ہمارے ہاں مخالفت برائے مخالفت کرتے ہوئے ہم یہ تک نہیںسوچتے کہ ہماری ناجائز مخالفت سے ہماری ناپسندہ حکومت کے لیے صرف پریشانی کاباعث ہے یا ہماری مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مفادات پر چوٹ پڑھ رہی ہے۔ہمیں کیوں نہیں سمجھ آتی کہ ہمارا ملک بھارت سے جنگ کی حالت میں ہے،اور ہم ہیں کہ وقت کی حکومت کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں کرپشن میں گرفتار دو سیاسی پارٹیوں کے حمائیتی حضرات کشمیر میں جاری دوہفتوں کے کرفیو اور بھارتی فوجیوں کے مظالم کے متعلق بات کرنے کے بجائے،کہتے ہیں کہ جی فلاں عورت کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ فلاںمرد کو جیل میں اے کلاس ملنی چاہیے۔کیا اس وقت بھارت سے جنگ کے ماحول میں صرف یہ ہی باتیں رہ گئیں ہیں۔بھائی، نہ یہ صاحبان کرپشن کرتے نہ ان پر ایسی مصیبت طاری ہوتی۔ پھرکشمیر کے مسئلہ کو ہی لیں ،ٹی وی ،اخبارات اور سوشل میڈیاپر ایسی خبریں آرہی ہیں جس سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔اگر ہم بھارت نواز ، قادیانی،سیکولر اور لبرل لابی کی بات کریں تو ملک کو نقصان پہنچانا تو ان کا پرانا ایجنڈا ہے۔ ان کو ان کے جھوٹ کا مناسب جواب محب وطن حضرات کی طرف سے مل رہا ہے۔ مگرکچھ لوگ ناسمجھی میں ملک کی مخالفت میں بے معنی افوائیں پھیلاتے رہتے ہیں۔
عمران خان کے امریکی دورے کے درمیان امریکا کے صدرڈونلڈ ٹرمپ صاحب نے کہا تھا کہ مجھے مودی نے کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کے کردار کے لیے کہا تھا۔ گو کہ مودی حکومت نے اس کی تردید کر دی ۔ مگر امریکی حکام اپنے صدر کے بارے بیان پر ڈٹے رہے۔اسی دوران ایک بار پھر عمران خان اور ٹرمپ کے درمیان پھر کشمیر کی موجودہ صورت حال پر ٹیلیفونک بات ہوئی۔عمران خان نے فرانس کے حکمران کے علاوہ چار مستقل ویٹو پاور والے ملکوں کے سربراہوں سے سلامتی کونسل کے کشمیر بارے بند کمرے میں میٹنگ سے قبل بات چیت کی۔ عمران خان کے امریکا کے دورے کی بات کی جائے تو عمران خان کے مخالفوں نے ایک بہت ہی بڑے اجتماع کے لیے کہا گیا کہ اس میں اکثریت قادیانیوںکی تھی۔ یہ سفید جھوٹ ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ امریکا کی ساری ریاستوں سے پاکستانی ،عمران خان کے اِس جلسے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
بلا شبہ یہ کسی بھی پاکستانی حکمران کے امریکی دورے کے دوران بہت بڑا ہی بڑاجلسہ تھا۔ سوشل میڈیا میں عمران کے مخالف یہ بات کر رہے ہیںکہ سیکورٹی کونسل کا اجلاس چین کے مطالبہ پر ہو ا ۔اس میں عمران خان حکومت کی کوئی کوشش نہیں۔جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی تو پاکستان کی کیبنیٹ میٹنگ میں طے ہوا تھا کہ پاکستان سیکورٹی کونسل میں معاملہ اُٹھائے گا۔ چنانچہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے سیکورٹی کونسل کو خط لکھا۔ پاکستان کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب ملیحہ لودھی صاحبہ نے اسی خط کو سیکورٹی کونسل کے سیکرٹیری کو پیش کیا تو سیکورٹی کونسل کا اجلاس ہوا۔ جس میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصر اور انسانی حقوق کے نمائندوں نے اپنی اپنی رپورٹ پیش کی۔ سیکورٹی کونسل میں بھارت سے کہا گیا کہ یہ آپ کااندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں موجود ہے۔
کشمیر میںانسانی حقوق کی خلاف دردی پر بھی بھارت کو سخت پیغام دیا گیا۔بھارتی میڈیا نے بھی اقوام متحدہ میں چین کی طرف سے پاکستان کی حمائیت کی تصدیق کی۔ چین نے لداخ میں اکسائے چین کے معاملہ پر بھارت کو سخت خبردارکیا۔ عمران خان اور ہماری مسلح ا فوج نے بھارت کے غیر آئینی اقدام ،کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف سخت ترین مو قف اختیار کیا۔ فوج نے کہا کہ آخری گولی اور آخری فوجی تک بھارت سے لڑیں گے۔ فوج اور سول قیادت نے کہا کہ اگر بھارت نے جنگ بندی لین پر کسی قسم کی بھی جاریت کی تو فوج اینٹ کا جواب پتھر سے دے گی۔ اگر بھارت نے پلومہ جیسا ڈرامہ رچا کر جنگ بندی لین پر کوئی بھی اڈونچر کی کوشش کرے گا تو پاکستان کارد عمل بلاکوٹ کے ڈرمے کے رد عمل سے بھی سخت ترین ہو گا۔ عمران خان نے کہا کہ بھارت یہ بات نوٹ کر لے کہ ہم کشمیریوں کے حق خوداداریت کے ساتھ ہیں۔ یہ حق انہیںاقوام متحدہ نے دے رکھا ہے۔ جس کے لیے اقوام متحدہ کے پاس گیارا قراردادیں اس وقت بھی موجود ہیں۔
جب بھارت نے ٣٧٠ اور٣٥۔اے ختم کرکے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں شامل کر لیا ہے۔ اس غیر آئینی اقدام کو کشمیریوں نے اس رد کر دیا۔ ساری کشمیری لیڈر شپ ایک ہو گئی ہے۔بہتر (٧٢)سال سے مقبوضہ کشمیر پر حکومت کرنیوالے خاندانوںجس میںبھارت نواز محبوبہ مفتی صاحبہ کا خاندان اور تین پشتوں سے حکمرانی کرنے والے شیخ عبداللہ مرحوم کا خاندان بھی شامل ہے۔ پوری دنیا میں پاکستانی اور کشمیری ایک زبان ہو کر بھارت کی اس حرکت کے خلاف ریلیاں نکال کر نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنے سفارت خانوں میں کشمیر ڈکس قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
نون لیگ کو عمران خان کی یہ کامیابیاں ہضم نہیں ہو رہیں۔ نون لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب صاحبہ کا یہ کہنا کہ عمران خان کی کوئی بھی کامیابی نہیں۔ عمران خان سارے کے سارے پرچوں میں فیل ہے۔ یہ کہاں کاانصاف ہے۔کیایہ عمران خان کی کامیابی نہیںہے کہ پچاس سال بعد اقوام متحدہ میں کشمیر کی پہلی دفعہ آواز سنی گئی۔جب عمران خان نے پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس بلا کر بھارت کی جا ریت پر بات کرنے کا کہا تو اپوزیشن نے کرپشن کی وجہ سے جیلوں میں بنداپنے لیڈروں کی بات شروع کر دی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کے سیاست دان کشمیر کے معاملے کی بجائے اپنی کرپشن کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ آخر میں کشمیر پر مشترکہ قرارداد پاس کی گئی۔
اس نازک موقعہ پر کشمیر کے مسئلہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اپنی سیاست کو چھوڑ کر حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے ورنہ یاد رکھیں تاریخ پاکستانی ساستدانوں کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔جماعت اسلامی کے سیکرٹیری جرنل جناب امیر العظیم صاحب نے اعلان کیا ہے کہ اختلاف کے باوجود کشمیر مسئلہ پر ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔
نواز شریف کے دور حکومت میں کارگل کی جنگ ہوئی۔ فوج کے ساتھ یک سو ہونے کے بجائے نواز شریف نے فوج کے خلاف غلط رویہ اختیار کیا تھا۔ پرویزمشرف نے کارگل پر کاروائی کرکے سیاہ چین پر بھارتی فوجیوں کی رسد توڑ ڈالی تھی۔ نوازشریف کوجلدی جلدی امریکا صدر کے پاس جاکر پاکستانی فوجوں کو واپس بلانے کا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جنگ بندی سے کارگل سے واپس آنے والی پاکستانی فوج کاکافی جانی نقصان ہوا تھا۔ اگر کچھ عرصہ کارگل سیاہ چین شاہراہ پر پاکستانی فوج کا قبضہ برقرار رہتا تو سیاہ چین پر موجود بھارتی فوجیوں کو رسد نہ ملتی اوربھارت سیاہ چین خالی کرنے پر مجبور ہو جاتا۔ بجائے معاہدہ کرنے کے امریکہ کو یہ باور کرنا چاہیے تھا کہ شملہ معاہدے کے بعد بھارت نے قانون کی خلاف وردی کرتے ہوئے سیاہ چین کے علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ ہم نے بھی سیاہ چین کی رسد بند کرنے کے لیے کارگل سیاہ چین شاہراہ پر قبضہ کیا ہے۔ بھارت سے سیاہ چین خالی کرایا جائے ۔ وہ شملہ معاہدے کے وقت کی سرحدوں پر چلا جائے۔ پاکستان بھی کارگل شاہراہ پر قبضہ چھوڑ دے گا۔ مگر اس میں جرأت کی ضرورت تھی جو نواز شریف میں نہیں۔ نواز شریف بھارت کے ساتھ ہمیشہ معذرت خواہانہ رویہ رکھے ہوئے تھا۔
موددی جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے جو پاکستان کے ٹکڑے کرنے کا کہتا تھا۔ نواز شریف نے اس سے دوستی کی۔ مودی کو بھارت کے خفیہ کے چیف، بھارت کے اسٹیل ٹائیکون جو نواز شریف کے ذاتی دوست ہیں، کو بغیر ویزے کے اپنے گھر لاہور بلایا۔ اس اسٹیل ٹائیکون کو بغیر ویزے کے مری اپنے پاس بلایا۔میڈیا کے شور مچانے پر مغل شہزادی مریم صفدر صاحبہ نے بیان دیا کہ ہمارے فیملی فرینڈ ہیں۔نواز شریف فیملی کو معلوم ہو نا چاہیے کہ ایسی ہی غیر آئینی حرکتوں کی وجہ سے آپ کو مغل خاندان کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت سے پاکستان کے کور مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھتے ہوئے آلو پیاز کی تجارت کی۔نواز شریف نے ہمیشہ اپنی پاکستانی فوج سے لڑائی کی۔کیا یہ ہی وجہ ہے اجیت دول نے نواز شریف کی گرفتاری پر ان کے حق میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے نواز شریف پر انوسٹمنٹ کی ہوئی ہے ہم اسے ضرور بچائیں گے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ سے ہمیشہ کے لیے نا اہل قرار ہونے پر فوج اور عدلیہ کے خلاف پاکستان کے شہروں شہر محاذ کھول کر دونوں اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ پھرکہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟جناب آپ کی پاکستان دشمن حرکتوں کی وجہ سے اللہ نے آپ کو نکالا ہے۔ عدالت تو ایک بہانہ تھا۔سیاسی اختلافات پر جو بھی سیاسی پارٹی پاکستان دشمن رویہ اختیار کرے گی عوام اُسے اُٹھا پھینکیں گے۔عمران خان کو خود دوست ملکوں کے دورے کر کے اگر کچھ غلط فہمی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنے چاہیے۔ سینیٹر اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران خان کو اسلام آباد میں عالمی کشمیرکانفرنس منعقد کرکے بھارت کی گیڈر بھبکیوں کامناسب جواب دینا چاہیے۔ بھارت سے تجارت اور سمجھوتہ ایکپریس کی بندش کے ساتھ ایئر اسپیس بھی بند کر دینی چاہیے۔ عمران خان حکومت کے کشمیر بارے موثر اقدام سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیری خوش ہیں۔ آزاد کشمیر کے عوام اور حکومت بھی بھی عمران خان کے اقدامات سے مطمئن ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں پندرہ دن سے کرفیو کی وجہ سے گھروں میں بند ہیں۔ ساری دنیا اور خود بھارت کے انصاف پسند حلقے مودی کی کشمیربارے فیصلہ پر تنقید کر رہے ہیں۔ اللہ جلد از جلد کشمیر کو آزادی کا دن نصیب کرے آمین۔