11 مئی ہمارے لیے دوہری خوشیاں لے کر آیا۔ ایک طرف عمران خاں گرج اور دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری بَرس رہے تھے ۔سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے تو پسندیدہ ترین رہنما صرف عمران خاں ، طاہر القادری اور الطاف بھائی ہی ہیںاور باقی ”حاضر سٹاک”سیاستدان تو بَس ”ایویں ای”ہیں۔ ڈی چوک میں مَنچلوں اور”مَنچلیوں” کا جوش و جذبہ اپنے جنوں کی ساری حدیں پھلانگ کر باہر نکلنے کو بیقرار تھا۔
اُن کے والہانہ رقص کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اب انقلاب ”آوے ای آوے” ۔اُدھر مُرشد طاہر القادری نے 60 شہروں میں بیک وقت ریلیاں نکال کر گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام لکھوا لیا ۔ریکارڈ تو خیر مُرشد نے اُس وقت ہی بنالیا تھا جب اُنہوں نے سو سے زائد ملکوں کے دَوروں اور تبلیغی و سیاسی لیکچروں کے باوجود ایک ہزار کتب کی تصنیف بھی کر ڈالی اور وہ بھی محض آٹھ سال کے قلیل عرصے میں۔ وہ چونکہ کینیڈا میں بیٹھے ہیں اِس لیے ”آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل” کے مصداق اُن کے کارنامے سوائے ہم جیسے ”مریدین” کے کسی کو نظر نہیں آتے ۔ویسے بھی وہ اپنی تشہیرسے ”گریزاں” ہی رہتے ہیں اور تشہیری مہم پر پیسہ صرف کرنا گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں لیکن جہاں سوال ملک و قوم کا آن پڑے، وہاں ”رَج کے” تشہیری مہم بھی چلاتے ہیں اور نیوز چینلز کو ”نہال” بھی کر دیتے ہیں۔
اب کی بار وہ ”نظر کی خرابی” کے باعث پاکستان تشریف نہیں لائے ۔شنید ہے کہ اُنہوں نے آنکھوں کا آپریشن کروایا ہے ۔ویسے بھی اُن کے ”کنٹینر ” پر کام جاری تھا کیونکہ پچھلی بار اسلام آباد کی لہو جماتی سردی میںکنٹینر کو بھی ”ٹھَنڈ” لَگ گئی تھی اِس لیے اب وہ انقلاب کی ”فائنل کال” پر ہی تشریف لائیں گے ۔کنٹینر سے یاد آیا کہ کچھ بَد بختوں نے مُرشد پر الزام دھرا کہ اُن کے کنٹینر کی تیاری پر بارہ کروڑ روپے صرف ہوئے جو بالکل جھوٹ ، لغو اور بے بنیاد ہے اور ہمارے ”مصدقہ عِلم” کے مطابق کنٹینر پر گیارہ کروڑ پچانوے لاکھ پچانوے ہزار پانچ سو پچیس روپے ننانوے پیسے لاگت آئی۔
اگر کوئی ہمیں چیلنج کرے تو ہم ثابت بھی کر سکتے ہیں ۔خیر یہ تو ماضی کا قصّہ ہے جبکہ ہم ”حال” میں جینے والے لوگ اور حال کی صورتِ حال یہ ہے کہ اب کی بار مُرشد نے عوامی انقلاب کی نوید سناتے ہوئے یہ فرمان جاری کر دیا ہے کہ وہ کرپٹ حکمرانوں کو بہت جلد ملک سے ”کِک آؤٹ” کر دیں گے ۔مُرشد کے قہر و غضب سے بچنے کے لیے اب خادمِ اعلیٰ بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی ایک ”دھیلے” کی کرپشن بھی ثابت کر دے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔
مُرشد نے فرمایا کہ جو لوگ اُنہیں ”کینیڈوی” کہتے ہیں ، وہ سُن لیں کہ کینیڈا سے پاکستان آنے میں صِرف تیرہ گھنٹے لگتے ہیں اور وہ عنقریب پاکستان آ کر انقلابی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے ملک کو ”کرپٹ نظام ” سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیں گے ۔اُنہوں نے کہا کہ ملک میں 35 صوبے بنائیں گے ، ہر صوبے میں سپریم کورٹ ، ہر ضلعے میں ہائی کورٹ اور ہر تحصیل اور یونین کونسل میں سیشن کورٹ اور سِول عدالتیں قائم کی جائیں گی جن میں کم و بیش10 لاکھ افراد کی کھپت ہو گی ، غریبوں کو روزگار ، پانچ لاکھ ایکڑ مفت اراضی ،مفت مکانات ، مفت تعلیم اور آدھی قیمت پر کھانے پینے کی اشیاء مہیا کی جائیں گی۔
میں نے مُرشد کا یہ عظیم منصوبہ جب ایک جاننے والی کو بتلایا تو اُس نے مجھے ایک گھِسا پٹا لطیفہ سنایا، آپ بھی سُن لیجئے۔ ایک بِلّی بہت بھوکی تھی اور چوہا تھا کہ اپنے بِل سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔آخر کار بِلّی کو ایک ترکیب سوجھی اور اُس نے چوہے کو مخاطب کرکے کہا ”بھانجے ! اگر تُم اِس بِل سے نکل کر اُس بِل میں چلے جاؤ تو مَیں تمہیں پانچ سو روپے دونگی ”۔چوہے نے لالچ میں آ کر پہلے تو اپنے بِل سے تھوڑا سا مُنہ باہر نکالا لیکن فوراََ ہی اندر گھُس گیا ۔بھوکی بِلّی نے چلاتے ہوئے کہا ”بھانجے ! کیا ہوا؟”۔ چوہا بولا ”خالہ ! پَینڈا تھوڑا ، تے پیسے بوہتے نیں ۔اے کوئی چَکر اے”(خالہ! پیسے کَم اور فاصلہ زیادہ ہے اِس لیے کوئی چکر ہے)۔
Supreme Court
لطیفے پر ہمیں” تَپ” تو بہت چڑھی لیکن” اندرو اَندری” خوفزدہ بھی بہت ہوئے کہ اُس کمبخت کی باتوں میں دَم تو تھا ۔اُس وقت سے ہم اسی حساب میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ اگر سپریم کورٹوں کے 35 چیف جسٹس ہونگے تو ہائی کورٹوں کے کتنے ہونگے؟۔ کتنے جسٹس ، کتنے سیشن جج اور سول جج ہونگے ؟۔35 وزرائے اعلیٰ اورگورنرز کے علاوہ کتنے وزیربا تدبیر، کتنے مشیر سشیر ، اور کتنے پارلیمانی سیکرٹریز ہونگے ۔35 چیف سیکرٹریز کے ساتھ کتنے سیکرٹری ، ایڈیشنل ، ڈپٹی اور اسسٹنٹ سیکرٹری ہونگے؟۔یہ سلسلہ تو شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا جا رہا تھا جبکہ دَس لاکھ افراد کی کھَپت تو یہیں پوری ہو گئی اِس لیے ہم نے ”مٹّی پاؤ” پالیسی پر عمل کرتے ہوئے یہ سوچا کہ ”سانوں کی۔
ہمارے مُرشد چونکہ ”کَرنی والے پیر” بھی ہیں ، شیخ الاسلام بھی ، ڈاکٹر بھی ، علامہ بھی اور وکیل بھی ، اِس لیے اُنہوں نے کچھ نہ کچھ تو سوچ ہی رکھا ہو گا ویسے مُرشد کے اِس منصوبے کا اتنا فائدہ تو بہرحال ضرور ہو گا کہ ہر سیاسی جماعت کے حصّے میں کچھ نہ کچھ ضرور آ جائے گا اور پھر راوی عیش ہی عیش لکھے گا۔
ہمارے ”الطاف بھائی” نے جب پاکستان آنے کی ٹھانی تو اُن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ۔اُنہوں نے پاکستانی پاسپورٹ کے لیے”سَچی مُچی کی ” درخواست دے ڈالی لیکن وزارتِ داخلہ وہ درخواست ”ڈکار ” گئی اور اب ”مَیڈم وزارتِ داخلہ” کہتی ہے کہ الطاف بھائی نے تو سرے سے کوئی درخواست ہی نہیں دی ۔ہم وزارتِ داخلہ کو خبر دار کرتے ہیں کہ ڈَر اُس وقت سے جب الطاف بھائی کی ”بڑھکوں” سے کپتان صاحب کی سونامی سے بھی بڑی سونامی آ جائے گی ۔ابھی تو ایم کیو ایم نے صرف اتنا کہا ہے کہ اگر الطاف بھائی کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہ دیا گیا تو کراچی کو ایک سال کے لیے بند کر دیا جائے گا لیکن اگر الطاف بھائی نے حکم صادر فرما دیا تو ایم کیو ایم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کو بھی بند کر سکتی ہے۔ اِس لیے وزارتِ داخلہ باقی سب کام ادھورے چھوڑ کر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا بندوبست کرے وگرنہ ہم بھی یہ کہنے پر مجبور ہونگے کہ ”گَنڈاسا اُٹھاؤ الطاف بھائی ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
ہمارے” عظیم رہنما” عمران خاںنے بالآخر اسلام آباد کے ڈی چوک کو التحریر سکوائر” میں بدل ہی دیا ۔ہمیں تو یہ انسانوں کا سمندر لگتا تھا لیکن تجزیہ نگاروں کو صرف ستائیس ، اٹھائیس ہزار ۔بہرحال مجمع جتنا بھی تھا ، سونامیے بھی خوش تھے اوراپنے شیخ رشید احمد بھی ۔شیخ صاحب نے تو کپتان صاحب کو یقین دلانے کے لیے ”خُدا کی قسم” اُٹھا کرصرف دَس منٹ میں اسمبلی الٹنے کا دعویٰ بھی کر دیا لیکن خان صاحب آڑے آ گئے اور اسمبلی اُلٹنے سے بال بال بچ گئی۔
ویسے ”آدھا کام” تو 11 مئی کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہو ہی گیا، باقی آدھا 23 مئی کو فیصل آباد میں ہو جائے گا اوراسمبلی بھی خود بخود اُلٹ جائے گی اور یہ صرف اور صرف حکمرانوں کی ہَٹ دھرمی کی وجہ سے ہو گا کیونکہ کپتان صاحب تو بار بار یہ کہتے رہے کہ الیکشن میں کی جانے والی دھاندلیوں کا کوئی حل تلاش کر لیں لیکن جب حکمرانوں کے کانوں پرجُوں تک نہ رینگی تو” تنگ آمد ، بجنگ آمد” کے مصداق ہم ”سونامیوں”نے بھی طے کر لیا کہ عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر دامن کو اُس کے آج حریفانہ کھینچئے