نیا پاکستان میں فکر عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا آج کل دنیا بھرمیں جہاں بھی پاکستانی رہتے ہیں وہاں پر بحث جاری ہے ۔کہ اگر برس ہا برس سے بددیانت اور بدنیت حکمران اقتدار میں رہ سکتے ہیں، تو ایک ایسا شخص کیوں نہیں رہ سکتا جس پر ایمانداری کے حوالے سے ایک اُنگلی نہیں اُٹھائی جاتی، نیک نیتی کے حوالے سے بھی نہیں اٹھائی جاتی، دیگر حوالوں سے بھی دیگر حکمرانوں اور سیاستدانوں کے مقابلے میں بہت کم اُٹھائی جاتی ہیں۔
صرف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے کہ جو لوگ عمران خان کو لے کر آئے ہیں وہ آج پچھتا رہے ہیں۔ حکومت نے پاکستان کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، عام آدمی کی زندگی عذاب بنتی جارہی ہے۔ انشاء اللہ اس سول آمریت کی حکومت سے عوام کی جان جلد چھوٹے گی۔
پاکستان کا وزیراعظم کشکول لے کر پوری دنیا میں گھوم رہا ہے، یہ نا اہل حکمران ہے جو اس وقت بھکاری بنا ہوا ہے حکومت احتساب کے نام پر انتقام لے رہی ہے، ہم نے پاکستان کی خدمت کی ہے۔ پہلے بھی خدمت کا صلہ جیلوں اور انتقام کی شکل میں دیا جاتا رہا ہے اور آج بھی دیا جارہا ہے، ہمارے ہاتھ صاف اور ضمیر مطمئن ہیں، ہم سر خرو ہو کر نکلیں گے۔سمیت دیگر بیانات سرفہرست ہیں ۔ ماہر ین کی آراء ہیں کہ حقیقت میں جوکچھ اپوزیشن رہنماء کرتے رہے ہیں یہ ان کارناموں کا نتیجہ ہے ۔ اب وہ اپنے سابق جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔
تجزیاتی وتحقیقی جائزہ سے پتہ چلاتا ہے کہ عمران خان نے اپنی سیاسی ، سماجی اور صحافتی زندگی میں بہت سے کارنامے سرانجام دیئے ہیں ۔اور آج وزیر اعظم پاکستان ہیں ۔بتایاجاتاہے کہ 1990ء کی دہائی کے دوران عمران خان نے کھیلوں کے لیے یونیسیف کے خاص نمائندہ کے طور پر بنگلہ دیش، پاکستان، سری لنکا اور تھائی لینڈ میں صحت اور امیجریشن پروگراموں کو فروغ دیا۔ لندن میں کرکٹ کے فلاحی ادارے لارڈ ٹیورنرز کے لیے بھی کام کر چکے ہیں۔ عالمی کرکٹ کپ منعقدہ 1992ء کے بعد کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی، اس کے بعد سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔
اپنی والدہ کے نام پر شوکت خانم میوریل ٹرسٹ کی بنیاد رکھی، ٹرسٹ کی پہلی کوشش کے طور پر پاکستان کے پہلے اور واحد کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھی۔اس کی تعمیر کے لیے پوری دنیا سے 25 ملین ڈالر سے زائد عطیہ اور فنڈز جمع کئے۔کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان مختلف برطانوی اور ایشیائی اخباروں میں خاص طور پر پاکستان کی قومی ٹیم کے بارے میں آرٹیکل تحریر کرتے رہے ہیں۔ بی بی سی اردو اور اسٹار ٹی وی نیٹ ورک سمیت ایشیائی اور برطانوی کھیلوں کے نیٹ ورک پر کرکٹ مبصر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔کرکٹ کیریئر کے دوران عمران خان کو کئی مرتبہ سیاسی عہدوں کی پیش کش کی گئی۔
25 اپریل 1996ء کو تحریک انصاف قائم کر کے سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ ابتدائی طور پر انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ لیکن حالیہ دنوں میں وہ اپنی جدوجہد اور اصول پرستی کی بدولت پاکستانی عوام، خصوصاً نوجوانوں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے نعرےْ کرپشن اور سیاسی مافیا کا خاتمے کی وجہ سے مشرف کی فوجی آمریت کی حمایت کی۔ مشرف انہیں 2002ء میں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔2 اکتوبر، 2007 کو جنرل مشرف نے آرمی چیف کے عہدے سے استعفیٰ دیے بغیر صدارتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کے خلاف آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے دیگر 85 اسمبلی ارکان کے ساتھ مل کر عمران خان نے تحریک چلائی۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ کئی سالوں سے عمران خان کی ملک میں کرپشن اور سیاسی مافیاکے خاتمے کی سوچ نے نئی نسل کو ایک نیاپاکستان دیا ، جس میں مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی کے اہم رہنماؤں کی تمام پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہولگی ہیں منی بجٹ پر عوام اور سرمایہ کاروں کی جانب عوام دوست بجٹ کہا جارہاہے ،ملک بھر کے نجی وسرکاری اداروں کے ایماندارملازمین بھی خوش ہیں ،پریشانی تو صرف اور صرف کرپٹ مافیاکو اپنے کارناموں پر ہے جس سے خزانے اور قوم کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا رہا ہے۔
ماہرین ، قانون دانوں ، تاجروں اور مبصرین کی جانب سے پیشنگوئی کی جارہی ہے کہ فکر عمران خان سے ’’ نیاپاکستان ‘‘ خطروں کے باوجو د وطن میں ترقی وخوشحالی لائے گا۔ جس سے پاکستانیوں کا دنیا میں ایک مقام ہوگا ۔ اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے خلاف سازشی ملک دشمن عناصر بے نقاب ہوجائیں گے ،عوام کا پیسے عوام خرچ ہوگا ۔اور انصاف کا بول بھولا ہوگا ۔ ہر شہری خوشحال ہوگا ۔ جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوگا ۔آج کے اپوزیشن رہنماء بھی عمران خان کے قومی مفادات کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کو بھی جلد درست تسلیم کرلیں گے ۔ جلدبہت سے کاموں میں اپوزیشن اور حکومت یک جان نظر آئے گی۔