تحریر : سید توقیر زیدی عمران خان اور شاہ محمود قریشی اب اکٹھے عازم لندن ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس اچانک دورے کا کوئی مقصد تو نہیں بتایا لیکن قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اب کی بار سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران لندن جانے کا کوئی خاص ہی مقصد ہوگا، وہ زمانہ تو لد گیا جب وہ کہتے تھے الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کے پلندے لے کر لندن جا رہا ہوں، کیونکہ جب ان پلندوں کی ضرورت تھی یہ سامنے نہ آئے، لیکن اب ممکن ہے کہ وہ پاناما لیکس میں منکشف ہونے والی وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے متعلق مزید ثبوت لینے کے لئے لندن گئے ہوں، کیونکہ ایک کتاب اور اخباری تراشوں پر مبنی 686 صفحات پر مشتمل جو ثبوت جمع کرائے گئے تھے ان کے بارے میں تو فاضل ججوں کے ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ اخباری تراسے ثبوت نہیں ہوتے۔ پانامہ لیکس کا معاملہ منظرعام پر آئے ہوئے سات ماہ گزر گئے ہیں، ثبوت جمع کرنے کے لئے اتنا عرصہ ہر لحاظ سے کافی ہونا چاہئے لیکن یہاں تو پانامہ لیکس کے بارے میں یہ تک کہہ دیا گیا کہ یہ انکشافات نہیں، ثبوت ہیں۔ چلئے اگر یہ ثبوت ہیں تو یہ بھی عدالت میں پیش کر دئے جائیں اور اگر کر دئے گئے ہیں تو ان کی حیثیت بھی متعین ہو جائیگی۔
پانامہ لیکس سے پہلے ایک اور لیکس کو بڑی شہرت ملی تھی۔ پہلے تو جولین اسانج کو ایسی مقناطیسی شخصیت سمجھا گیا جن کے پاس خفیہ اطلاعات کھچی چلی آتی ہیں، چند دن تک ان کا بہت چرچا رہا لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا تو جولین اسانج کی گرفتاری کی نوبت آگئی۔ دھڑلے سے اتنے انکشافات کرنے والے کو جب اپنی گرفتاری کا دھڑکا لگا تو وہ لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے کے اندر جا چھپے۔ بہادر اتنے ہیں کہ اب تک چھپے بلکہ دبکے بیٹھے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ باہر نکلے تو دھر لئے جائیں گے۔ وکی لیکس کا ڈراپ سین تو زیادہ اچھا نہیں ہوا تھا اب دیکھیں پانامہ لیکس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ کیونکہ ان پانامہ لیکس میں اور جو بڑے بڑے نام تھے انہیں تو کسی نے پوچھا تک نہیں۔ مثال کے طور پر اس میں برادرملک سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان کا نام ہے۔ کیا آپ نے کبھی سنا کہ سعودی عرب میں اس حوالے سے کوئی سرگرمی دکھائی گئی ہو، چین کے صدر شی چن پنک کا نام بھی ان لیکس میں آیا، کیا کوئی صاحب بتائیں گے کہ چین میں اس حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی؟ روس کے صدر پیوٹن کا نام بھی ان میں تھا۔
کبھی آپ نے سنا کہ ان کے خلاف کارروائی کا کوئی مطالبہ ہوا ہو، برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد کی آف شور کمپنی کا ذکر اس حوالے سے آیا تھا جس کا ملبہ ڈیوڈ کیمرون پر ڈالنے کی کوشش کی گئی، ان کا سب سے پہلا بیان آیا تو بعض حضرات نے شکوک و شبہات کے دائرے پھیلا دئے، پھر انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر جو بیان دیا ان کے ہم وطنوں نے اسے کافی سمجھا، پھر اس حوالے سے کبھی کوئی ذکر نہیں سنا، تاآنکہ ڈیوڈ کیمرون نے اپنے ہاں یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے پر ایک ریفرنڈم کا ڈول ڈال دیا، جس میں فیصلہ یہ ہوا کہ برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے۔ کیمرون نے اسے اپنی شکست سے تعبیر کیا، کیونکہ وہ برطانیہ کے یونین میں رہنے کے حامی تھے۔ چنانچہ نتیجہ آتے ہی وہ وزارت عظمیٰ کو خیر باد کہہ گئے اور اہل وطن سے کہا کہ وہ اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیں میں تو ہار گیا۔ اب ایسا رہنما ہونا چاہئے جو برطانیہ کو عزت و وقار کے ساتھ یونین سے نکالے۔
Theresa May
برطانوی پارلیمنٹ نے تھریسامے کو وزیراعظم منتخب کرلیا جنہیں لندن ہائی کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ وہ اس فیصلے کی پارلیمنٹ سے منظوری لیں۔ تو یہ ایک قانونی راستہ ہے جسے برطانیہ میں اختیار کیا گیا ہے، ساری دنیا پانامہ لیکس کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئی لیکن ہم نے اس معاملے کو ایسا جٹ جپھا ڈالا کہ اسے چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ اسی پانامہ لیکس میں جن اور پاکستانیوں کے نام ہیں ان کی جانب کوئی نظر نہیں اٹھتی۔ جب تک یہ معاملہ سڑکوں پر طے کرنے کے لئے دھرنے دئے جا رہے تھے یا شہر بند کرنے کے ارادے ظاہر کئے جا رہے تھے، اس وقت تک تو جس کے منہ میں جو آتا، کہنے کے لئے آزاد تھا، کوئی زنگی کا نام کافور رکھ دے تو اس پر کوئی گرفت نہیں، کوئی دن رات 35 پنکچروں کی مالا جپتا رہے اور پھر جب جی چاہے یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائے کہ یہ تو سیاسی بیان تھا، گویا کہا یہ جا رہا ہے کہ ضروری نہیں سیاسی بیان کا حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہو۔ وہ سر اور پیر کے بغیر بھی اچھا لگتا ہے۔ لیکن اب جب یہ معاملہ عدالت کے روبرو پیش ہوا ہے تو بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا، جن صفحات کو عدالت کے روبرو رکھا گیا ہے اگر ثبوت کے طور پر یہی تو شہ تحریک انصاف کے توشہ خانے میں تھا تو پھر سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا سات مہینوں کے اندر یہی کچھ جمع کیا جاسکتا تھا۔
اس سے زیادہ کچھ نہیں، اور کیا ماہرین قانون ان تراشوں کی قانونی ثقاہت سے مطمئن ہیں؟ ایسے محسوس ہوتا ہے جس طرح مشاورت کے باب میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کی نہیں چلتی اور بیشتر فیصلے ان کی رائے کے برعکس ہو جاتے ہیں اسی طرح قانونی مہارت کے ضمن میں بھی ان قانونی ماہرین کی بات نہیں مانی جاتی جو تحریک انصاف کے رکن ہیں، لگتا ہے ان کی قانونی رائے کو یکسر نظر انداز کرکے فیصلے کرلئے جاتے ہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ اب اگر لندن یاترا کے باوجود کوئی مزید ثبوت نہیں ملتے تو کیا ہوگا، کیونکہ الزامات ثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت تو دینا ہوں گے اور یہ فیصلہ کہ ثبوت قابل قبول ہیں یا نہیں، درخواست گزار نے تو نہیں کرنا ہوتا، یہ بات سمجھنے میں اکثر اوقات غلطی کرلی جاتی ہے کہ جس طرح سیاست دان ثبوتوں کے بغیر باتیں اور الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں، اسی طرح عدالت کے ایوانوں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو انہوں نے عدالتی فیصلے کے علی الرغم سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر وہی موقف اختیار کیا جو وہ فیصلے سے پہلے نہ صرف اپنے دلائل میں بار بار اختیار کرچکے تھے بلکہ اپنے انٹرویوز اور بیانات میں بھی یہ دہراتے رہتے تھے کہ وہ خط نہیں لکھیں گے۔ جب انہوں نے عدالتی احکامات کے باوجود خط نہ لکھا تو پھر عدالت نے انہیں گھر بھیج دیا۔ جو کوئی بھی عدالتی احکامات کی من مانی تشریح کرتا ہے اس کا انجام اس سے مختلف نہیں ہوتا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ عدالت کے روبرو الزامات کے ثبوت میں مزید شواہد کیا پیش کئے جاتے ہیں۔ بہتر ہے اس سلسلے میں کوئی صاحب پانامہ لیکس والوں سے رجوع کرلیں، شاید انہیں وہاں سے وہ کچھ مل سکے جو لیکس میں پہلے لیک نہیں کیا جاسکا اور کہیں نہ کہیں کسی کونے کھدرے میں محفوظ پڑا ہوا ہے۔ جنرل(ر) پرویز مشرف بھی اپنے پورے عہد اقتدار میں کرپشن کے ثبوت ڈھونڈتے رہے، ان کے دور میں تو کوئی کیس نہیں چل سکا تھا، البتہ عین ممکن ہے ثبوت ان کے پاس محفوظ ہوں۔ اس لئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی بہتر ہے لندن سے واپسی پر دبئی رک جائیں اور سابق صدر سے بھی مشورہ کرکے آئیں۔ ممکن ہیں وہ اپنے تجربے کی روشنی میں انہیں کامیابی کا کوئی راستہ سلجھا سکیں۔