اسلام آباد (جیوڈیسک) آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی میں براہ راست ملوث ہیں۔ نواز شریف کے اقتدار میں رہتے ہوئے آزاد تحقیقات ممکن ہی نہیں ہیں۔ نواز شریف کے اقتدار میں ہوتے انصاف ملتا تو قبول کر لیتا۔
جب تک وزیراعظم میاں محمد نواز شریف وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ نہیں دیں گے ہم نہ تو اسلام آباد سے واپس جائیں گے اور نہ ہی حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات کرینگے۔ حکومت سے بات چیت کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم 14 ماہ بھٹکتے رہے لیکن ہمارے لئے انصاف کا ہر دروازہ بند کر دیا گیا۔ اب عوامی دبائو کے باعث مسلم لیگ (ن) نواز شریف کے استعفے کے علاوہ ہر مطالبہ ماننے کو تیار ہے جبکہ حکومت مجھے ڈپٹی وزیراعظم بنانے پر بھی تیار ہو گئی ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں۔ اگر آپ لوگ اب پیچھے ہٹے تو وزیراعظم کے نیچے آزاد تحقیقات نہیں ہو سکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ ہم فوج کے کہنے پر اسلام آباد آئے ہیں۔ میں ایک جمہوری شخص ہوں۔ اگر ہم فوج کے کہنے پر آئے ہوتے تو گزشتہ دو ہفتوں سے سڑکوں پر نہ بیٹھے ہوتے۔ میں نواز شریف کی طرح فوج کی نرسی میں پل کر بڑا نہیں ہوا۔
میں نے سابق صدر پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں اس کا ساتھ دینے پر قوم سے مانگ لی تھی. واضع رہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور بھی ناکام ہو گیا ہے۔ وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر دونوں فریقین پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومتی کمیٹی کا موقف ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا استعفیٰ بحران کا حل نہیں ہے۔ وزیراعظم کے استعفے سے سیاسی اور معاشی بحران بڑھے گا۔ تحقیقات سے پہلے استعفے کا مطالبہ بلا جواز ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے متعلق اپنے موقف پر ابھی تک برقرار ہے۔ پی ٹی آئی کمیٹی کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی موجودگی میں تحقیقات شفاف نہیں ہونگی۔ وزیراعظم کا استعفیٰ نہ دینا جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات پر اثرانداز ہوگا۔ فریقین کی جانب سے اپنے اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹنے کے باعث مذاکرات بے نتیجہ ہی ختم ہو گئے جس کے بعد حکومتی کمیٹی کے ارکان میڈیا سے گفتگو کئے بغیر ہی روانہ ہو گئے۔
تحریک انصاف کے رہنماء شاہ محمود قریشی کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ حکومت کیساتھ ڈیڈ لاک برقرار ہے میرے پاس کوئی نئی بات کرنے کو نہیں ہے جبکہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ مذاکرات دوبارہ بحال ہو سکتے ہیں لیکن اس کا انحصار حکومتی رویے پر ہے۔