عمران خان حکومت پر ١٠٠ دن سے پہلے ہی اپوزیشن کے ڈرون حملے

Opposition

Opposition

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ

عمران خان کی نئی حکومت پر اپوزیشن نے سو(١٠٠) دن پورے ہونے اور ترجیحات ظاہر ہونے سے پہلے ہی ڈرون حملے شروع کر دیے گئے۔ اگر ہم اپوزیشن کے موجودہ رویہ پر ذرا غور سے تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی ان ہونی بات نہیں۔اپوزیشن کو عمران خان کی ترجیحات پہلے سے معلوم تھیں فرق صرف یہ ہوا کہ اپوزیشن کی تواقعات کے برخلاف عمران ٢٠١٨ء کے الیکشن جیت گئے۔اپوزیشن والے اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ عمران خان نے الیکشن، علامہ اقبال کے پاکستان بارے خواب،قائد اعظم کے وژن اور کرپشن سے پاک ،پاکستان اور پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے منشور کے تحت جیتے ہیں۔

عمران خان کامنشور اپوزیشن کی ساری جماعتوں کی خواہشات کے برعکس ہے۔ پیپلز پارٹی سیکولر اور روشن خیال منشور رکھتی ہے۔ جو عمران خان کے منشور سے لگا نہیں کھاتا۔نون لیگ کے سربراہ نے قائد اعظم کے دو قومی نظریہ جو پاکستان کی بنیاد ہے کی نفی کرتے ہوئے، امریکا اور بھارت کے بیانیہ کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ میں سیکولر ہوں۔ہندوئوں اور مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں، صرف ایک لکیر نے ہم کو علیحدہ کیا ہوا ہے۔ یہ بیانیہ قائد اعظم کی وژن کے برخلاف ہے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب نے مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا۔اسلام سے زیادہ انہیں اقتدار سے محبت ہے۔ وہ ہر حکومت وقت کے حمایتی رہتے ہیں اور فوائد اُٹھاتے ہیں۔ جس کو عوام نے پسندنہیں کیا۔

اب جب عمران خان نے اپنے منشور پر عمل درآمدکرتے ہوئے ایک ایک کر کے اپنے وعدوں پر پورے کرنا شروع کر دیے۔ تو اپوزیشن نے سو(١٠٠) دن کا انتظار ایک طرف رکھ کر عمران خان حکومت کے خلاف ٹھنڈے سوٹے اُٹھا لیے، اکٹھے ہو گئے اور ڈرون حملے شروع کر دیے ۔پیپلز پارٹی جو اپنے آپ کو سیکولر اور روشن خیال پارٹی کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرتی ہے جوکرپشن کے حوالے سے مشہور و معروف ہے، کس طرح مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کرپشن سے پاک پاکستان والے عمران خان حکومت کو برداشت کر سکتی ہے۔دنیا جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے” کو” چیئرمین مسٹر ٹین پرسنٹ کے اعزاز سے مشہور ہوئے ۔ جب اپنی صدارت کے دوران وہ لندن دورے پرگئے تو لندن کی ایک اخبار نے سرخی لگائی تھی کہ” مسٹر ٹین پرسنٹ، ٹین ڈائون اسٹریٹ کے دورے پر”اب جب ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات، جو نواز شریف دور میں قائم ہوئے تھے پھر سے کھل گئے ہیں اور عمران خان کرپشن فری پاکستان کے اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ان کو کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف ملک کی عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے۔

ان حالت میںپیپلز پارٹی، کیسے عمران خان عمران خان کو اپنی منشور پر عمل کرنے دے گی بلکہ اس پر دبائو بڑھائے گی۔پیپلز پارٹی جو نون لیگ کی خلاف تھی۔ الیکشن میںنون لیگ سے اتحاد بھی نہیں کیا تھا اورعلیحدہ سے الیکشن لڑا۔ جب نون لیگ اور فضل الرحمان صاحب نے عمران خان کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ آسمانی مخلوق (فوج)نے عمران خان کو جتایا ہے۔ پھر حلف نہ اُٹھانے اور حکومت نہ چلنے دینے کی پالیسی کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی نے مخالفت کی تھی اور پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپوزیشن کرنے کی بات کی تھی۔ بلکہ ایوان زیرین اور ایوان بالا(پارلیمنٹ )میں نون لیگ کی پالیسی کے برخلاف ووٹ استعمال کیے۔پیپلز پارٹی کے”کو” چیئرپرسن بار بار نواز شریف پر بے وفائی کا الزام لگاتے رہے۔لیکن اب سب اکٹھے ہوئے ہیں۔ عمران خان دشمنی میں زمنی الیکشن مل کر لڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے بیان دیا کہ ہم نے تو سو(١٠٠) دن دینے کا اعلان کیا تھا مگر عمران خان کے شروع کے اقدامات کی وجہ سے پیپلز پارٹی عمران خان کی پالیسیوں کی مخالفت کرے گی۔

گو کہ پاکستان کی آزاد عدلیہ کی وجہ سے نواز شریف کی قید کے خلاف داہر اپیل کو سنا گیا۔ نیب کورٹ کی طرف سے قید کی سزاکو بھی معتل کر دیا۔نوز شریف،مریم نواز اور کیپٹن صفدر صاحبان کو رہا بھی کر دیا۔ مگر نواز لیگ نے اپنا پرانا فوج اور عدلیہ کے خلاف بیانیہ سے رجوع نہیں کیا۔ اپنی پُرانی چال پر عمل کرتے ہوئے پاکستانی فوج کو دنیا میں بدنام کرنے کے لیے اپنے ایک رہنما رانا مشہود صاحب سے بیان دلوا دیا کہ پاکستانی فوج سے نون لیگ کے تعلوقات ٹھیک ہو گئے ہیں۔ کچھ مدت بعد پنجاب کی حکومت نو ن لیگ کی بن جائے گی۔ اس طرح نون لیگ کے بیانیہ کو پھر سے تازہ کیا گیا۔ جیسے سپریم کورٹ سے نا اہل قرار پانے پر کہا گیا تھا کہ جمہورت کو خطرہ ہے۔ فوج مارشل لا لگانے والی ہے۔ فوج اور عدلیہ نے مل کر نون لیگ حکومت کو ختم کیا ہے۔ پارلیمنٹ توڑ دی جائے گی۔جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔سینیٹ کے انتخابات نہیںہونگے۔ فوج اور عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے یہ بیانیہ نون لیگ کے سربراہ، ان کی بیٹی، اس کے لیدڑوں ،ان کے سوشل میڈیا، ان کے حمایتی الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا، ٹی وی اینکر اور صحافیوں نے خوب پھیلایا۔ ہم نے اپنے کالموں میں لکھا تھا کہ نہ مارشل لا لگے گا۔ نہ پارلیمنٹ ٹوٹے گی۔

نہ جمہوریت میں خلل پڑے گااور سینیٹ کے الیکشن وقت پر ہونگے۔پاکستان کے عوام کو یاد ہے کہ پاکستان کی فوج نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت زرداری صاحب کی صدارت کے دوران،سابق سپہ سالار کیانی صاحب نے اپنے ڈی جی آئی ایس آئی کو ایوان زیرین( پارلیمنٹ )میں بھیجا تھا ۔ آئی ایس آئی کے ڈی جی نے ایوان زیرین میں بیان دیا تھا کہ فوج نے آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ ختم کر دیا ہے۔ فوج نے اس کے بعد پالیسی طے کر دی تھی کہ ملک کے حالت چاہے، سیاست دان کیسے بھی کر دیں، اب ملک میںمار شل لا نہیں لگائیںنگے۔ بلکہ جمہوری دنیا کے مروجہ طریقے کے مطابق فوج اپنا اثر رسوق استعمال کر کے ملک کے حالت درست کرنے کی کوشش کرے گی۔ موجودہ سپہ سالار نے فوج کی طے شدہ پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مار شل نہیں لگایا۔ نواز لیگ کی عبوری حکومت کے دوران صرف حالات درست کرنے کی کوشش کی جو قابل تعریف ہے۔

نوز شریف کے نا اہل قرار دینے کے بعدنون لیگ کی تواقعات کے برخلاف ، پھر نہ آسان گھرا۔ نہ جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی۔ نہ ایوان بالا( سینیٹ) کے الیکشن روکے گئے۔ نواز شریف کی نا اہلی کے بعد نون لیگ کے خاقان عباسی صاحب نے وزیر اعظم کا حلف اُٹھا لیا اور نون لیگ کی حکومت قائم رہی۔ایوان بالا(سینیٹ) کے الیکشن وقت پر ہوئے۔پاکستان کے آئین کے مطابق جرنل الیکشن بھی ہوئے۔ سپہ سارلا نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایوان بالا (سینیٹ)کے بلانے پر خود آ کر منتخب ممبران کو بریفنگ دی۔ ہاں سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج حضرات نے نوازشریف صاحب کو پاکستان کے آئین کے دفعہ ٦٢۔٦٣ پر پورا نہ اُترنے پرہمیشہ کے لیے سیاست سے نا اہل قرار دیا۔ پھر نیب میں آمدنی سے زیادہ اثاثوں پر مقدمہ چلا ۔ منی ٹرائیل نہ دینے پر نیب کورٹ نے نواز شریف،مریم نوازاور کیپٹن صفدر کو سزا سنائی۔ جس کو ہائی کورٹ نے اب معتل کر دیا۔ تینوں صاحبان اب آزاد ہیں۔ ان حالات میں نون لیگ کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے تھے۔ مگرنواز لیگ نے ایک بار پھر فوج پر حملہ کرنے اور فوج کو دنیا میںبدنام کرنے کے لیے اپنے پرانے فوج خلاف بیانیہ کو زندہ کیا۔ فوج کو بدنام کیا اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ دیکھو پاکستان میں فوج سے ڈیل ہو جائے تو حکومتیں بدلتیں ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بیان کے پانچ گھنٹے بعد جب نون لیگ کے سوشل میڈیا اور الیکٹرنک میڈیا وغیرہ نے جب بیان کوخوب اُچھال لیا تو پھر تردید کی گئی۔ پہلے کی طرح رانا مشہود کی رکنیت معتل کی گئی اور تحقیق کے لیے کمیٹی قائم کی دی گئی۔

صاحبو! ہمارا کہنا یہ ہے کہ اگر عمران خان پاکستان کو اپنی اصل سمت پر لے جانا چاہتا ہے۔جمہوری طریقے سے الیکشن لڑ کر جیتا ہے۔ اپنے منشور پر عمل کرنے کی شروعات بھی کر دیں ہیں۔ تو کیا یہ امرضروری نہیں کہ سیاست دان اپنی ستر(٧٠) سالہ پرانی پاکستان دشمن روش کوبدلیں۔ قائد اعظم کے بعد پاکستان کو سیکرلر اسٹیٹ بنانے کی بے سود کوشش سے رجوع کریں۔ پاکستان، اللہ نے برصغیر کے مسلمانوں کے اس وعدے پر عطاکیا تھا کہ انہوں نے اللہ کے سامنے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ۔ قائد اعظم نے اپنی ساری تقریروں میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی کسی نہ کسی طرح برصغیر کے مسلمانوں کے سامنے تشریع کی تھی۔ تب اسلام سے محبت کے لیے جہاں پاکستان نہیں بننا تھا ان صوبوں کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے حق میں قربانیاں دیں۔ صدیوں سے رہنے والی جگہوں میںاپنے خاندان کے قبرستان، گلی کوچے،محلے اور جائدادیں چھوڑ دیں۔

دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کی۔ پاکستان میں اپنی تمنائوں اور اپنے مذہب اور روایات کے مطابق زندگی گزرانے کی توقع پر پاکستان آئے۔ مگرقائد اعظم کے بعدہر آنے والی ہر حکومت نے مسلمانوں کو اسلام کی مدینہ کی فلاحی ریاست سے دور ہی رکھا۔ اب اگر ستر(٧٠) سال بعد اگر عمران خان اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو ڈھالنا چاہتا ہے ۔تو اپوزیشن نے عمران خان حکومت پر سو دن پورے ہونے سے پہلے ہی ڈرون حملے شروع کر دیے ہیں۔ اپوزیشن کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس نیک کام میں پاکستان کی ٩٠ فی صد خاموش آبادی اور نظریہ پاکستان اور قائد اعظم کے وژن پر اعتماد رکھنے والی اسلامی پارٹیا ں اس کے ساتھ ہیں۔عوام اپوزیشن کو مشورہ دیتے ہیں کہ اس تاریخی موڑ پر اپنی منزل کھوٹی نہ کریں ۔ آپ نے اگر پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو دکھوں کی ماری اور اسلامی کی فلاحی مدینے کی ریاست کو ستر(٧٠) سال سے ترسنے والے عوام کے سامنے سے ہٹ جائیں۔ عمران خان حکومت کو اپنے دستور پر عمل کرنے دیں ورنہ تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی۔اللہ پاکستان کے سیاست دانوں کو ہدایت دے ۔آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ