا ہر کوئی جانتا ہے۔ شریف خاندان کے بارے میں پانامہ لیکس میں کیا کیا نکلا ہے ؟ ہر پاکستانی جان چکا ہے۔اب تو پاکستانی قوم ا لطاف بھائی کی اصلیت بھی جان چکی ہے۔جس نے روشنیوں کے شہرمیں کس طرح امن قائم کروا رکھا تھا؟ اسفندیار ولی کو یہ بندہ کیوں ایک آنکھ نہیں بھاتا؟ اخبارات میں تفصیلی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں وہ فضل الرحمن جس نے بینظیر سے لے کر مشرف اور زرداری سے لے کر شریفوں تک ہر حکومت میں چند وزارتوں کیلئے اسلام کا پاک نام بیچا ہے، بھلا اس کو یہ بندہ کیسے اچھا لگے گا؟ کچھہ میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو بھی یہ بندہ بہت چْبتا ہے کیونکہ ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے آخر وہ کیا چیز ہے جو اس بندے کو بے چین رکھتی ہے؟ 65 سال کی عمر میں جبکہ لوگ اپنے بچوں کیساتھ پرسکون وقت گزارنا پسند کرتے ہیں، اس عمر میں یہ بندہ پاکستان کے طول و عرض میں دیوانوں کی طرح پھرتا ہے۔ آخر کیا چاہئیے اسے؟ اس کے مخالفین کہتے ہیں کہ اسے وزارت عظمیٰ کی طلب بے چین کیے ہوئے ہے۔ کیا واقعی؟ لیکن آخر وزارت عظمیٰ کی طلب کسی کو کیوں ہوتی ہے؟ پیسے کے لئے؟ شہرت کیلئے؟ کرپشن کیلئے؟لیکن پیسے کیلئے؟؟؟؟لیکن پیسے کا تو اس بندے کو لالچ نہیں اور یہ دنیا جانتی ہے ا ور اس کی ساری زندگی اس امر کی گواہ ہے۔ اس نے تو اپنا کرکٹ سے کمایا ہوا پیسہ بھی اس ملک کے غریبوں کیلئے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی میں جھونک دیا۔
پیسہ ہی چاہئیے ہوتا تو برطانیہ میں کسی کاؤنٹی ٹیم کی کوچنگ سنبھالتا اور ساتھ ہی کرکٹ میچوں میں کمنٹری سے کروڑوں کماتا۔ پیسہ چاہئیے ہوتا تو جمائمہ خان سے طلاق کے عوض ہی (برطانوی قوانین کے مطابق) اربوں وصول کرسکتا تھاشہرت کیلئے؟؟؟؟لیکن عمران خان سے زیادہ شہرت بھلا کس پاکستانی کو اللہ نے دی ہوگی؟ وہ شخص کہ برطانوی شاہی خاندان جس کیساتھ اٹھنے بیٹھنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور انڈیا سے ترکی اور ڈیووس تک بغیر کسی سرکاری عہدے کے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ واحد پاکستانی لیڈر ہے جس کو بیرونی دنیا میں کرپشن یا سوئس اکاؤنٹس یا بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے نہیں جانا جاتا بلکہ اس کا نام اچھے لفظوں میں لیا جاتا ہے۔ اب ایسے بندے کو بھلا مزید شہرت کی کیا ضرورت ہوگی؟کرپشن کیلئے؟؟؟؟لیکن کرپشن کا تو یہ بندہ روادار ہی نہیں۔ پختونخواہ میں حکومت ہے نا اس کی۔ کوئی کہہ سکتا ہے ایک پیسے کی کرپشن کی بات اس کے بارے میں؟ کوئی کارخانہ لگایا ہو اس نے؟ کوئی رشتہ دار سرکاری عہدوں پر لگوا دیا ہو؟ کسی کی سفارش کردی ہو؟ کوئی پلاٹ، کوئی بینک اکاؤنٹ، کوئی جدہ، ملائشیا، دبئی میں محل وغیرہ؟ نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ الٹا واحد پاکستانی لیڈر ہے جس کے اثاثے ہر سال پہلے کے مقابلے میں کم ہوتے جارہے ہیں (ورنہ تو لوگ ایم این اے بن کر ہی سات نسلوں کا انتظام فرما لیتے ہیں) تو پھر؟ آخر کیا چیز اس بندے کو چین نہیں لینے دیتی؟اس بندے کو سمجھنا ہو تو چند لمحوں کیلئے اپنے آپ کو اس کی جگہ رکھ کر آنکھیں بند کرکے سوچیں۔کیا بھکاری بننا آسان ہے؟ کسی کے آگے جھولی پھیلانا اور سوالی بننا؟ اور وہ بھی اپنے فائدے کیلئے نہیں بلکہ قوم کے سسکتے ہوئے غریب مریض بچوں کے واسطے۔ وہ کیا چیز ہے جس نے اس آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ، پاکستانی تاریخ کے مشہور ترین کرکٹراور کامیاب ترین کپتان کو بھکاری بننے پر مجبور کیا؟ گلی گلی، شہر شہر، گاؤں گاؤں۔ اپنی عزت نفس کو پس پشت ڈال کر جھولی پھیلا کر، بھکاری بننے پر مجبور کیا؟ بیس سال سے یہ بندہ جھولی پھیلائے ملک اور بیرون ملک (صرف پاکستانیوں سے)پاکستانیوں کیلئے بھیک مانگتا ہے۔کوئی اسے بھکاری ہونے کے طعنے دیتا ہے، کوئی زکوٰۃخان کہتا ہے، کوئی کسی اور طریقے سے مذاق اڑاتا ہے لیکن یہ بندہ پھر بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ یہ آسان نہیں ہے۔
خدا کی قسم یہ آسان نہیں ہے۔قدم قدم پر دل کو مارنا پڑتا ہے۔ اپنی عزت نفس، انا اور فخر کا خون کرنا پڑتا ہے۔ یقین نہ آئے تو کبھی یہ کرکے دیکھ لیں۔ جھولی پھیلا کر کسی دن لوگوں کے سامنے کھڑے ہوں (وہ بھی اپنے لئے نہیں دوسروں کیلئے)۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ یونیورسٹی کیلئے اسی طرح جھولی پھیلائی تھی اور آج عمران خان ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم کیلئے ایسا کرتا ہے۔یہی جذبہ، یہی احساس، یہی فکر اور یہی وہ چیز ہے جوکسی بندے کو ایسے کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔یہ جذبات و احساسات عمران خاں میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔وہ افراد کو بیدار کر کے ایک قوم تشکیل دینا چا ہتا ہے۔ کرپشن سے پاک معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ایک ایسا ملک جو خود مختار ہو، خودار دار اور اغیار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا ہو، جہاں مساواتِ محمدی ﷺکا نفاذ ہو۔ غریب امیر کے لیے عدل و انصاف کا ایک ہی پیمانہ رائج ہو۔معاشی خوشحالی صرف چند خاندان تک محدود نہ ہو بلکہ اس نعمت سے مستفید ہونے کے مواقع سب کے لیے یکساں ہوں۔وہ ایسا پاکستان چاہتا ہے جہاں کوئی کسی پہ ظلم نہ کرے، رشوت کا گرم بازار بند ہو۔دہشت گردی کی اصل وجوہات کو ختم کر کے ملک کو حقیقی معانی میں امن کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے۔
ملک میں بے روزگاری ختم کر کے نوجوانوں میں مثبت سرگرمیاں دیکھنے کا خواہاں ہے۔اگر اس کا یہ خواب غلط ہے تو پھر وہ یقیناً مجرم ہے او ر اگر اس کا یہ خواب علامہ اقبال کے خواب سے مطابقت رکھتا ہے، قائداعظم کے فرمودات کے مطابق ہے اور نظریہ پاکستان کی روشنی میں ہے تو پھر اصلی اور حقیقی راہنما صرف عمران خان ہے۔ فیصلہ اپنے دل سے کیجیے کہ کیا سچ اور کیا حقائق کے منافی ہے۔ا(خیر اندیش اظہر لطیف۔ساہیوال) قارئین کرام! تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی سیاست کے طریقے اور انداز سے لاکھ اختلاف کیا جاتا ہے مگر آج تک کوئی ادارہ یا کوئی فرد عمران خان پر کرپشن کے سلسلہ میں انگلی نہیں اْٹھا سکا۔اس کی ایمانداری مسلمہ ہے۔اس کی حب الوطنی قابل تعریف و تحسین ہے،یہی اس کی کامیابی و کامرانی کا راز ہے